ارشد حسین کی غزل گوئی

ارشد حسین کی غزل گوئی

تحریر : مقبول ذکی مقبول ، بھکر

ارشد حسین محلہ چاہ چمنی جنوبی بھکر شہر کے رہنے والے ہیں ارشد حسین غزل گوئی میں ایک منفرد مقام رکھتے ہیں ۔ طرح مصرح پر کہی گئی غزلیات نے غزل گوئی مقابلہ میں انعامات جیتے ہیں ۔ پہلا انعام پوزیشن دوسری 20 نومبر 1995ء کو گورنمنٹ ڈگری کالج ، چشتیاں ضلع بہاول نگر سے حاصل کیا ۔ دوسرا انعام پہلی پوزیشن 20 ستمبر 1995ء گورنمنٹ کالج ، سرگودھا اور تیسرا انعام تیسری پوزیشن فروری 1996ء کو گورنمنٹ کالج ، گوجرہ ضلع ٹوبہ ٹیک سنگھ سے حاصل کیا ۔


ان کا نظمیات و غزلیات پر مشتمل مجموعہ ٫٫ چلو اب مان بھی جاؤ ،، پہلا ایڈیشن فروری 2001 ء کو تگ وتاز پبلشرز ، لاہور نے شائع کیا ۔ 2006ء کو دوسرا ایڈیشن علم دوست پبلیکشنز ، لاہور نے شائع کیا تیسرا ایڈیشن 2009ء ۔ چوتھا 2013ء اور پانچواں ایڈیشن 2018ء کو شائع ہوا ۔ ان کا دوسرا مجموعہ نظمیات و غزلیات پر مشتمل ٫٫ مجھے دھڑکنوں میں بحال کر ،، پہلا ایڈیشن 2013ء اور دوسرا ایڈیشن 2018ء کو شائع ہوا ۔

ارشد حسین کی غزل گوئی


عباس تابش (لاہور) ان کی غزل گوئی کے بارے میں لکھتے ہیں ۔ ارشد حسین کی غزل ۔۔۔۔۔۔۔ دریائے غمِ دل ، کی وہ موج ہے جو اس کے بدن کے کنارے توڑ کر باہر نکل جانا چاہتی ہے لیکن وہ مضبوط حوصلے کے مالک ارشد حسین کی ذات کے اندر ہی طوفان برپا کر کے اس کے دل میں گہری اتر جاتی ہے ۔ بظاہر وہ کہیں کہیں سماجی جبر کی بات کرتا ہے ۔ لیکن وہ بنیادی طور پر اپنی ذات کے حجرے میں رہتا ہے ۔ اس خودنگری نے اُسے ایک ایسا شخصی رچاؤ دیا ہے جو اچھی شاعری کی شرطِ اول ہے ۔ وہ محبت کی دھونی رمائے ہجر کی لے میں گنگنا رہا ہے ، وہ سادہ لوحی کی بکل مارے جب کلام کرتا ہے تواندر کی بلا خیزی جو کنارِ ذات کو توڑ نہیں سکتی لفظوں کے ذریعے پھوٹ بہتی ہے ۔ ارشد حسین نے جس میٹھے لہجے کی بنیاد رکھی ہے وہ اس عمر کے شعراء میں کم کم ہی دیکھنے میں آتا ہے ۔ خدا کرے کہ وہ اپنے اضطراب کو اسی طرح سنھبالے رکھے اور اس کا اظہار اس کی ذات کی بجائے اس کے کلام میں ہوتا رہے ۔ ارشد حسین کا تعلق بھکر سے ہے ۔ بھکر جس تہذیبی رچاؤ کا نمائندہ شہر ہے وہ بھی ارشد کی شاعری میں جھلکتا ہے ۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ وہ شدید اندرونی دباؤ کے باوجود کہیں تلخ نہیں ہوتا بلکہ مثبت انداز میں عہدِ نو کے جبر پر تبصرہ کرتا چلا جاتا ہے ۔ کہیں کہیں تو ایسا لگتا ہے کہ یہ جبر ہے جسے وہ خوشی سے سہہ رہا ہے ۔
٫٫ چلو اب مان بھی جاؤ ،،( ص 20) آخر میں ایک غزل کا کیف اٹھائے ۔
غزل
دریائے غمِ دل میں یہ طوفان سا کیوں ہے
اب اس کی ہر موج میں ہیجان سا کیوں ہے

کہتے ہیں جسے شہر کے سب لوگ مسیحا
وہ شخص مرے درد سے انجان سا کیوں ہے

اظہار کو گر لفظ میسر ہی نہیں تو
سینے میں یہ جذبات کا طوفان سا کیوں ہے

بے عدل ہی ہوتی ہے یہاں رزق کی تقسیم
اس ملک میں انصاف کا فقدان سا کیوں ہے

جو جاتے ہوئے رشتے سھبی توڑ گیا تھا
اُس شخص کے لوٹ آنے کا امکان سا کیوں ہے

مٹی کا بنا ہے تو گُھل کیوں نہیں جاتا
پتھر کا صنم ہے تو وہ انسان سا کیوں ہے

کل ترک تعلق کا جسے شوق تھا ارشد
اب مجھ سے بچھڑ کر وہ پیشمان سا کیوں ہے

تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

streamyard

Next Post

وزارت داخلہ کی رپورٹ اور ملک میں دہشت گردی کی موجودہ لہر

ہفتہ دسمبر 14 , 2024
پاکستان میں دہشت گردی کی حالیہ لہر نے قومی سلامتی، عوامی تحفظ، اور بین الاقوامی تعلقات پر گہرے اثرات مرتب کیے ہیں۔
وزارت داخلہ کی رپورٹ اور ملک میں دہشت گردی کی موجودہ لہر

مزید دلچسپ تحریریں