تحریر : شاندار بخاری
1442 ھجری
مسقط
ہمارے پردادا السیّد جعفر شاہ المعروف امام چاکر شاہ بخاری کا مزار ، مغل شھنشاہ اکبر اعظم کے تعمیر کردہ اٹک قلعہ کے سامنے جنوبی پہاڑی پر واقع ہے ۔ قلعہ کے آس پاس آنے جانے اور اس سڑک پر سے گزرنے کی ہر ایک کو اجازت نہیں کیونکہ قلعہ میں افواج پاکستان کی ایک مخصوص رجمنٹ مقیم ہے لیکن متصل گاوں ملاحی ٹولہ کے شھری اور ہمارے خانوادہ کے افراد اور امام چاکر شاہ بخاری کے معتقدین کو ضروری شناخت کرانے کے بعد مرقد پر حاضری کی اجازت دیدی جاتی ہے ۔ راستہ پیدل اور دشوار گزار ہے مگر دریائے سندھ کا کنارہ اور اٹک کی پہاڑیوں کا قدرتی حسن راستے کی تھکن زائل کردیتا ہے ۔ کئی سال پہلے میں پاکستان آیا ہوا تھا لھذا دادا کے سلام کے لئے چلا گیا لیکن جاتے ہوے اپنا شناختی کارڈ گھر بھول گیا ، نقطہ تفتیش پر پریشانی کا سامنا ہوا میرے ساتھ میرے چچازاد اور ماموں زاد بھائی بھی تھے جنہیں جانے کا اذن مل گیا سوائے میرے کیونکہ میری اور قسمت کی آنکھ مچولی کا کھیل ایک عرصہ دراز سے چلا آرہا ہے تو ہونی انہونی ہوجاتی ہے اور انہونی کا کیا رونا خیر بات چیت کرتے ہوئے تفتیشی افسر جو کہ خلاف توقع بہت خوش مزاج واقع ہوئے ، انہوں نے ضمانت کے طور پر کارڈ رکھ لئیے اور چائے کی پیشکش کی جو کہ ذہنی تھکاوٹ کی بناء پر میں نے فورا قبول کر لی اور وہ ہمیں چوکی کیساتھ ملحقہ کمرے میں لے گئے جہاں ہم نے فوجی کینٹین کی بنی کڑک چائے پی اور باتوں باتوں میں پتا چلا کہ ہمارے میزبان پختون ہیں اور کیونکہ میرے والد محترم کی مادری زبان بھی پشتو ہے ، یہ جان کر وہ بہت خوش ہوئے میں نے مسقط کال کر کے ان کی بات بھی کروائی اور بتایا یہ گیا کہ آپ دادا کی مرقد سے ہو آ ئیں اور مجھ سے ملاقات کئیے بغیر نا جائیں کیونکہ اپنے کارڈ بھی واپس لینے تھے خیر ہم زیارت سے واپس لوٹے تو میزبان ہمارے منتظر تھے اور ہمیں بتایا کہ آپ کیلئیے خصوصی طور پر اجازت نامہ لیا ہے آپ کو اٹک قلعہ کی اندرونی اور بیرونی منازل کی سیر کروائی جائے گی اور رات کا کھانا آپ ہماری بیرک میں ہمارے ساتھ تناول فرمائیں گے اب تو عنایتوں کی مجھ پر جیسے برسات ہو گئی ہو اب ہو نا ہو والد محترم کی ان کی ہم زبان سے بات جو کروائی تھی اس کا اثر تھا خیر میں نے پہلی مرتبہ اٹک قلعہ کو اتنے قریب سے دیکھا اور اس کی خوبصورتی کو محسوس کیا ۔
قلعہ کے کئی دروازے ہیں اور صدر دروازے پر جلی حروف میں تلوار اور آسمانی بجلی کے نشان بنے ہوئے تھے جس کے وسط میں یلدرم لکھا ہوا تھا پوچھنے پر پتا چلا کہ اس وقت ایس ایس جی کمانڈوز کا جو دستہ وہاں مقیم تھا ان کی رجمنٹ کا نام یلدرم ہے جو کہ ترکی زبان کا لفظ ہے اور اس کے معنی ہیں آسمانی بجلی۔ چلتے چلتے مختلف ابواب اور ادوار کے قصے سنائے گئے جو کہ بہت ہی دلچسپ تاریخی واقعات پر مبنی تھے جیسے کہ اس قلعے کی تعمیر 1581 سے لیکر 1583 صرف 2 سال کے عرصے میں مکمل کی گئی ، موجودہ ادوار میں کئی سیاسی راھنماء یہاں مقید ہوئے ۔
برطانیہ کے مشہور ماہر آثار قدیمہ مورٹیمر وییلر کی کتاب جس کا عنوان ” پاکستان کی 5000 سالہ تاریخ ” جو کہ 1950 میں شایع ہوئی تھی اس میں انہوں نے قلعہ میں استعمال کئیے گئے مختلف قیمتی نوادرات ، پتھروں اور اس قلعہ کی تعمیر سے متعلق دیگر معلومات کا مختصر لیکن جامع اور متفق علیہ تجزیہ لکھا ہے ( یہ کتاب میرے پاس پی ڈی ایف میں موجود ہے آپ قارئین میں سے جو اس موضوع میں دلچسپی رکھتے ہیں مجھ سے رابطہ کر کے حاصل کر سکتے ہیں )
پچھلے سال پڑوسی ملک میں بننے والی فلم ‘ پانی پت ‘ دیکھی تو فلم کی شروعات میں ہی اٹک قلعے کا ذکر آیا جو کہ اس دور میں بھی ایک اہم جگہ اور اسٹراٹیجیک اہمیت کا حامل تھا اور آج بھی ہے ۔ آج بھی مراٹھا سے تعلق رکھنے والے جب کسی کو باتوں میں مثال دیتے ہیں کہ ہم یہ ناممکن کام کر کے دکھائیں گے تو کہتے ہیں ‘ اٹاکے پار جھنڈے’ یعنی اٹک کے پار جھنڈے لگائینگے۔ 1758 میں مراٹھا نے مختصر مدت کیلئیے اٹک قلعے لاہور اور پشاور پر حکومت بنالی تھی جبکہ احمد شاہ ابدالی نے انہیں پانی پت کے معرکہ میں شکست دے کر واپس حاصل کیا اور اس کے بعد مہاراجہ رنجیت سنگھ نے اور پھر انگریزوں کے زیر استعمال بھی رہا ۔ یہ قلعہ سطح سمندر سے 2’758 بلند ہے۔ جو ایک خطرناک علاقے اور دو چٹانوں کمالیہ اور جلالیہ کے درمیان واقع ہے ان چٹانوں کا نام کمال الدین اور جلال الدین کے نام پر رکھا گیا جو روشنیہ فرقہ کے بانی کے دو بیٹے تھے جنہیں دریا میں سزا کے طور پر پھینکا گیا کیونکہ وہ اپنے باپ کے نظریات کا پرچار اکبر کے دور میں کرتے تھے۔
اب میں آپ کو واپس قلعہ میں لے چلتا ہوں کیونکہ ہمارے میزبان دسترخوان سجائے ہمارا انتظار کر رہے ہیں اور یقین کریں کھانے میں کوئی تکلف نہیں برتا گیا بلکہ سادہ خوراک جو وہ تناول کرتے ہیں وہی ہمیں بھی پیش کی گئی جس میں چنے کی دال ، دہی اور تنور کی بڑی بڑی روٹیاں لیکن اس دال کا اپنا ہی لطف تھا اس کے بعد قہوہ کا دور چلا اور یوں ہماری دعوت یلدرم کا اختتام ہوا ۔
مسقط، سلطنت عمان
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔