ضلع اٹک میں تحصیل پنڈی گھیپ تاریخی اعتبار سے انتہائی اہمیت کی حامل ہے۔ آج کے مضمون میں اس تحصیل کی تاریخی اہمیت پر کچھ نکات بیان کئے جایئں گے۔ پنڈی گھیب کی طرف "دو میل” اور "ڈھوک پٹھان” جانے والی سٹرک سے تین چار میل کے فاصلے پر ایک چھو ٹی جھیل ھے۔ یہ ریتلے پتھروں کی سطع مرتفع پر بنی ہوئی ھے ۔اس کی ڈھلانوں پر سنہری پتھروں میں چھپے ہوے آلات ملتے ہیں- جن میں چاقو،چھریاں ،سکریپر(جن کے دونوں سرے اور اطراف تیز تھیں-)مکمل حالت میں کلُؒہاڑیاں اور روز مرہ کے استمال ہونے والے آلات تھے-ان میں آخری ہتھیار ایک رسی سے بندھا ہواملا-اور ان پر موسمی اثرات کے نشان بھی کم تھے-بناوٹ میں یہ فرانس کے شہرMousti_middle_le”( یہ نام اس لۓ دیا گیا تھا کہ آثار قدیمہ تین حصوں میں دریافت ہوے تھے) کے ان آثار قدیمہ کے مُشابہ تھےجو کہ 40 ہزار سال پُرانے ہیں-اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ پتھروں سے بنے ایسے اوزار پنجاب میں اور کہیں نہیں ملتے-کچھ آلات کے نمونے اور تفصیل درج ذیل ہے
"چپٹے چاقو” ہلکے بھورے رنگ کے تھے۔جس کے تیز حصّے سرخی مائل سلیٹی رنگ کے تھےبائیں کنارے کی تہہ کو اُتار کر تیز کیا جاتا اور پھر چاروں طرف سے تراشا جاتا تھا کہ پچھلی طرف ایک اُبھری جگہ پکڑنے کے لیے ہوتی تھی-
"پتلی گول پلیٹ یا پترا” بھورے مائل سلیٹی رنگ کی ایک پلیٹ جو چاروں طرف سے تیز ہوتی تھی جہاں اس کا رنگ سنہرا ہو جاتا یہ بلکل اُن کی مشابہ تھی جو مدارس کے صدر مقام سے ملے تھے۔
سروں اور اطراف والے تھے (End & side scrapper)
سنہری پتھروں سے بنے بھورے رنگ کےحامل یہ پترے چاروں اطراف سے چپٹے کیے ہوتے تھے- جس سے لمبی ہتھوڑے کی شکل بنتی تھی۔
( نا مکمل کلہاڑی) رنگ میں سفیدی مائل پیلے رنگ "3٭2/1” چوڑی، سنہرے پتھروں سے بنی ہوئی تھی۔ اس کی ایک طرف مکمل چپٹیی ہوتی تھی اور دوسرے کناروں کو تیز کیا جاتا تھا۔
Flaked Scrapper چپٹے پترے
شکل میں لمبے اور بناوٹ کے لحاظ سے سنہری پتھروں سے بنے ہوئے تھے۔ اِن کے تین بڑے پترے تھے۔ جو پتھر کی اُوپری سطح سے گھڑے گئے تھے۔ اِس طرح کنارے گول تراشے گئے تھے اور سلیٹی مائل سفید تھے۔ اور اِن کی ناک پر جلد تھی۔ اس ضلع کے باسی آریاؤں کے بعد "ٹکے” تھے۔وہ دوسری صدی قبل مسیح کے وسط میں یہاں آئے تھے۔ سندھ اور جہلم کے درمیان کا علاقہ (Summa)کہلاتا ہے جو تیموری خاندان کے "Anavas کے قبضے میں تھا- پشاور اور سندھ کا مغربی علاقہ گندھاروں کے پاس تھا۔ جنرل کنتگھم نے اس قبیلے کے نام سے ٹیکسلا کا نام دریافت کیا جو پہلے ٹیکشیلاز کے نام سے تھا پھر یہ جنرل کنتگھم ہی تھے جس نے سب سے پہلے ضلع اٹک کی آخری حدود میں شاہ ڈھیری کا مقام دریافت کیا در حقیقت یہ مقام ٹیکسلا کے قریب راولپنڈی ضلع میں شامل ہے اٹک ضلع کا شمالی حصہ جو علاقہ چھچھ کے نام سے پہچانا جاتا ہے ٹیکسلا کے قدیم حکمرانوں کی علمداری میں تھا اور اس بڑے شہر ٹیکسلا کی باقیات ضلع اٹک کی حدود میں دور تک ملتی ہیں ٹیکسلا کی کھدائی کے نتائج کا تعلق اس ضلع سے بھی ظاہر ہوتا ہے۔ تیرہویں صدی کے دوران غزنوی اور افغانیوں کے حملے جاری رہے اور چودھویں صدی میں مغلوں کی آمد ہوئی-آس وقت کی مغلوں کی باقیات اٹک اور فتح جنگ تحصیلوں میں موجود ہیں-اٹک تحصیل سے گزر کر تیمورنے پورے ہندوستان کو پریشان رکھا-1518عسیوی میں ظہیرالدین بابر اس ضلح میں داخل ہوا اور بھیرا،خوشاب اور چنیٹوٹ جانے کے لیے سواں کا راستہ اختیار کیا-اس کے بعد وہ ضلح میں کئ دفعہ آٰیا-1525 میں اپنے پانچویں حملے کے دوران ہرو سے سیالکوٹ تک پہاڑوں کے دامن میں سفر کیا،سخت سردی کی وجہ سے تالاب جم گۓ تھےاورغلے کا قحط بھی ختم ہو گیا تھا-علاقے کی تاریخ سے ان بہادر حملہ آورں کا بہت کم تعلق تھا-کالا چٹا سےجنوب کا سارا علاقہ ان حملہ آورں اور فوج کے راستے سے باہر تھا-بہت سے قبائل ان حملہ آورں کو اپنے اوپر حملہ کرنے سے باز رکھنے کے لیے گھوڑوں اور بازوں کے تحائف دے کر اپنے آپ کو محفوظ کر لیتے تھے-چھچھ ایک ویران دلدل تھی اور ضلح کا کوئی علاقہ بھی اتنا امیر نہ تھا کہ مغلوں کی دلچسپی کی وجہ بن سکے-عہدِجدید میں ضلع اٹک کا علاقہ اپنے شاندار تہذیبی ،تمدنی اور آثاراتی پسِ منظر کی وجہ سے مورخین اور ماہرین آثاریات کے لیے اتنا ہی پر کشش ہے جتنا عہدِ قدیم میں تھا۔اٹک کی تاریخ اتنی ہی پرانی ہی جتنی خود بنی نوع انسان کی۔ سرزمینِ اٹک صرف قدرتی حسن و جمال ہی کا شاہکار نہیں بلکہ خالق عرض و سماء نے اسے اشرف المخلوقات انسان کے ارتکائی سفر کے اولین مراکز میں بے مثال اہمیت بخشی ہے- اِس کا شمار دنیا کے اِن خوش ترین خطوں میں ہوتا ہے جہاں اِنسان کو اپنے اشراف المخلوقات ہونے کا ادراک ہوا۔ اِس علاقے کی تہذیب و ثقافت کو محتاط سائنسی اور تحقیقی اندازوں کے مطابق قدیم ترین انسانی تہذیب قرار دیا جاتا ہے۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔