بھیڑیئے جتنی غیرت اور عاجزی
بھیڑیئے بہت خونخوار اور وحشی درندے ہوتے ہیں۔ اس کے باوجود ان کی غیرت، وفا، شرم و حیا، نظم و ضبط، اپنی جنس سے ہمدردی اور کچھ دیگر منفرد اور غیرمعمولی خوبیاں اور عادات و خصائل بہت مشہور ہیں۔ بھیڑیوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ دنیا کا واحدجانور ہے جو جنات کو قتل کر سکتا ہے، بھیڑیئے کی تیز آنکھوں میں جنات کو دیکھنے کی صلاحیت موجود ہوتی ہے۔ جنات کو دیکھتے ہی بھیڑیا ان پر جھپٹ پڑتا ہے اور انہیں موت کے گھاٹ اتار دیتاہے۔
بھیڑیا دنیا کا واحد جانور ہے جواپنی آزادی پر کبھی بھی سمجھوتا نہیں کرتا اور زندگی بھر کسی کا غلام نہیں بنتا۔ بھیڑیا انسانوں کی طرح کبھی مردار کا گوشت نہیں کھاتا بلکہ زندہ جانوروں کا شکار کر کے انھیں اپنی خوراک بناتا ہے۔ کیونکہ بھیڑیا مردہ گوشت کھانے کو اپنی توہین سمجھتا ہے۔
برفانی بھیڑیوں کے بارے سنا گیا ہے کہ جب خوراک کی کمی ہوتی ہے تو وہ لاغر ہو جاتے ہیں اور جو بھیڑیا بھوک کی وجہ سے سب سے زیادہ کمزور ہو جائے وہ نڈھال ہو کر بیٹھ جاتا ہے اور باقی بھیڑیئے بھی اس کے گرد دائرہ بنا کر بیٹھ جاتے ہیں۔ ان میں سے کوئی بھی بھیڑیا اسے کھانے کے لیئے حملہ نہیں کرتا ہے حالانکہ اس کے گرد موجود تمام بھیڑیئے خود بھی بھوک سے کمزور ہو چکے ہوتے ہیں۔ البتہ جونہی وہ لاغر بھیڑیا قریب مرگ ہوتا ہے اور مرنے کے لیئے آخری بار زمین پر گرتا ہے تو اس کے گرد دائرے میں بیٹھے بھیڑیئے اپنی بھوک مٹانے کے لیئے اس پر ٹوٹ پڑتے ہیں۔
اسی طرح دو بھیڑیوں کی لڑائی میں جب ایک بھیڑیا یہ سمجھتا ہے کہ وہ دوسرے بھیڑیئے کے خلاف لڑائی ہار رہا ہے اور یہ جان لیتا ہے کہ جیت کا کوئی امکان نہیں ہے، تو وہ ایک حیران کن اور غیر متوقع فیصلہ کرتا ہے، وہ خود کو پرامن طریقے سے اپنے حریف کے سامنے اس طرح پیش کر دیتا ہے جیسے یہ کہہ رہا ہو کہ، "میں ہار گیا ہوں، چلو ہم یہ لڑائی اب ختم کرتے ہیں۔” لیکن اسی لمحے ایک حیرت انگیز بات یہ واقع ہوتی ہے کہ جو شاید ہی کسی دوسری جاندار مخلوق میں ہوتی ہو۔ واقعہ یہ ہوتا ہے کہ فاتح بھیڑیا اپنی آخری ضرب لگانے کی بجائے خود کو حملہ کرنے سے فوری طور پر روک لیتا ہے۔
عین ممکن ہے اس فاتح بھیڑیئے کو اپنی جنس سے ہمدردی اور اپنی قوت و بہادری اور وقار جیسی کوئی اندرونی قوت روکتی ہے۔ کوئی خاموش فطری قانون بھیڑیئے کے ڈی این اے (DNA) میں پایا جاتا ہے جو اسے حکم دیتا ہے کہ اپنے کمزور دشمن پر حملہ نہیں کرنا ہے کیونکہ یہ حملہ کرنے کی بہادری ظلم کے ضمرے میں آتی ہے یا شاید اس سے آگے کی کوئی چیز بھیڑیئے کے دماغ میں آتی ہے کہ اس کے حریف کی بقا اس کو ختم کرنے کے اطمینان سے زیادہ اہم ہو جاتی ہے۔
بھیڑیا افزائش نسل اور تولید کے معاملات میں ماں اور بہن جیسے رشتوں سے منسلک مادہ بھیڑیوں سے جسمانی تعلق قائم نہیں کرتا ہے۔ بھیڑیوں کی یہ صفت مشہور ہے کہ میاں اور بیوی بھیڑیئے میں محبت اور وفا کا رشتہ آخری دم تک قائم رہتا ہے۔ اگر جوڑے میں سے کسی ایک کی موت بھی واقع ہو جائے تو دوسرا اپنی موت تک کسی بھی نر یا مادہ بھیڑیے سے جسمانی تعلق قائم نہیں کرتا یے۔ اسی طرح شریک حیات کی موت کے بعد بھیڑیا اپنے بچوں کی اکیلے ہی پرورش کرتا ہے اور انہیں پالتا ہے۔ بھیڑیا والدین کے ساتھ حسن سلوک اور ان کی دیکھ بھال کرنے کے لیئے بھی مشہور ہے۔ جب کسی بھیڑیئے کے والدین بوڑھے ہو جائیں اور شکار تو کیا چلنے پھرنے کے بھی قابل نہ رہیں، تو ان کے بچے شکار کر کے اپنے ماں باپ کو کھلاتے ہیں اور ان کا سہارا بنتے ہیں۔ اسی بنا پر بھیڑیے کو عربی اصطلاح میں والدین سے نیک سلوک کرنے والا بھی کہا جاتا ہے۔
بھیڑیا اپنے سونے کے معاملات میں بھی تمام جانوروں سے منفرد ہے، جو سوتے وقت ایک آنکھ کھلی رکھتا ہے اور حیرت انگیز طور پر سوتے ہوئے بھی اس کی آنکھ اردگرد کے مناظر و حالات سے باخبر رہتی ہے۔ بھیڑیئے ایک کاررواں کی صورت میں چلتے ہیں اور ان کا یہ انداز ڈسپلن اور سکیورٹی وغیرہ کے بہترین انتظامات سے ہم آہنگ ہوتا ہے۔ کاررواں میں سب سے آگے بوڑھے، ناتواں اور ضعیف بھیڑیئے چلتے ہیں جبکہ ان کے پیچھے چیر پھاڑ کی ماہر ایلیٹ فورس چل رہی ہوتی ہے۔ اس فورس کی ذمہ داری آگے چلنے والے بیمار اور بوڑھے بھیڑیوں کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ اس فورس کے پیچھے وہ جتھہ چل رہا ہوتا ہے جو انتہائی طاقتور بھیڑیوں پر مشتمل ہوتا ہے جو دشمن کے اچانک حملے کی صورت میں دفاع کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔اس جتھے کے پیچھے ایک بڑا لشکر ہوتا ہے جو چاروں جانب سے پھیل کر اپنے مخالف پر حملہ کرتا ہے۔ اس کے بعد پھر پانچ بھیڑیوں پر مشتمل ایک اعلی فورس ہوتی ہے جو سب سے آخر میں موجود کمانڈر بھیڑیئے کی رہنمائی کر رہی ہوتی ہے۔ عربی اصطلاح میں کمانڈر بھیڑیا اکیلا ہی ہزار کے برابر ہوتا ہے، کیونکہ یہ اپنی پھرتی، طاقت، آس پاس کے حالات سے باخبر رہنے کی صلاحیت اور پورے کاررواں کے معاملات کی نگرانی کی صلاحیت رکھتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ منگولوں اور ترک قوم نے بھیڑیئے کو اپنا "قومی جانور” بنا رکھا ہے۔
بھیڑیئے جیسے جانور جو بعض دفعہ شیر سے بھی زیادہ ظالم اور خونخوار ثابت ہوتا ہے، اس میں بھی قدرت نے یہ کتنے قابل تحسین فطری اوصاف رکھے ہیں کہ وہ منظم و غیرت مند ہوتے ہیں اور بچوں کو پالنے اور والدین کی خدمت کرنے جیسے اوصاف سے سرشار ہوتے ہیں، ان کے نزدیک ہتھیار ڈالنے والے میں کوئی بزدلی نہیں ہوتی، اور حملہ کرنے سے ہاتھ کھینچ لینے والے میں کوئی تفاخر نہیں ہوتا۔
اگر انسان کی فطرت میں یہی کامل توازن کا جذبہ موجود ہو جہاں کوئی فاتح نہ ہو اور کوئی ہارنے والا نہ ہو تو اسے "عاجزی” کہتے ہیں۔
عاجزی طاقت ہونے کے باوجود انتقام اور بدلہ نہ لینے کا نام ہے جو بھیڑیوں جتنی بھی انسان کے اندر پائی جائے تو محبت اور وفا پر مبنی ایک ایسا احسن انسانی معاشرہ قائم ہو سکتا ہے، جہاں تمام بنی نوع انسان بہن بھائیوں کی طرح ایک خاندان کی شکل میں رہ سکتے ہیں، جہاں زندگی آسان ہو جائے اور دنیا پر ہی "جنت” کا گمان ہونے لگے۔

میں نے اردو زبان میں ایف سی کالج سے ماسٹر کیا، پاکستان میں 90 کی دہائی تک روزنامہ "خبریں: اور "نوائے وقت” میں فری لانس کالم لکھتا رہا۔ 1998 میں جب انگلینڈ گیا تو روزنامہ "اوصاف” میں سب ایڈیٹر تھا۔
روزنامہ "جنگ”، لندن ایڈیشن میں بھی لکھتا رہا، میری انگریزی زبان میں لندن سے موٹیویشنل اور فلاسفیکل مضامین کی ایک کتاب شائع ہوئی جس کی ہاؤس آف پارلیمنٹ، لندن میں 2001 میں افتتاحی تقریب ہوئی جس کی صدارت ایم پی چوہدری محمد سرور نے کی اور مہمان خصوصی پاکستان کی سفیر ڈاکٹر ملیحہ لودھی تھی۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
کیا آپ بھی لکھاری ہیں؟اپنی تحریریں ہمیں بھیجیں، ہم نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ |