اشفاق حسین کی کتاب "برف کے قیدی”:تجزیاتی مطالعہ
ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی٭
(ورلڈ ریکارڈ ہولڈر)
اشفاق حسین نے انگریز مصنف پی آرزپال ریڈٖ کی انگریزی کتاب Alive: there Was Only One Way To Survive کا اردو ترجمہ "برف کے قیدی” نے نام سے کیا ہے۔ ایک غیر معمولی سفر کی کہانی ہے جو انسانی عزم، بقا کی جدوجہد، اور زندگی کے معنی پر گہرے غور و فکر کو نمایاں کرتی ہے۔ یہ کتاب پی آرزپال کے دل دہلا دینے والے واقعات پر مبنی ہے، جس میں 1972 کے اندوہناک فضائی حادثے کے بعد زندہ بچنے والوں کی کہانی بیان کی گئی ہے۔ اشفاق حسین نے اس ترجمے میں نہ صرف اصل متن کی روح کو برقرار رکھا ہے بلکہ اردو کے ادبی ذوق کے مطابق اسے خوبصورتی سے پیش کیا ہے۔
پی آرزپال ریڈ برطانوی ناول نگار اور افسانہ نگار تھے۔ انہوں نے بینیڈکٹائنز ایمپلفورتھ کالج میں تعلیم حاصل کی اس کے بعد سینٹ جان کالج، کیمبرج یونیورسٹی میں داخل ہوئے جہاں انہوں نے بی اے اور ایم اے (تاریخ) میں ڈگری حاصل کی۔(1963-4) برلن میں فورڈ فاؤنڈیشن میں آرٹسٹ ان ریذیڈنس، (1967-8) ہارکنیس فیلو، کامن ویلتھ فنڈ، نیویارک، (1971-5) کونسل آف دی انسٹی ٹیوٹ آف کنٹیمپریری آرٹس کے رکن رہے،(1975-7) آرٹس کونسل میں لٹریچر پینل میں شامل تھے اور ایڈجنکٹ پروفیسر آف رائٹنگ، کولمبیا یونیورسٹی، نیویارک (1980)۔ 1992-7 تک وہ کیتھولک رائٹرز گلڈ کے چیئرمین رہے۔ وہ رائل سوسائٹی آف لٹریچر (FRSL) کے فیلو ہیں۔ ان کی سب سے مشہور تصنیف نان فکشن الائیو: دی اسٹوری آف دی اینڈیز سروائیورز (1974) ہے، جو اینڈیز میں ہوائی جہاز کے حادثے کے بعد کا واقعہ ہے بعد میں ایک فلم کے طور پر پیش کیا گیا۔
کتاب”برف کے قیدی” انتہائی موزوں اور پراثر کتاب ہے، جو قارئین کو کہانی کے مرکزی خیال یعنی برف سے ڈھکے علاقے میں قید اور زندگی کی بقا کی طرف متوجہ کرتا ہے۔ اشفاق حسین کی ترجمے کی زبان سادہ لیکن دلکش ہے، جو قارئین کو کہانی کے ساتھ جذباتی طور پر جوڑنے میں کامیاب رہتی ہے۔
1972میں ایک طیارہ اینڈیز کے پہاڑوں میں گر کر تباہ ہو گیا۔ مسافر زمین کی سب سے الگ تھلگ جگہوں میں سے ایک مقام میں کھو گئے ہیں۔ تقریباً تین ماہ بعد زندہ بچ جانے والوں میں سے دو، کمزور اور منجمد، حکام کے پاس پہنچتے ہیں اور باقی چودہ مسافروں کی طرف ایک ریسکیو ٹیم کی قیادت کرتے ہیں۔ ریسکیو ٹیم جب جائے حادثہ پر پہنچی تو حیران رہ گئے کہ یہ لوگ کیسے بچ گئے۔
کتاب میں شامل موضوعات زندگی کے مختلف پہلوؤں کو اجاگر کرتے ہیں۔ ہر مضمون ایک نیا باب پیش کیا گیا ہے، جو نہ صرف قاری کی دلچسپی برقرار رکھتا ہے بلکہ انہیں بقا کے لیے انسانی عزم، اجتماعی جدوجہد، اور روحانی تجربات کی طرف متوجہ کرتا ہے۔
آغاز سفرکا یہ حصہ حادثے سے پہلے کی زندگی اور سفر کی تیاریوں کو بیان کرتا ہے، جو کہانی کی بنیاد فراہم کرتا ہے۔
تلاش لیے سود والے عنوان میں انسانی بقا کے لیے خوراک اور دیگر وسائل کی تلاش کی تفصیلات ہیں۔ اس باب میں انسانی عزم اور جدوجہد کی شدت عیاں ہے۔
روحانی خبریں والا یہ باب ایک نئے رخ پر روشنی ڈالتا ہے، جہاں بقا کی کوششیں روحانی سوچ اور امید کی شکل اختیار کر لیتی ہیں۔
ابھرتے حوصلے، ڈوبتی نبضیں والا باب مایوسی اور امید کے درمیان انسانی جذبات کی عکاسی کرتا ہے۔
وطن واپسی والا باب کہانی کے اختتام پر زندہ بچنے والوں کی گھر واپسی جذباتی اور دل کو چھو لینے والی ہے۔ یہ حصہ قارئین کو ایک تسکین آمیز انجام فراہم کرتا ہے۔
اشفاق حسین کا انگریزی سے اردو ترجمہ ایک شاہکار ترجمہ ہے، جس نے کتاب کی روح کو اردو زبان میں منتقل کیا ہے۔ انہوں نے مصنف کے جذبات، کہانی کی شدت، اور واقعے کی سنجیدگی کو نہایت عمدگی سے پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ اردو قارئین کے لیے یہ کتاب کسی نعمت سے کم نہیں، کیونکہ یہ نہ صرف ادب بلکہ زندگی کے معنی پر بھی غور کرنے کی دعوت دیتی ہے۔ کتاب میں درج پیغامات میں بقا کی جدوجہد میں انسان کے اندرون کا امتحان، اجتماعی کوششوں کی اہمیت، امید اور روحانی یقین کے ذریعے مشکلات پر قابو پانا جیسے پیغامات شامل ہیں۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ "برف کے قیدی” ایک ایسی داستان ہے جو قارئین کو انسانی زندگی کی نزاکت اور بقا کے اصولوں پر غور کرنے پر مجبور کرتی ہے۔ یہ کتاب نہ صرف ادبی لحاظ سے اہم ہے بلکہ زندگی کے بارے میں ایک گہرا سبق بھی فراہم کرتی ہے۔
اشفاق حسین کا یہ ترجمہ اردو ادب میں ایک قیمتی اضافہ ہے۔ کتاب کی دلکش زبان، مضبوط پیغام، اور گہری کہانی اسے ایک لازمی مطالعہ کرنے والی کتاب بناتے ہیں۔ "برف کے قیدی” قارئین کو اپنے اندر جھانکنے اور انسانی عزم کے حیرت انگیز پہلوؤں کو سمجھنے کا موقع فراہم کرتی ہے۔
رحمت عزیز خان چترالی کا تعلق چترال خیبرپختونخوا سے ہے، اردو، کھوار اور انگریزی میں لکھتے ہیں۔ آپ کا اردو ناول ”کافرستان”، اردو سفرنامہ ”ہندوکش سے ہمالیہ تک”، افسانہ ”تلاش” خودنوشت سوانح عمری ”چترال کہانی”، پھوپھوکان اقبال (بچوں کا اقبال) اور فکر اقبال (کھوار) شمالی پاکستان کے اردو منظر نامے میں بڑی اہمیت رکھتے ہیں، کھوار ویکیپیڈیا کے بانی اور منتظم ہیں، آپ پاکستانی اخبارارت، رسائل و جرائد میں حالات حاضرہ، ادب، ثقافت، اقبالیات، قانون، جرائم، انسانی حقوق، نقد و تبصرہ اور بچوں کے ادب پر پر تواتر سے لکھ رہے ہیں، آپ کی شاندار خدمات کے اعتراف میں آپ کو بے شمار ملکی و بین الاقوامی اعزازات، طلائی تمغوں اور اسناد سے نوازا جا چکا ہے۔کھوار زبان سمیت پاکستان کی چالیس سے زائد زبانوں کے لیے ہفت پلیٹ فارمی کلیدی تختیوں کا کیبورڈ سافٹویئر بنا کر عالمی ریکارڈ قائم کرکے پاکستان کا نام عالمی سطح پر روشن کرنے والے پہلے پاکستانی ہیں۔ آپ کی کھوار زبان میں شاعری کا اردو، انگریزی اور گوجری زبان میں تراجم کیے گئے ہیں ۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔