ناستیک(ملحد)
وہ ایک یتیم تھا۔ اسکے ماں باپ بچپن میں ہی مر گئے تھے۔اسے زندگی میں ہر قدم پر جدوجہد کرنی پڑی تھی،سو اسے بھگوانوں پر بلکل ہی عقیدت نہیں تھی۔ وہ ایک ظریفؔ ملحد تھا۔اسکی شادی بھی ایک یتیم لڑکی سے ہوئی تھی۔ اسکی بیوی پوجا پاٹھ میں یقین کرتی تھی۔ اسکا کہنا تھا کہ ہم اگر یتیم ہیں تو پچھلے جنموں کے اپنے گناہوں کی وجہ سے ہیں۔ وہ اس سے کہتی کہ تمہیں بھی کسی نہ کسی بھگوان کو ماننا ہی چاہئیے۔
ایک دن اپنی بیوی کے کہنے پر وہ اپنے شہر کے سب سے بڑے مندر میں پہنچا۔ وہ اندر گھسنے ہی والا تھا کہ اچانک اسکی نظر گیٹ پر لکھے ایک بورڈ پر پڑی۔ وہاں پر لکھا تھا کہ اچھوتوں کا مندر میں گھسنا منع ہے۔
وہ سوچنے لگا کہ میں تو ایک یتیم ہوں،۔ مجھے تو اپنی جات ہی نہیں معلوم ہے۔ چاروں ورنوں کے بارے میں سوچنے لگا۔ وہ نہ تو براہمن تھا،نہ کشتریہ اور نہ ہی ویشیہ تھا۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ میری جات اچھوت جات ہو۔ وہ کنفیوز ہوکر واپس لوٹنے لگا، تبھی اسے ایک مزار نظر آیا۔ اس مزار کے بارے میں لوگ مانتے تھے کہ وہاں منت ضرور پوری ہوتی ہے۔
وہ مزار پر رک گیا۔ وہ مزار کی صحن میں گھٹنوں کے بل بیٹھ گیا۔ تھوڑی دیر بعد وہ جھکا ایسا اسنے باربار کیا۔ تبھی وہاں پر ایک آدمی آکر کہنے لگا، بھائی جان یہاں پر آپ نماز نہیں پڑھ سکتے۔ آپ کو نماز پڑھنی ہے تو مسجد میں جائیے۔
"تو بھائی صاحب یہاں پر کیا کرتے ہیں؟” اس نے اس سے پوچھا۔
‘وہاں پر جو دکانیں دکھ رہی ہیں نہ، وہاں پر پھولوں کی چادریں اور دیگر چیزیں بھی ملتی ہیں۔ آپ وہاں سے خرید کر یہاں چڑھا دیجیے اور جو منت مانگنی ہو مانگ لیجیے۔’ اس آدمی نے کہا۔
"بھائی یہ مانگنا کہاں یہ تو دینا ہوا۔” کہتے ہوئے وہ وہاں سے نکل لیا۔
اس نے عیسائی دھرم کے بارے میں سن رکھا تھا کہ وے لوگ بیحد سیوا کرنے والے ہوتے ہیں۔اسے سولی پر ٹنگے ہوئے عیسیٰ ؑ مسیح کا رحمدل چہرہ اور کرسچین سکولس کے باہر گود میں بچہ کو رکھی ہوئی مدر میری کے بت بہت اچھے لگتے تھے۔
اسے فلموں میں دکھائے گئے ایک دم امن سے بھرے ہوئے چرچ کی بھی یاد آ گئی۔ وہ چرچ کی طرف مڑ گیا۔ وہاں پر ایک پادری زور زور سے کچھ کہہ رہا تھا۔ وہ دھیان سے سننے لگا- اسے "دشمانش” لفظ بار بار سنائی پڑ رہا تھا۔ تھوڑی دیر بعد وہاں گاجے باجے کے ساتھ بڑی بے سری آوازوں میں پرییر شروع ہو گئی۔ وہ وہاں سے اوبکر باہر نکل آیا۔
اسنے باہر کھڑے ایک آدمی سے پوچھا کہ یہاں پر اتنا شور غل کیوں ہو رہا ہے؟ اس پر اسنے اسے اوپر سے لیکر نیچے تک دیکھتے ہوئے کہا لگتا ہے آپ ایک دم نئے نئے کنورٹ ہوئے ہیں۔ ارے بھائی یہ پروٹیسٹینٹ چرچ ہے۔ یہاں اسی طرح سے پرییر ہوتی ہے۔ شانتی والی پرییر کے لیے رومن کیتھولکوں کے چرچ میں جائیے۔
‘بھیا دونوں میں کیا فرق ہے؟’ اس نے اس سے پوچھا۔
"رومن کیتھولکوں کا یہ ماننا ہے کہ مدر میری نہیں ہوتی، تو عیسیٰ مسیح کا جنم ہی نہیں ہوا ہوتا اور ہم پروٹیسٹینٹ لوگ مانتے ہیں عیسیٰ مسیح کو جنم لینا ہی تھا۔ مدر میری نہیں ہوتی تو کوئی اور عورت ہوتی۔”
‘اچھا بھائی یہ "دشمانش” کیا ہوتا ہے؟ اسنے جانے سے پہلے اپنا آخری سوال پوچھا۔’
"ہر مہینے اپنی آمدنی کا کم سے کم دس فیصدی چرچ کو دان کرنا ہی دشمانش کہلاتا ہے۔’
‘اچھا ہفتہ وصولی کی طرز پر…’ کہتے ہوئے وہ اپنے گھر کی طرف لوٹنے لگا۔ اپنے ان تجربوں سے وہ آستک (مذہبی)ہونے کی بجائے ملحد سے کٹر ملحد(ناستیک) میں تبدیل ہو چکا تھا۔
آلوک کمار ساتپوتے
افسانہ نگار
چھتیس گڑھ صوبہ کے سرکاری رسالہ کے مدیرکے فرائض انجام دے رہے ہیں۔
ہندوستان کے تمام پروگیسیو اخبارات و رسائل میں افسانے شائع ہوچکے ہیں۔
تعلیم : ماسٹرآف کامرس
پیشہ : سرکاری ملازم حکومت چھتیس گڑھ
منصب : چھتیس گڑھ صوبہ کے سرکاری رسالہ کے مدیرکے فرائض انجام دے رہیں ہے۔
٭ ہندوستان کے تمام پروگیسیو اخبارجیسے:دینک بھاسکر، راجستھان پتریکا، امراجالا، راشٹریہ سہارا، نوبھارت، ہری بھومی، دیش بندھو وغیرہ میں منی افسانوں کی اشاعت عمل میں آچکی ہے۔
٭ ہندوستان کی تقریباً سبھی پروگیسیو رسائل جیسے:ہنس، کتھادیش، واگرتھ، عام آدمی، کتھاکرم، ورتمان ساہتیہ،قدم بینی، پاکھی، پنرنوہ وغیرہ میں بھی منی افسانوں کی اشاعت عمل میں آچکی ہے۔
٭ ریڈیو رائے پور سے افسانے نشرہوچکے ہیں
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔