عاصم بخاری کی ماہیا نگاری
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تجزیہ کار
مقبول ذکی مقبول ، بھکر
عاصم بخاری ایک زود نویس شاعر و ادیب ہیں ۔ ان کے ہاں موضوعاتی وسعت اور تنوع ملتا ہے ۔ قدیم و جدید موضوعات و اصناف پر نت نئے تخلیقی تجربات کرنا ان کا مرغوب مشغلہ ہے ۔ ان کی شاعری کا اگر جائزہ لیا جائے ہمیں غزل کے ساتھ ساتھ نظم اور نظم کی جملہ جدید و قدیم اصناف میں طبع آزمائی ہوری طاقت کے ساتھ ملتی ہے ۔ ان کے ہاں روائتی اور قدیم اصناف نظم کے ساتھ ساھ آزاد نظم معریٰ نظم قطعہ ثلاثی ہائیکو ترائیلے کے ساتھ ساتھ اردو ماہیا نگاری بھی اپنی فکری و فنی پختگی کے ساتھ ملتی ہے۔
اگر ان کی ماہیا نگاری کا جائزہ لیا جائے تو روایت کی پاسداری کرتے ہوئے حمد سے آغاز کرتے ہیں
حمدیہ ماہیا
۔۔۔۔
ہر کام کرے گا وہ
کچھ فکر نہ کر عاصم
مخلوق کا خالق جو
ایک اور حمدیہ ماہیا جس میں اپنے انداز میں ثمدِ ربی بیان کرتے ہیں
حمدیہ۔۔۔ ماہیا
خوابیدہ پرندوں کو
اشجار سے جو عاصم
گرنے نہیں دیتا وہ
حمد کے بعد ان کی شاعری میں دہلوی و لکھنوی انداز میں نعت ملتی ہے ۔
نعتیہ ماہیے کے اندر موضوعاتی جدت ہے تنوع ہے
آ نعت کہیں عاصم
محفوظ زمانے کے
ہر غم سے رہیں عاصم
۔۔۔۔۔۔۔
کیا خوب کمائی ہے
یہ نعت کے کہنے کی
توفیق جو پائی ہے
۔۔۔۔۔
قرآن میں آیا ہے
سرکارِ دوعالم ﷺنے
ہر قول نبھایا ہے
۔۔۔۔۔
انمول خزینہ ہے
اس نعت کے کہنے کا
جس کو بھی قرینہ ہے
دنیا کی بے ثباتی دیگر شعرا کی طرح عاصم بخاری کی شاعری کا بھی موضوع رہی ہے ۔ ماہیا دیکھیں ۔
جوں بلبلے پانی کے
یہ ذہن میں رکھ عاصم
دن چار جوانی کے
۔۔۔۔۔۔۔
بخاری واقعی درویش صفت اور اتتہائی سادہ مزاج ہیں ۔ شخصیت ہمیشہ فن میں جھلکتی ہے ۔ ان کی شخصیت کا آئینہ دار ایک ماہیا
تُو سادہ بخاری ہے
چالاک زمانہ یہ
ہر شخص شکاری ہے
۔۔۔۔۔۔۔
کردار کی عظمت کے بخاری زیادہ قائل ہیں ۔ اس بات کا اطلاق اپنی ذات پر بھی کرتے ہیں ۔اور سماج کو بھی اس کی اہمیت بتانے کے ساتھ ساتھ ترغیب بھی دیتے ہیں
ماہیا دیکھیں
یہ بات ہی پانی ہے
کردار نے رہنا ہے
انسان تو فانی ہے
۔۔۔۔۔۔
دنیا کی ناپائیداری بھی ان کے صوفیانہ مزاج کی عکاس ہے ۔انہیں اس بات کا بہ خوبی ادراک ہے کہ یہ گھر یہ شہر یہ ملک یہ دنیا چند روزہ ہے لہٰذا ہم نے یہاں مسافر کے جیسے اچھے سلوک کے ساتھ گزارا کرنا ہے ۔
ماہیا
یہ شہر تمہارا ہے
اپنا تو یہاں دو دن
دل دار گزارا ہے
۔۔۔۔۔
عاصم بخاری کی شاعری میں رومان اور رومانویت بھی ملتی ہے ۔ ماہیا چوں کہ ہندی اور رومانوی صنف ہے ۔ لہٰذا انھوں نے اس صنف کے مزاج کا بھی خیال رکھا ہے
ماہیا
پھولوں کا وہ مسکانا
بھاتا ہے مجھے تیرا
دل دار یہ شرمانا
اردو شاعری کا ایک خاص موضوع فراق ہجر اور وچھوڑا کی کیفیت و اذیت کا اظہار
ماہیا
پردیس نہیں جانا
روزی کے بہانے سے
مجھ کو نہیں تڑپانا
محبوبانہ نزاکت اور شاہانِ وقت یعنی حسن و عشق کا خوب صورت تقابلی ماہیا
اس چال پہ قرباں ہیں
یہ کیسے بتاووں میں
جو وقت کے سلطاں ہیں
عاصم بخاری کی ماہیا نگاری میں ماہیا کے رنگ اور میں ڈھل کر رومانویت سے بھرپور عشقیہ انداز اپنایا ہے ۔
ماہیا
تُو غیر پرایا تھا
اک میں نہیں مانی تھی
سب جگ نے بتایا تھا
۔۔۔۔
دل کی کیفیات اور عشق میں اس کی بے بسی کی بھی خوب منظر کشی و عکاسی ہے ۔
ماہیا
دل کون لگاتا ہے
ہے قول سیانوں کا
یہ وقت بتاتا ہے
۔۔۔
توصیفِ جمال کج جھلک بھی عاصم بخاری کے مزاج کی رومانویت کی غمازی کرتی ملتی ہے
ماہیا
کیا چہرہ کتابی ہے
اک مست نہیں آنکھیں
لہجہ بھی شرابی ہے
۔۔۔۔
قاصد کا کردار معاملاتِ عشق میں بڑا اہم رہا ۔ اسی موضوع کو کچھ یوں لیتے ہیں
ماہیا
قاصد نہ کوئی بھیجا
بھولوں تو بتا کیسے
ظالم وہ ترا لہجہ
***
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔