کرم میں سرکاری مذاکراتی ٹیم پر حملہ
ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی*
ایک انتہائی افسوس ناک خبر ہے کہ ضلع کرم کے علاقے بگن میں سرکاری مذاکراتی ٹیم پر دھشت گردوں نے حملہ کیا ہے۔ بگن میں پیش آنے والے افسوسناک واقعے نے نہ صرف امن معاہدے کی سنگینی کو آشکار کیا ہے۔ بلکہ ملک میں افراتفری پیدا کی ہے۔ آج کے کالم میں ہم ان دھشت گرد عناصر کی موجودگی پر بھی روشنی ڈالیں گے۔ یہ دھشت گرد پاکستان کے امن کو سبوتاژ کرنے کے درپے ہیں۔ یہ واقعہ اس حقیقت کو اجاگر کرتا ہے کہ ملک دشمن عناصر اور شرپسند قوتیں اپنی مذموم سرگرمیوں سے باز نہیں آرہے ہیں چاہے امن کی کتنی ہی کوششیں کی جائیں۔
بگن میں سرکاری مذاکراتی ٹیم پر حملہ ایک منظم اور سوچی سمجھی سازش کا نتیجہ معلوم ہوتا ہے۔ 40 سے 50 مسلح افراد کی موجودگی اور ان کا باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت کارروائی کرنا اس بات کا ثبوت ہے کہ انہیں مقامی سہولت کاروں کی حمایت حاصل ہے۔ اس حملے کا مقصد نہ صرف علاقے میں امن معاہدے کو ناکام بنانا تھا بلکہ فرقہ وارانہ فسادات کو بھی ہوا دینا تھا۔
امن معاہدہ کسی بھی علاقے میں دیرپا امن قائم کرنے کے لیے بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔ تاہم اس معاہدے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے مقامی کمیونٹی کا تعاون ناگزیر ہے۔ بگن کے واقعے نے یہ واضح کیا ہے کہ صرف حکومتی کوششیں کافی نہیں ہے بلکہ مقامی افراد کو بھی شرپسند عناصر کے خلاف متحد ہونا ہوگا۔
حکومت اور سیکورٹی اداروں نے اس واقعے پر فوری ردعمل دیا ہے جس میں شرپسندوں کی شناخت اور ان کے خلاف کارروائی شامل ہے۔ خیبرپختونخوا کے وزیر اعلیٰ علی امین گنڈاپور نے حملے کو امن و امان کی کوششوں کو سبوتاژ کرنے کی سازش قرار دیا۔ مزید برآں آئی جی پولیس خیبرپختونخوا کی سربراہی میں سیکورٹی اجلاس کا فیصلہ اس بات کا عکاس ہے کہ حکومت اس مسئلے کو سنجیدگی سے لے رہی ہے۔
یہ واقعہ اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ حکومتی مشینری کو نہ صرف امن معاہدے کی حفاظت کرنی ہوگی بلکہ ان عوامل کو بھی ختم کرنا ہوگا جو ان معاہدوں کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ شرپسند عناصر کی موجودگی اور ان کے سہولت کاروں کا کردار ایک بڑا چیلنج ہے۔ مزید برآں فرقہ وارانہ کشیدگی کو روکنے کے لیے ایک جامع حکمت عملی کی بھی اشد ضرورت ہے جو صرف فوجی اقدامات تک محدود نہ ہو بلکہ سماجی و اقتصادی مسائل کو بھی حل کرے۔
کرم میں امن و اماں بحال کرنے کے لیے چند تجاویز ہیں جن پر عمل کرکے دھشت گردی پر قابو پایا جاسکتا ہے۔ مقامی کمیونٹی کو اعتماد میں لے کر شرپسند عناصر کے خلاف مشترکہ حکمت عملی اپنائی جائے۔ انٹیلیجنس نظام میں بہتری کی گنجائش ہے۔ انٹیلیجنس نظام کو مزید مضبوط کیا جائے تاکہ ایسے واقعات کی پیشگی روک تھام کی جا سکے۔ فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو فروغ دینے کے لیے تعلیمی اور سماجی مہمات کا آغاز کیا جائے۔ شرپسند عناصر اور ان کے سہولت کاروں کے خلاف سخت قانونی کارروائی عمل میں لائی جائے تاکہ دوسروں کے لیے عبرت ہو۔ بگن کے واقعے نے ایک بار پھر یہ ثابت کیا ہے کہ امن معاہدے کو سبوتاژ کرنے والے عناصر کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں۔ تاہم حکومت، سیکورٹی ادارے اور عوام مل کر ان سازشوں کو ناکام بنا سکتے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ تمام اسٹیک ہولڈرز اپنی ذمہ داریوں کو سمجھیں اور ملک کے امن و استحکام کے لیے بھرپور کردار ادا کریں۔
رحمت عزیز خان چترالی کا تعلق چترال خیبرپختونخوا سے ہے، اردو، کھوار اور انگریزی میں لکھتے ہیں۔ آپ کا اردو ناول ”کافرستان”، اردو سفرنامہ ”ہندوکش سے ہمالیہ تک”، افسانہ ”تلاش” خودنوشت سوانح عمری ”چترال کہانی”، پھوپھوکان اقبال (بچوں کا اقبال) اور فکر اقبال (کھوار) شمالی پاکستان کے اردو منظر نامے میں بڑی اہمیت رکھتے ہیں، کھوار ویکیپیڈیا کے بانی اور منتظم ہیں، آپ پاکستانی اخبارارت، رسائل و جرائد میں حالات حاضرہ، ادب، ثقافت، اقبالیات، قانون، جرائم، انسانی حقوق، نقد و تبصرہ اور بچوں کے ادب پر پر تواتر سے لکھ رہے ہیں، آپ کی شاندار خدمات کے اعتراف میں آپ کو بے شمار ملکی و بین الاقوامی اعزازات، طلائی تمغوں اور اسناد سے نوازا جا چکا ہے۔کھوار زبان سمیت پاکستان کی چالیس سے زائد زبانوں کے لیے ہفت پلیٹ فارمی کلیدی تختیوں کا کیبورڈ سافٹویئر بنا کر عالمی ریکارڈ قائم کرکے پاکستان کا نام عالمی سطح پر روشن کرنے والے پہلے پاکستانی ہیں۔ آپ کی کھوار زبان میں شاعری کا اردو، انگریزی اور گوجری زبان میں تراجم کیے گئے ہیں ۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
کیا آپ بھی لکھاری ہیں؟اپنی تحریریں ہمیں بھیجیں، ہم نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ |