میں اپنی تحریر کا آغاز ان ہی کے ایک خوب صورت شعر سے کرنا چاہوں گا۔
اصلاح کی خاطر ہی قلم ،اٹھتا ہے اپنا
مقصود نہ تحقیر ،نہ تذلیل کسی کی
اگر ان کے ادبی سفر پر غور کیا جاۓ تو ان کی نظم ونثر کا محور ومرکز،اصلاح دکھائی دیتا ہے۔ان کی قلم کاری میں جہاں شعر براۓ شعر کا نظریہ دکھائی دیتا ہے تو کہیں شعر براۓ اصلاح ۔ہر مکتبہء فکر کی اچھی بات ان کے ہاں پائی جاتی ہے مگر رنگ ان کااپنا جدا اور دل چسپ ہے۔نظم ونثردونوں میں خوب شاعرانہ و ادیبانہ حربے استعمال کرتے دکھائی دیتے ہیں۔مغرب کی اندھی تقلید فیشن اور مغربی تہذیب کی اندھا دھند پیروی پر صرف کڑھتے ہی نہیں بلکہ بہت ہی موثر انداز میں قلمی جہاد کرتے ہوۓ علم ِ بغاوت بھی بلند کرتے ہیں۔ایک مسلمان ہونے کے ناتے تعلیم ِ نسواں کے تو بڑی شدت سے خواہاں ہیں۔
مگرمخلوط تعلیم کی ان کے نزدیک بالکل گنجایش نہیں۔
اس ضمن میں ان کا ایک شعر دیکھیۓ۔
رہو باز ” کو ایجوکیشن ” سے عاصم
نہیں دیتا” اِسلام” اس کی اجازت
ان کی طبیعت میں رنگینی بھی پائی جاتی ہے۔جذبات واحساسات سے لبریز دھڑکتا دل رکھتے ہیں۔بطور شاعر وادیب تہذیب اور نظم و ضبط کا خاص خیال رکھتے ہیں۔ان کاشعری ونثری اسلوب سادہ بھی ہے اور طنزیہ ومزاحیہ بھی۔مغربی ثقافتی یلغار سے ہمہ وقت ہوشیار وخبر دار کرتے رہتے ہیں۔ان کی شاعری میں عصری حسیت بدرجہ اتم پائی جاتی ہے۔انھیں عصری مسائل کاخوب ادراک ہے۔ان کی شاعری کہیں کہیں اکبر الہ آبادی کا تسلسل دکھائی دیتی ہے۔ان کے شعار انہتائی سادگی کے حامل اور سہل ِ ممتنع کی بہترین مثال ونمونہ ہونے کے باعث دل میں اتر جانے والے ہیں۔ان کی شاعری کو نثر کے قریب تر ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔
چند اشعار قارئین کے ذوق مطالعہ اور اپنے دعوے کی دلیل کے طور پر پیش ِ خدمت ہیں۔
جیسے محسوس مجھ کو ہوتا ہے
ویسے شعروں میں ڈھال دیتا ہوں
–
لفظی تصویر دور اپنے کی
پیش لفظوں کے روپ میں کر دی
–
بوجھ دل کا اتارتا ہوں میں
لوگ کہتے ہیں شاعری جس کو
–
عاصم بخاری کی نثر بھی جملہ نثری خصوصیات کی حامل ہے ۔
عاصم بخاری کثیرالجہات ادبی شخصیت ہیں جو بیک وقت خوب صورت شاعر ، بہترین نثر نگار ، محقق ، مرتب اور نقاد ہیں۔ شعر وادب کو اگر ان کا اوڑھنا بچھونا ہی کہ دیا جاۓ تو بے جا نہ ہوگا۔عاصم بخاری بیدار مغز باشعور اور خبردار قلم کار ہیں۔وقت کے تقاضوں اور نزاکتوں سے بخوبی آگاہ ہیں۔ عاصم بخاری کو نظم ونثر دونوں میں ممتاز و منفرد کرنے والی ان کی ایک اختصار پسندی ہے جو شاعری میں ان کے "فردیات ِ عاصم بخاری ” اور ” ریزہ ریزہ "کا روپ دھار لیتی ہیں۔ نثر میں مختصر افسانہ اور مضمون اور مضمون کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔خود ہی کہتے ہیں۔
عاصم اِس اِختصار ، پسندی کے دور میں
ہو مختصر نویسی ہی ، تیرا شعار بھی
پروفیسر ڈاکٹر عبدالماجد المشرقی(پی ایچ ڈی۔ لندن ) چیئرمین کار ِ خیر پاکستان۔عاصم بخاری کی نثر پر تبصرہ کرتے ہوۓ کہتے ہیں۔
"مختصر بات کو طول دینا، عام سی بات ہے۔مگر طویل بات کو بہت مختصر پیراۓ میں بیان کرنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ آج کے مشینی دور میں یہ وقت کا تقاضہ ہے کہ چند لفظوں میں بڑی بات سمجھائی جاۓ۔یہ بات عاصم بخاری کے مختصر افسانوں ” اپنا خون ” ریٹائرمنٹ” ڈاکٹریٹ ” اور ” انٹرویو” وغیرہ میں آپ کو بدرجہ اتم ملے گی۔”
عاصم بخاری میں وسعت ِ مطالعہ کے ساتھ ساتھ ہمیں ان کے ہاں عمیق مطالعہ و مشاہدہ ء فطرت بھی ملتا ہے۔جو ان کی سوچ میں وسعت اور فکر میں گہرائی پیدا کرتا ہے۔ ان کے مزاج کی سادگی کا پرتو ہمیں ان کی نثر میں بھی جھلکتا ہے۔کیوں کہ فن اور فن کار آپس میں لازم وملزوم ہوتے ہیں۔ تحریر سے محرر کی تصویر جھلکتی ہے۔سادہ اور بے تکلف نثر لکھتے ہیں۔مگر اس سادگی میں بھی کیا کمال پایا جاتا ہے۔ان کی نثر اصلیت کی حامل ہے۔جس میں بیک وقت شگفتگی بھی ہے اور بے ساختہ پن بھی۔
پروفیسر ڈاکٹر شفیق آصف عاصم بخاری کی نثر کے بارے کچھ ان الفاظ میں اپنی راۓ دیتے ہیں۔
"عاصم بخاری وہ نثر نگار ہے جسے قدرت نے احساس کے ساتھ ساتھ بروقت اظہار کی صلاحیت بھی عطا کی ہے۔مختصر افسانے اور دیگر اصناف ِ نثر میں انھوں نے لفظی کفایت شعاری کی خوب راہ نکالی ہے۔اس کی بہترین مثال "آو پھر جنگل کو جائیں” ہے۔“
آج کے وقت کی ضرورت بھی یہی ہے۔جب کتب بینی اور مطالعہ کی عادت ماند پڑتی جارہی ہے۔ایسی تیکنیک استعمال کی جاۓ جس سے قاری کتاب اور بطور خاص نثر کے ساتھ مربوط رہے۔وہ حکمت عملی اختصار پسندی کے روپ میں ہمیں عاصم بخاری کے ہاں ہر صنف ِ ادب میں کہیں نہ کہیں مل ہی جاتی ہے۔ اور خصوصا” نثر نگاری میں اختصار کادامن تھامے رکھنا ان کی اپنے فن پر قدرت کی دلیل اور مثال و کمال ہے۔
عاصم بخاری کی نثر سے یہ بات بھی عیاں ہوتی ہے کہ ان کی نثر صرف "کل” کی نثر نہیں بلکہ ان کی نثر میں ہمیں کل کے ساتھ ساتھ "آج ” یعنی عصری شعور اور عصری مسائل بھی ملتے ہیں۔جو بات کہ ادیبوں کی اکثریت میں کم پائی جاتی ہے۔زیادہ تر لکھاری ماضی میں ہی گم ملتے ہیں۔لیکن عاصم بخاری کی نثر میں ماضی ، حال مستقبل آپس میں ایک کڑی کی صورت جڑے ملتے ہیں۔جو کہ ان ہی کا اختصاص ہے۔
عاصم بخاری کی نثر سبق آموز ہے۔مگر انھوں نے اپنی فنکارانہ چابکدستی سے اس میں چاشنی اور دلچسپی کا عنصر برقرار رکھا۔کہیں کہیں جسب ِ ضرورت مزاح کا تڑکہ بھی لگا دیا۔جس سے تحریر تحریر میں قاری کے لیے دل کشی کا سامان بڑھ جاتا ہے۔ورنہ سبق آموزی میں واعظانہ پن آ ہی جاتا ہے جو کہ انھوں نے شعوری اور لاشعوری کوشش سے نہیں آنے دیا۔
عاصم بخاری کی نثری کتاب ” فسانہ ء محفل ” پر تبصرہ کرتے ہوۓ صابر انصاری لکھتے ہیں۔
"عاصم بخاری کی زیادہ تر تحریریں انسانی سوچ اور فکر کو مذہبی اور اخلاقی حوالے سے مضبوط کرنے کے ساتھ ساتھ معاشرتی فلاح وبہبود کے لیے عملی کردار ادا کرنے کی تلقین کرتی ہیں۔جو بھی لکھاری معاشرے کی بہتری کے لیے قلم اٹھاتا ہے۔امر ہو جاتا ہے۔عاصم بخاری کی نثر ان جملہ اوصاف سے متصف ہے۔”
المختصر "چراغ ِ جہد البقا سے لے کر "فسانہ ء محفل”تک ہر تحریر پڑھنے والےکے لیے دل چسپی اور معلومات کا سامان رکھتی ہے۔ایس کتب کامطالعہ ایک بار ضرور کرنا چاہیۓ۔
مقبول ذکی مقبول
بھکر
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔