عاصم بخاری کی غزل گوئی
تبصرہ نگار
(مقبول ذکی مقبول بھکر)
عاصم بخاری میانوالی کے پر گو اور جدید لب ولہجہ کے شاعر ہیں۔ان کی شاعری ان کے اسلوب اور مزاج کی وجہ سے اپنی الگ پہچان رکھتی ہے۔یہی انفرادیت ان کو شاعروں میں منفرد و ممتاز کرتی ہے۔ان کے ہاں ہمیں روایت بھی ملتی ہے اور روایت سے بغاوت ہے۔ان کے ہاں کہیں کہیں مزاحمتی رنگ بھی نمایاں ملتا ہے۔ان کی طرز ادا اور جدت ِ خیال کمال پر ہے۔یہ موضوعات ایسے اپناتے ہیں جن پر واقعی قلم اٹھانے کی ضرورت ہے۔محبت بھی ان کا موضوع ہے مگر اس کا زاویہ اپنا ہے۔دیس اور وطن کی مٹی شہروں کا گاؤں کا ذکر ان کے ہاں اچھوتے انداز میں ملتا ہے۔عصری شعور اور سماجی مسائل رویوں کو بڑی خوب صورتی سے اشعار میں ڈھالنے کا انہیں کمال ہنر آتا ہے۔ عاصم بخاری ایک صاحب مطالعہ شخص ہیں۔غزل کے مزاج اورواس کی نزاکتوں لطافتوں سے آشنا ہیں۔اس کی وسعتوں کا بھی انہیں اندازہ ہے۔فارسی غزل کو انھوں نے پڑھا ہی نہیں سمجھا بھی ہے۔اردو کے کلاسک دور کی غزل کی جھلک بھی ان دکے یہاں ہمیں ملتی ہے۔ غالب میر ناصر کاظمی اقبال اور جون ایلیا سے متاثر دکھائی دیتے ہیں۔ فکری اور فنی موضوعاتی و اسلوبیاتی پختگی ان کی غزل کی پہچان ہے۔ایک غزل کے دو اشعار میں گاؤں ذکر کس خوب صورت انداز میں کرتے ہیں۔
شہروں کی بات ، ہم نہیں کرتے
چین امن و سکون ، گاؤں میں
شادی ہو یاکہ غم ، میں دیکھا ہے
کام آتا ہے "خون” ، گاؤں میں
۔۔۔۔۔۔
اسی طرح بات سے بات نکالنے کا ایک اور انداز جس میں شہری زندگی اور گا کے حسن ِ معاشرت کو کس گہرائی و گیرائی سے ایک غزل میں اپنے رنگ میں پیش کرتے ہیں۔
پیسے کا ہر غلام ، شہروں میں
چین سب کا حرام ، شہروں میں
۔۔۔۔۔
زندوں کو نوچتے ہوئے ہر پَل
جابجا اور عام ، شہروں میں
۔۔۔۔۔۔
ڈر نہ جنگل میں اب رہا کوئی
بھیڑیے ہیں تمام، شہروں میں
۔۔۔۔۔۔
یہ تو گاؤں کا حسن ، ہے سارا
کون کرتا سلام ، شہروں میں
۔۔۔۔۔
جو کہ عورت کو گاؤں میں ملتا
وہ کہاں احترام ، شہروں میں
۔۔۔۔۔۔
ملتی ہیں دولتیں بھی شہرت بھی
خوب بنتا ہے نام ، شہروں میں
۔۔۔۔۔
پوچھنے والا ہی نہیں کوئی
ہر کوئی بے لگام ، شہروں میں
۔۔۔۔۔۔
کچلے جاؤ گے ورنہ تم عاصم
چلنا ہے تیز گام ، شہروں میں
عاصم بحاری کی غزل رومانویت میں ڈوبی ہوئی ہے فطرت اور مظاہر فطرت کا تذکرہ بھی ان کی شاعری میں بڑے پر اثر انداز میں ملتا ہے۔
غزل دیکھیۓ
فردوس کی خوشبو ہے کہ جنت کے نظارے
ساحل کی ہوا اور ، کھلے گیسو تمہارے
۔۔۔۔۔۔۔۔
بے تاب نہیں چاند ، فقط دید کی خاطر
جھک جھک کے تجھے تکتے ہیں افلاک کے تارے
۔۔۔۔۔۔۔
اے حسن کی دیوی ، تری تعظیم کی خاطر
دریا کی ہر اک لہر ، قدم چومے تمہارے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
قاتل ہیں مری جان ، تری ساری ادائیں
اس دل کو لبھائیں ترے ابرو کے اشارے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اِس دل نے تو ہر حال ، یہی ٹھان لیا ہے
جینا ہے تو جینا ہے ، فقط تیرے سہارے
۔۔۔۔۔۔۔۔
دل کہتا ہے ساتھ اس کا ہو اور چاندنی راتیں
آ ، عمر بِتا دیں ، سبھی اس "دریا کنارے”
عاصم بخاری کی غزل
مشاہیر و ماہرین کی نظر میں
۔۔۔۔۔۔
پروفیسر عاصم بخاری کی شاعری سے زندگی بولتی ہے ان کی شاعری اس زمانے سے ہے جس میں وہ رہ رہے ہیں اپنے اشعار کے لیے وہ تخیل اپنی زندگی سے کشید کرتے ہیں ان کی شاعری ان کی زندگی کے مشاہدات کا عکس ہے وہ بہت ہی آسان الفاظ میں زندگی کی حقیقتوں کو بیان کرتے ہیں ان کے اشعار مضمون آفرینی سے بھرپور ہوتے ہیں ان کی غزلوں کے اچھوتے اور مختلف ردیف ان کا اچھوتا اور مختلف تعارف ہیں جہاں انہوں نے سنجیدہ کلام کہے ہیں وہاں انہوں نے معاشرے میں پائے جانے والے مختلف تضادات پہ طنز بھی کی ہے ان کے طنز کا انداز اس طرح ہے کہ قاری بھی زندگی کے ان تضادات کو آسانی سے سمجھ پاتا ہے ان کے کلام میں ظرافت کا پہلو بھی ہے اور اس ظرافت میں کہیں بھی کسی پر تنقید نہیں بلکہ وہ مثبت انداز میں اپنے مشاہدات کو رقم طراز کرتے ہیں بے شک پروفیسر عاصم بخاری اس عہد کے نمائندہ شاعر ہیں جس میں وہ جی رہے ہیں
ڈاکٹر اعجاز کشمیری مظفر آباد(آزاد کشمیر)
۔۔۔۔۔۔۔۔
عاصم بخاری کا غزلیہ رنگ
"میاں والی کے عاصم بخاری کی غزلیں بتاتی ہیں کہ وہ عظیم غزل گو ہے۔ میاں والی کا شہر گو مین لائن سے ہٹ کر ہے مگر زرعی اور ذہنی زرخیزی کے اعتبار سے نامور شہر ہے۔ اس کے شہری عاصم بخاری کی غزلیں مزاجی اعتبار سے حسن و عشق کی داستان ہے مگر اس میں زندگی اور زمانے کی کلفتیں اور دکھ اور کرب کے سلسلے بھی تاثر خیز ہیں۔ مثلاً:
راحتیں ڈھونڈتا ہے ، دل وہی
الفتیں ڈھونڈتا ہے ، دل وہی
جلوتوں سے ہیں عاصم اکتائے ہوئے
خلوتیں ڈھونڈتا ہے ، دل وہی
اس نے حسن و عشق کے معاملات میں منفرد اور خیال انگیز باتیں کی ہیں۔ ایسی باتیں جنھیں پڑھ کر/سن کر قارئین بھی اپنی ذات کے اندر محسوسات کی دنیا کو انگڑائیاں لیتے ہوئے دیکھتے ہیں۔ یوں اس کی شاعری محسوسات کی کرب ناک کیفیات کی داستانِ الم ہے لیکن حسن و عشق کے آئینے میں۔ مثلاً
فردوس کی خوشبو ہے جنت کے نظارے
ساحل کی ہوا اور کھلے گیسو تمھارے
قاتل ہیں مری جان ، تری ساری ادائیں
اس دل کو لبھائیں ترے ابرو کے اشارے
آج چہروں پر کئی چہرے چڑھاتا ہے جہاں
ہو کوئی اتنا غمگیں بھی یہ ضروری تو نہیں
اس کی غزل میں تضاداتِ زندگی بھی ہیں اور دکھ اور کرب کے دل دوز سلسلے بھی۔ پھر ڈکشن بڑی سادہ اور تفہیم کن ہے۔ ہماری دعا ہے کہ وہ اس نوع کی غزلوں کے گلستاں کھلاتے رہیں۔”
(ڈاکٹر مختار ظفر۔ملتان) "عاصم بخاری درس و تدریس سے وابستہ ہونے کے ساتھ ساتھ تخلیقِ شعرکے میدان میں بھی اپنے جوہر دکھاتے رہتے ہیں۔اُن کی پسندیدہ شعری صنف اردو غزل ہے۔وہ غزل تخلیق کرتے ہوئے موضوعاتی حوالے سے روایت کی پاسداری بھی کرتے ہیں اور جدت کے طرف دار بھی نظر آتے ہیں۔اُن کے اشعار سہل ممتنع کا عمدہ نمونہ معلوم ہوتے ہیں۔اسی طرح اُن کی اکثر غزلیں چھوٹی بحر کی عکاس ہیں۔دنیا کی بے ثباتی محبوبِ مجازی کے حسن و جمال کی تعریف۔۔وسیبی زندگی کے مسائل اور مظاہرِ فطرت کا تذکرہ ان کی غزل کے نمایاں موضوعات ہیں۔اگراُن کی غزل فنی و فکری میدان میں اِسی طرح مائل بہ ارتقا رہی تو وہ مستقبل میں منفرد غزل گو کے طور پر اپنی شناخت قائم کرنے میں کام یاب ہو جائیں گے”۔ (ڈاکٹر سعید عاصم بھکر)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"پروفیسر عاصم بخاری کا تعلق اگرچہ میانوالی سے ہے مگر ان کی ادبی شہرت لامقامی ہوتی جارہی ہے _ سبب یہ ہے کہ انھیں قدرت نے تخلیق ، تنقید اور تحقیق کی صلاحیتوں سے نمایاں طور پر نوازا ہے اور پھر اس پر ان کا مطالعہ ، مشاہدہ اور ریاضتفن ہے جو ہمیشہ سے کام یابی کی کنجی رہی ہے یک طرف تو حمدونعت،منقبت جیسی بابرکت اصناف میں ان کی طبع آزمائی آج کے عمومی مزاج سے ہٹ کر محض رسمی کارروائی نہیں بلکہ پوری تخلیقی شان کی حامل ہے اور دوسری طرف ان کی غزل کلاسیکی رچاؤ میں گندھے عصری شعور کی عکاس ہے _ پروفیسر عاصم بخاری کی متنوع ادبی شخصیت ایک مبسوط اور جامع تنقیدی مطالعے کی متقاضی ہے _ جناب مقبول ذکی جیسے اہلنظر کا اس طرف متوجہ ہونا باعثاطمینان ہے _”
ڈاکٹر سید عتیق جیلانی
، حیدر آباد سندھ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"عاصم بخاری کی غزل گوئی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بلاشبہ شعر و سخن سپردگی اور محویت کا حد درجہ متقاضی ہوتا ہے۔حیات و کائنات اور زندگی کی بلند ترین اقدار کا شعور منعکس ہونا ادب کی آفاقیت کی جانب سفر کا پہلا زینہ ہے۔ آج کے شعرا اور ادبا میں یہ وصف انھیں دیگر سخن وروں سے ممیزبنا دیتا ہے۔ عاصم بخاری کی شعر گوئی ان اوصاف سے مزین ہے۔جو انھیں عصر ِ حاضر کے شعرا میں اعتبار بخشے ہیں اور ان کی شخصیت ایسے اوصاف سے متصف ہے جن کے بطن سے ادب ِ عالیہ کی کونپلیں پھوٹتی ہوتی ہیں۔
عاصم بخاری قادر الکلام شاعر ہیں۔ نظم و غزل ہر دو صنف میں قلم کشائی کرتے ہیں۔ اور ان کاحق ادا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔قطعات میں بھی انھوں نےاپنی صلاحیت کے خوب جوہر دکھاۓ ہیں۔زبان و بیان کے ساتھ کسی موضوع کو لیتے ہیں اور اس کی جزیئات کو بھی نہایت خوب صورت انداز سے اپنے اشعار میں سمو دیتے ہیں۔ان کا مرغوب موضوع سماج ہےعاصم بخاری کی نظم ہو یا غزل احساس و معنی کا حسن لیے ہوتی ہے۔”
ڈاکٹر سید ضمیر بخاری صدر شعبہ اردو گورنمنٹ گریجویٹ کالج میانوالی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عاصم بخاری کی غزلیہ شاعری
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"عاصم بخاری کی شاعری حبس زدہ موسم میں آنے والےخوش گوار جھونکےکی طرح ہے۔عاصم بخاری اردو شاعری کے افق پر ابھرنے والا وہ ستارہ ہےجس کی کرنیں چا دانگ ِ عالم کو منور کریں گی۔ان کے لہجے کی موسیقیت اور موسیقیت قاری کو اپنےسحر میں جکڑنے کی کی بھر پور صلاحیت رکھتی ہے۔ ان کے ہاں موضوعات کی رنگا رنگی نظر آتی ہے۔انھوں نے عشق و محبت کے کلاسیکی موضوعات کو اپنے قلم سے وہ تازگی اور جدت بخشی ہےجو قاری کو فرحت و انبساط سے سرشارکر دیتی ہے۔ ان کا قلم کہیں عشق و محبت کے خوش کن نغمات الاپتا ہے تو کہیں درد والم کی نوحہ خانی کرتاہوا نظر آتا ہے۔انھوں نے اپنے کلام میں چھوٹی اور بڑی بحروں کوخوب صورتی سےاستعمال کرکےاپنی فنی مہارت و بصیرت کا ثبوت دیا ہے۔” سر ، قد وہ حسیں جمیل ایسا
کہ نمایاں ہزار ، میں یارو
غم کھڑے ہیں قطار میں یارو
دکھ مرے انتظار ، میں یارو
ڈاکٹر محمد سجاد ( پسرور۔ سیالکوٹ)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عاصم بخاری کی غزل گوئی
"عاصم بخاری کی غزل اسلوبیاتی و موضوعاتی دونوں لحاظ سے ہم عصر غزل سے مختلف ہے ۔یہاں آپ کو لمس و ہوس کا عالم رنگ و بو ملے گا نہ حسن و عشق کی وہ بے باکیاں ۔یہاں نہ شاہد بازی ہے نہ حسن نازکاں کی وہ عشوہ طرازیاں جن میں نفس گم ہو جائے ۔ان کی غزل انسان کے سلگتے ہوئے دکھوں کے کربناک انداز ،سماج کی ٹوٹتی قدروں پر ماتمی رنگ،اور تہذیبی شکست و ریخت پر نوحی ڈھنگ سے عبارت ہے ۔ یہاں حسن ازل و مطلق بھی حسن دلبراں کے ساتھ موجود ہے ۔یہاں گل و بلبل کے قصے اگر کہیں موہوم صورت میں موجود ہیں تو مظاہر تہذیب و ثقافت بھی جلوہ افروز ملیں گے ۔یہاں اگر مقامی معاشرت کی جھلک دکھے تو ضرور دیکھیے گا کہ اسلامی افکار بھی کلیت کے ساتھ انعکاس پذیر ہوں گے ۔ بعض اوقات تو وہ پوری پوری غزل کسی ایک احساس پر صرف کر دیتے ہیں۔لب و لہجے کا دھیمہ پن انہیں تلخ حقائق کی پیشکش میں ہمیشہ مددگار رہا ہے ۔میانوالی کی شعری روایت میں ان کی غزل نے نوجوانوں کو حسن و شباب کا گرویدہ کرنے کے بجائے اپنی تہذیبی قدروں سے جوڑنے کے کامیاب کوشش کی ہے ۔۔ان کی عصری آگہی نے انہیں غزل کے نئے افق تلاشنے میں مدد فراہم کی ہے ۔ ان کی غزل میں روایت و جدت کا حسین امتزاج قابل تقلید ہے ۔”
پروفیسر میاں محمد ارشد حسان (میانوالی)
۔۔۔۔۔۔
"عاصم بخاری صاحب جدید غزل گو شاعر هیں’ان کی غزل میں غزلیت’خوبصورتی’رنگینی و موسیقی هے۔”
پروفیسر عبدالجبار عبد (شکارپور ۔ سندھ)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عاصم بخاری کی غزل
"عاصم بخاری کی غزل کاٸنات سے حُسن کشید کرتی ہوٸی فہم و ادراک کے زاویے کھینچتی ہے وہ ماضی اور حال کے تعلق کو جوڑ کر مستقبل کی راہیں تلاش کرتی ہے اس میں بلاغت کا عنصر غالب ہوتا ہے جو قاری کے دل میں اترتا جاتا ہے عاصم بخاری کے ہاں بات کرنے کا سلیقہ شاٸستہ ہے ان کی غزل معاشرے کی دکھتی رگوں پر نہ صرف ہاتھ رکھتی ہے بل کہ اس میں اصلاحِ معاشرہ کے پہلو بھی نمایاں ہوتے ہیں اور یہی ایک اچھا ادیب کرتا ہے اس کا قلم اصلاحِ معاشرہ کے لیے وقف ہوتا ہے میں عاصم بخاری کو مبارک باد دیتا ہوں کہ وہ اپنے قلم سے اصلاح معاشرہ کے ساتھ ساتھ دعوتِ فکر و عمل بھی دیتے ہوٸے نظر آتے ہیں۔” مدیر ادبی مجلہ ”میرے لفظ“ سید حبدار قاٸم۔ (اٹک)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"پروفیسر عاصم بخاری تدریسی شعبہ سے منسلک ہیں اور عہد حاضر کی شعری روایات میں اپنے لہجے کی خوشبو بکھیر رہے ہیں۔میں خوشی اس بات کی ہے کہ رومانیت کے ساتھ آپ کی شاعری میں عصری حسیت بھی ہے اور خارجی اثرات نے آپ کی تخلیقات کو تہذیب سے جوڑ کر تازہ آہنگ میں نئے موضوعات کی طرف راغب کیا ہے ۔آپ کی شاعری میں کئی علامتوں کا تعلق سماج سے ہے۔۔آپ کی شاعری مختلف اخبارات میں پڑھنے کو ملتی ہے ۔ امید ہے آپ خوبصورت تخلیقات قارئین تک پہنچاتے رہیں گے ۔”
۔
(نوید ملک۔ راول پنڈی)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"پروفیسر سید عاصم بخاری صاحب کا نام شعر و ادب کے حوالے سے جانا پہچانا نام ہے ان کی ادبی خدمات قابل تحسین ہیں نعت گوئی غزل سرائی میں منفرد مقام حاصل ہے ان کے کلام میں شائستگی شگفتگی اور شستگی کے ساتھ ساتھ سلاست روانی اور قادرالکلامی پائی جاتی ہے”
(متین کشمیری لاہور)
۔۔۔۔۔۔۔۔
"عاصم بخاری کی غزل میں تغزل اور موسیقیت اس کی خاص پہچان ہے۔رواں اور مختصر بحر میں اپنا خیال بیاں کرنا عاصم بخاری کی شاعروں میں اپنی مثال آپ ہے ۔ عاصم بخاری کی غزل میں زندگی حرکت میں نظر آتی ہے۔”
ریحانہ بتول
جنرل سیکریٹری
بزمِ اوجِ ادب ، بھکر
***
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔