اٹک خورد
یہ واقعہ اپریل 1813کا ہے جب فتح خان دُرانی ـ15000ـ سپاہیوں کو لے کر اٹک کی طرف روانہ ہوا۔ رنجیت سنگھ نے برہان سے اپنے لشکر کو روانہ کیا اور دونوں فوجوں کے درمیان گھمسان کی لڑائی ہوئی۔ رنجیت سنگھ کی فوج نے درانی فوج کو آگے نہ بڑھنے دیا یہاں تک کہ ماہ جولائی میں انکی زخیرہ شُدہ اشیاء خوردونوش ختم ہونے لگیں اور دُرانیوں کو واپس پلٹنا پڑھا۔ اس جنگ میں رنجیت سنگھ کی برتری کی سب سے بڑی وجہ قلعہ اٹک بتایا جاتا ہے۔ یہ قلعہ ایسے مقام پر واقع ہے جو شمال سے ہونے والی کسی بھی لشکر کشی کی راہ میں سب سے بڑی رُکاوٹ ثابت ہوا ہے۔ قلعہ اٹک سن ـ1581ـ میں تعمیر ہوا۔ یہ مُغل بادشاہ جلال الدین محمد اکبر کا ایک اور شاہکار ہے۔ بنیادی طور پرقلعہ اٹک کو اس لئے تعمیر کیا گیا تھا تاکہ دریائےسندھ کے بہاو کو قابو کیا جا سکے لیکن اسکے ساتھ ساتھ افغانستان اور وسط ایشیا سے ملحقہ خطرات کو بھی مدِ نظر رکھا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ قلعہ اٹک ہمیشہ سے برصغیر کی حفاظت میں اہم کردار ادا کرتا رہا ہے۔ قیام پاکستان کے بعد سے قلعہ کا نظام و نسق حکومت پاکستان کی زیر نگرانی افواج پاکستان کے زیر انتظام ہے۔ صوبہ پنجاب سے صوبہ خیبر پختون خواہ کو ملانے والے اٹک پُل سے اس قلعہ کا نظارہ کیا جا سکتا ہے۔
اس پُل کی خصوصیت یہ بھی ہے کہ یہ دنیا کہ ان چند مقامات میں سے ایک ہے جہاں دو مختلف رنگوں کے دریا آ ملتے ہیں۔ ایسے دریا جو دو مختلف ممالک،زبانوں، قوموں، ثقافتوں، تہزیبوں اور تاریخ کی عکاسی کرتے ہیں یعنی دریائے کابل اور دریائے سندھ۔۔ قلعہ اٹک کے چار دروازے ہیں، دہلی دروازہ، لاہوری دروازہ، کابلی دروازہ اور موری دروازہ۔ اٹک قلعہ اپنی تاریخی اہمیت کے پیش نظر اقوام متحدہ کے زیلی ادارے یونیسکو کا حصہ ہے۔ جس علاقے میں اٹک قلعہ واقع ہے اسے اٹک خُرد کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اٹک خُرد صوبہ پنجاب کا آخری مقام ہے اور یہ نیم پہاڑی علاقہ خوبصورتی میں اپنی مثال آپ ہے۔ جس طرح صوبہ پنجاب کو صوبہ خیبر پختون خواہ سے براستہ سڑک ملانے میں اٹک پُل کی اہمیت ہے اسی طرح دونوں صوبے اٹک خُرد پُل کے ذریعہ سے براستہ ریل ملے ہوئے ہیں۔ پُل سے پیوستہ اٹک خُرد کا ریلوے اسٹیشن ہے۔
گو کہ یہاں پر کوئی ریل گاڑی نہیں رُکتی لیکن یہ اسٹیشن ایک تفریحی مقام کی حیثیت حاصل کر چُکا ہے۔ ان خاموش پہاڑوں اور انکی گہرائی میں خاموشی سے بہتےہوئے دریائے سندھ میں ریل گاڑی ارتعاش پیدا کرتی ہوئی گزر جاتی ہے۔ اسٹیشن سے متصل پُل اور پھر اسکے بعد ایک سرنگ میں داخل ہوتی ہے۔ سرنگ سے نکلنے کے بعد ایک دفعہ پھر اسکا نظارہ کیا جا سکتا ہے جہاں سے وہ شمالی علاقہ جات کی طرف ایک اور موڑ مُڑ کر نظروں سے اوجھل ہو جاتی ہے۔ اٹک خُرد کا پُل تفریحی حیثیت کے ساتھ ساتھ برطانوی انجنرینگ کے فن کا بھی اعلیٰ شاہکار ہے۔ یہ پُل ـ1883ـ میں تعمیر کیا گیا تھا جسکی مہر آج بھی آویزاں ہے۔ اس پُل کے دو حصے ہیں جن میں سے اوپر والا حصہ ریل اور نیچے والا حصہ سڑک پر مشتمل ہے۔ اٹک خُرد ضلع اٹک کا آخری شمالی خطہ ہے۔ ضلع اٹک کی 6 تحصیلیں اور 72 یونین کونسل ہیں۔ یہ پنجاب کا واحد ضلع ہے جسکے ساتھ سب سے زیادہ اضلاع کی سرحدیں ملتی ہیں۔ اس شہر میں ایک پُر اثرار خوبصورتی نظر آتی ہے جو تاریخ کے طالب علموں کے لئے کسی اثاثے سے کم نہیں۔ صرف تاریخ ہی نہیں بلکہ اس کے علاوہ بھی اس شہر نے احمد ندیم قاسمی اور ایئر مارشل نور خان جیسے لوگ پیدا کئے ہیں۔ اٹک شہر کا پرانا نام کیمبل پور تھا جو ایک انگریز افسر کے نام پر رکھا گیا۔ لیکن اس سے قبل بھی اس علاقے کو اٹک کہا جاتا تھا۔ بعض تاریخ دانوں کے نزدیک اس علاقے سے دریائے سندھ اٹک اٹک کر گزرتا ہے جسکی نسبت سے اس شہر کا نام اٹک رکھا گیا۔ اس کے ساتھ ہی آج کی تحریر کو تمام کرتے ہیں۔ ضلع اٹک کی تاریخ، کلچر، ثقافت اور سیاحت کے بارے میں انتہائی دلچسپ معلومات کا یہ سلسہ جاری رہے گا۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
One thought on “اٹک خورد”
Comments are closed.