عاصم بخاری کی کرونائی شاعری
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مبصر و محقق۔۔۔
(مقبول ذکی مقبول ۔ بھکر)
عاصم بخاری کی شخصیت اور شاعری کا اگر مطالعہ کیا جائے تو ان کے ہاں عصری شعور بہتات کے ساتھ ملتا ہے ۔ ان کی شاعری کے موضوعات کا دائرہ بہت وسیع ہے ۔ حالات و واقعات سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتے ۔ان کے سامنے عالمی منظر نامہ بھی ہے ۔ دنیا کے مسائل پر صرف غور ہی نہیں کرتے اپنی محسوسات کو سپردِ قلم بھی بڑی خوب صورتی سے کرتے ہیں۔یہی ان کی شاعری کی صفت مجھے ان پر لکھنے پر اکساتی ہے ۔ ان کے آفاقی موضوعات میں سے ایک اہم موضوع ٫٫ کرونا وبا ،، بھی ایک ہے دیگر شعرا کی طرح عاصم بخاری نے بھی اس وائرس مختلف علامتوں تلازموں اور زاویوں سے نہ صرف دیکھا بل کہ اس پر بہت سے اشعار اور نظمیں مختلف شعری اصناف میں بھی کہیں ۔ جو کہ سبق آموز بھی ہیں ، ہمت افزا بھی ۔ جن میں اسلامیت بھی ملتی ہےاور فکر بھی ۔
ایک نظم ملاحظہ ہو۔
اک ایسا دور آیا تھا
کہ چوپایوں پرندوں کو
کوئی ڈر تھا نہ خطرہ تھا
کھلی عاصم فضاؤں میں
اڑانیں بھر رہے تھے وہ
اگر تھی قید پابندی
فقط انسان پر ہی تھی
جسے گھر میں ہی رہنا تھا
کسی سے بھی نہ ملنا تھا
کرونا کی وبا نامی
وہ کیسا دور آیا تھا
وہ کیوں کر دور آیا تھا
کبھی تو نے نہیں سوچا
اے مخلوقات سے اشرف
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وقت کی ضرورت کے مطابق ان کی ایک اور خیال انگیز نظم دیکھیں
یہ وقت ہے عاصم توبہ کا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(ایک کرونائی نظم)
یہ وقت ہے یار منانے کا
یہ وقت ہے جھکتے جانے کا
کیا واۓ رس یہ آیا ہے
جس نے سب کو تڑپایا ہے
بتلایا ہے اس نے اتنا
میں کچھ بھی نہیں میں کچھ بھی نہیں
اس خالق کی ناراضی ہوں
بس توبہ کرو غلطی مانو
تب جان تمہاری چھوڑوں گا
سب مان تمہارے توڑوں گا
تم کہتے ہو ہم طاقت ور
ہیں دنیا کے اب دیکھ لیا
یہ واۓ رس اک چھوٹا سا
وہ قادر ہے ہر اک شے پر
کم زور ہو تم کم زور ہو تم
تم کچھ بھی نہیں تم کچھ بھی نہیں
کچھ ہوش کرو اے نادانو
یہ وقت نہیں ان باتوں کا
جن باتوں میں تم الجھے ہو
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس وبا کے بارے عاصم بخاری اپنے وسیب کے مکینوں کو بڑے دل چسپ انداز میں وعظ و نصحیت کرتے دکھائی رہے ہیں۔کہیں کہیں ان کا لہجہ بزرگانہ بھی ہو جاتا ہے ۔ اس وائرس سے بچاؤ کا واحد حل سماجی فاصلہ ہے ۔ عالمی ادارہ ء صحت کی ہدایات کو نظم کے روپ میں کس سلیقے سےخیر خواہانہ انداز میں پیش کرتے دکھائی دیتے ہیں ۔
نظم دیکھئے
چار دن قید یہ کاٹ لو دوستو
گھر رہو گھر رہو گھر رہو دوستو
ہے اِسی میں ہی بس عافیت آپ کی
کچھ کرو مت کرو گھر رہو دوستو
بہتری ہے اسی بات میں آپ کی
گر مری مان لو گھر رہو دوستو
خوش نہیں رب مرا ہم سے ناراض ہے
راضی اس کو کرو گھر رہو دوستو
اس وبا کے گزر جانے تک لازماً
دوستوں سے کہو گھر رہو دوستو
پانی سر سے گزر ہی نہ جاۓ کہیں
ہاتھ پھر مت ملو گھر رہو دوستو
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس سماجی فاصلہ کے دور میں سب مشکل بچوں کو گھر قید اور قابو رکھنا تھا بچے چوں کہ نادان ہوتے ہیں اس لیے کہ انہیں حالات و واقعات کی سنگینی کا اتنا اندازہ نہیں ہوتا جس کی وجہ سے ان کو احتیاطی تدابیر عمل کرانا مشکل ہو جاتا ہے ۔انہیں بڑے پیار سے سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں کہ یہ لہر پہلی کے مقابلے میں زیادہ شدید ہے ۔ پروفیسر عاصم بخاری بچوں کے لیے اس نظم میں کیا ہمدردانہ رنگ اپناتے ہیں ۔
(نظم)
پھر کرونا آیا بچو
پھر خطرہ منڈلایا بچو
جس نے اپنی جان بچائی
اس نے کر لی خوب کمائی
صحت کے حفظان نہ بھولو
بات یہ میری جان نہ بھولو
ڈھانپ کے رکھو اپنا چہرہ
فاصلے پر کچھ اور بسیرا
اک دوجے سے دور رہو تم
گرچہ ہو مجبور رہو تم
دور سے ہی خیریت جانو
اس میں ہی عافیت جانو
ہاتھوں کو مت دھونا بھولم
صحت کو مت کھونا بھولو
ہر اک زخم کو سینا ہے اب
بچ بچا کے جینا ہے اب
اس کی طرز جدید ہے ہے عاصم
اب کی لہر شدید ہے ہے عاصم
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بخاری اس خوف زدہ فضا میں امید حوصلے اور ہمت کا لفظی و شعری چراغ لے کر نکلے ہیں ۔ اور چِین جیسے ملک کی مثالی پیراۓ میں بات کی ہے ۔ زندہ قوموں کا تذکرہ کیا ہے ۔ شاعر کا کام بھی یہی ہوتا ہے افسردگی اور پژمردگی کی رت میں اچھے دنوں کی باتیں کرنا ۔
نظم دیکھئے
کرونائی نظم
ہے بڑی چیز یہ حوصلہ دوستو
منزلوں کا یہی راستہ دوستو
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آتے رہتے ہیں وقت ایسے اقوام پر
ہے ازل سے یہی قاعدہ دوستو
۔۔۔۔۔۔۔۔
وقت ہے ساتھ دو یہ گھڑی دو گھڑی
خوف کھانے سے کیا فائدہ دوستو
۔۔۔۔۔۔۔۔
کام گھبرانے سے تو بنے گا نہ یہ
کوئی بھی جائے نا بوکھلا دوستو
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہے گزارش یہی قید گھر میں رہو
اور سب سے رکھو فاصلہ دوستو
۔۔۔۔۔۔۔۔
حق میں بہتر تمہارے ہے بس اب یہی
دور سے ہی رکھو رابطہ دوستو
۔۔۔۔۔۔۔۔
عزم سے جس نے اس کی کمر توڑ دی
سامنے آپ کے چائنہ دوستو
۔۔۔۔۔۔۔۔
زندہ قوموں کو دیکھا گیا متحد
ہم نے تو بس یہی ہے پڑھا دوستو
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہم نے بھی اس وبا کا گلا گھونٹنا
قوم ساری کا ہے فیصلہ دوستو
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہاں دعا بھی کریں اور دوا بھی کریں
خوش نہیں ہے یقیناً خدا دوستو
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مرد مشکل میں گھبراتے عاصم نہیں
یہ کرونا ہے کیا ، اک وبا دوستو
***
آخر میں جوابِ شکوہ کی صورت عاصم بخاری خلقِ خدا کو احساس تازیانہ لگاتے مفکرانہ انداز اپناتے ہوئے کہتے ہیں کہ اتنی بڑی پریشانی کے باوجود اے انسان تو نے اپنے طرزِ عمل پر غور نہیں کیا ۔ خود کو نہیں بدلا ، لہٰذا تجھےاپنے آپ پر غور کرنے کی ضرورت ہے جب تک تو اپنے آپ کو نہیں بدلے گا تبدیلی کیسے آئے ۔ ایک فکری نظم میں دیکھئے
(نظم)
سماج میرا اناج میرا
اجارہ داری ہے کیوں تمہاری
کہ مہنگے داموں ذخیرہ کرکے
ہر ایک نعمت کو بیچتے ہو
کہ آزمائش کی اس گھڑی میں
مذاق بھی تم اڑا رہے ہو
اڑا رہے ہو مذاق بھی تم
علیم ہوں میں خبیر ہوں میں
میں مکر سارے فریب سارے
میں لفظ کن سے سمیٹ لوں گا
بلا سے عاصم وبا سے عاصم
فضا کو کیسے میں پاک کردوں
رویہ سب کا رویہ جگ کا
ابھی وہی ہے ابھی وہی ہے
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
کیا آپ بھی لکھاری ہیں؟اپنی تحریریں ہمیں بھیجیں، ہم نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ |