اپنی دھرتی اپنے لوگ، ظفر حیات ظفر
منفرد لب و لہجے کے باکمال استاد الشعراء ظفر حیات ظفر
تحریر: طارق ملک
اللہ آباد
منفرد لب و لہجے کے باکمال استاد الشعراء ظفر حیات ظفر (Zafar Hayat Zafar) تحصیل لیاقت پور کے معروف قصبہ امین آباد کی نواحی بستی پکھیوار میں یکم اپریل 1966ء کو جام اللہ بخش گوہر کے ہاں پیدا ہوئے۔
ظفر حیات ظفر نے ابتدائی تعلیم گورنمنٹ پرائمری سکول حیات محمد پکھیوار سے حاصل کی۔ 1981ء میں میٹرک کا امتحان گورنمنٹ ہائی سکول اللہ آباد سے پاس کرنے کے بعد 1983ء میں گورنمنٹ ڈگری کالج لیاقت پور سے ایف ایس سی کا امتحان پاس کیا۔بعد ازاں انہوں نے کراچی یونیورسٹی سے گریجوایشن کی ڈگری حاصل کی۔
ظفر حیات ظفر 07 اکتوبر 1987ء کو محکمہ تعلیم میں بطورِ استاد تعینات ہوئے اور 30 سال تک اپنی تدریسی خدمات سر انجام دینے کے بعد 07 اکتوبر 2017ء کو ریٹائر ہوئے۔
ظفر حیات ظفر کے دادا جام محمد حیات جو اپنے موضع پکھیوار کے نمبردار تھے اردو اور فارسی میں شعر کہا کرتے تھے جبکہ ظفر حیات ظفر کے والد جام اللہ بخش گوہر بھی ادبی ذوق کے حامل تھے انہوں نے اپنے گھر میں ادبی فضا قائم کر رکھی تھی گھریلو ادبی ماحول, وراثتی شعری میلان اور شعراء کی سانجھ نے ظفر حیات ظفر کو شاعری کی طرف راغب کیا تو انہوں نے 1981ء میں شعر کہنے شروع کئے اور تحصیل لیاقت پور کے قصبہ عظیم پور کے مہان استاد الشعراء خواجہ حضور بخش مسرور عظیم پوری سے شرفِ تلمذ حاصل کیا۔
ظفر حیات ظفر زیادہ تر اُردو زبان کی اصناف غزل, نظم, رباعی اور قطعہ میں شاعری کرتے ہیں تاہم غزل ان کی پسندیدہ صنفِ سخن ہے اُردو کے علاوہ سرائیکی زبان میں بھی شعر کہتے ہیں۔
ظفر حیات ظفر کی شاعری متاعِ کارواں, پندرہ روزہ حقیقت بہاولپور, سخنوران رحیم یار خان اور ادبی جائزہ رحیم یار خان میں شائع ہو چکی ہے جبکہ وہ مختلف ادبی تنظیموں کی منعقدہ شعری نشستوں اور مشاعروں میں اپنی توانا تخلیقات سے سامعین کو محظوظ کرتے رہتے ہیں۔
ظفر حیات ظفر تحصیل لیاقت پور کی معروف ادبی تنظیم ” لیاقت پور ادبی فورم لیاقت پور ” کے صدر جبکہ عالمی ادبی تنظیم ” حصارِ ادب عالمی ” کے سرپرست ہیں۔
ظفر حیات ظفر کے چھ شعری مجموعے جن میں ” مسامِ جاں ” بھی شامل ہے زیرِ ترتیب ہیں۔ان کی شاعری میں حقیقت پسندی اور رومانویت کی جھلک نمایاں نظر آتی ہے۔ ان کی دو غزلیں ملاحظہ کیجئے۔
خیالِ رُوۓ تاباں اَور مَیں ہوں
طوافِ کوۓ جاناں اَور مَیں ہوں
عجب تصویر کھینچے ہے تَصَوُّر
ہجومِ نازنیناں اَور مَیں ہوں
وہی گلیاں ، وہی رنگیں دریچے
وہی غوغاۓ طفلاں اَور مَیں ہوں
وہی پاؤں ، وہی تاریک جنگل
وہی خارِ مغیلاں اَور مَیں ہوں
وہی یاروں کی سعیِ بے نتیجہ
وہی تارِ گریباں اَور مَیں ہوں
وہی چندا ، وہی مغموم تارے
وہی سُنسان گلیاں اَور مَیں ہوں
وہی بے چین رُوحوں کا تَصادم
وہی خاموش صدیاں اَور مَیں ہوں
وہی تیری مسلسل بے نیازی
وہی تردیدِ ارماں اَور مَیں ہوں
وہی رنگین ہونٹوں کی تَسَلَّی
وہی تجدیدِ پیماں اَور مَیں ہوں
وہی راتوں کو اُٹھ اُٹھ کر ٹہلنا
وہی یادِ حسیناں اَور مَیں ہوں
وہی مُرغِ سَحَر کا شور و غوغا
وہی خوابِ پریشاں اَور مَیں ہوں
وہی تکرارِ توبہ ، ترکِ توبہ
وہی دن رات عصیاں اَور مَیں ہوں
وہی نظروں کی پَیہَم بے قراری
وہی پُر ناز خُوباں اَور مَیں ہوں
وہی خاموش نظروں کے تقاضے
وہی فصلِ بہاراں اَور مَیں ہوں
وہی معصوم کلیوں کا چٹکنا
وہی لب ہاۓ خنداں اَور مَیں ہوں
وہی پُر کیف یادوں کا تَسلسُل
وہی روۓ درخشاں اَور مَیں ہوں
وہی قلب و نظر میں قید لمحے
وہی نازِ عُروساں اَور مَیں ہوں
وہی ہر لمحه تازه جان کاہی
وہی اک آہِ سُوزاں اَور مَیں ہوں
وہی صدیوں پرانی داستانیں
وہی غم ہاۓ دَوراں اَور مَیں ہوں
وہی فرقت کے خوں آشام صدمے
وہی تشدیدِ ہجراں اَور مَیں ہوں
وہی محبوب کی بدلی نگاہیں
وہی عزمِ رقیباں اَور مَیں ہوں
وہی اپنے مُؤقِّف کا تَحَفُّظ
وہی تنقیدِ یاراں اَور مَیں ہوں
بَہَر سُو زہر میں ڈوبی نصیحت
ہجومِ غم گُساراں اَور مَیں ہوں
ظفر حدِّ نظر پھیلا سمندر
شکستہ ناو ، طوفاں اَور مَیں ہوں
__
ہجر کی تِیرہ شَبوں سے گزرے
وصل کے شوخ دنوں سے گزرے
عقل سے گزرے ، جُنوں سے گزرے
عشق میں ساری حدوں سے گزرے
علم سیکھا تو عمل سے عاری
راگ چھیڑا تو سُروں سے گزرے
شہر میں کارِ نمایاں چھوڑے
دَشت میں صَیدِ زَبوں سے گزرے
خار دیکھے تو سمیٹا دامن
بے نیازانہ گلوں سے گزرے
رنج و نفرت کی خِزائیں دیکھیں
پیار کی شُوخ رُتوں سے گزرے
ناز نِینوں کی اَدائیں دیکھیں
حُسن کے سارے فسوں سے گزرے
زلف کے حلقہ و خَم سے نکلے
نرم ، گل رنگ لبوں سے گزرے
نرم جسموں کے جَلو سے بھاگے
سنگِ مرمر کے بُتوں سے گزرے
گرم سانسوں کے تقاضے سمجھے
سَرد مِہری کے سُتوں سے گزرے
اپنی ہستی کی تَہوں میں جھانکا
جس طرح خون رگوں سے گزرے
آگہی ، وَجہِ اذیَّت ٹھہری
بے خبر تھے تو سُکوں سے گزرے
خود فریبی کے بھنور سے نکلے
خوش خَیالی کے یَموں سے گزرے
بَد نصیبی کی خلیجیں پاٹیں
عَزم و ہمَّت کے پُلوں سے گزرے
کس نے پھاڑی یہ رِدائے فطرت
تاب ” او زون“ تَہوں سے گزرے
یوں بَلا خیز ہے غربت ، جیسے
تُند سیلاب گھروں سے گزرے
یوں سَراسِیمہ ہیں اہلِ بستی
جیسے آسیب سَروں سے گزرے
سَرد مِہری کی سزائیں کاٹیں
کس قَدَر سُوزِ دَرُوں سے گزرے
کس تَمنَّا پہ ظفر دن کاٹے
کیا خبر کتنے دُکھوں سے گزرے
جنرل سیکرٹری
لیاقت پور ادبی فورم لیاقت پور
اللہ آباد ، تحصیل لیاقت پور
ضلع رحیم یار خان
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔