اپنی دھرتی اپنے لوگ،جام ریاض احمد ریاض لاڑ

اپنی دھرتی اپنے لوگ

سرائیکی زبان کے خلیق شاعر جام ریاض احمد ریاض لاڑ

تحریر: طارق ملک
(جنرل سیکرٹری
لیاقت پور ادبی فورم لیاقت پور)

فاتحِ سندھ محمد بن قاسم کی فتوحات کے زمانے میں ایک مائی (خاتون) اللہ آباد کی نواحی بستی گوٹھ ماہی کے مقام پر قیام پزیر ہوئی۔ اس نے ایک بستی ” مائی دا گوٹھ ” کی بنیاد رکھی اور اس نے بستی میں باریک ٹائلوں کی اینٹوں سے چار فٹ چوڑی دیوار پر مشتمل ایک خوبصورت مسجد بھی تعمیر کرائی جس کا گنبد ” کٹورے ” کی طرح تھا۔ وہ مائی دا گوٹھ نامی بستی آج ” گوٹھ ماہی ” کے نام سے مشہور ہے۔ (لوک روایت)
اسی گوٹھ ماہی کے ججہ وانی لاڑ قبیلے کے ایک زمیندار جام خدا بخش لاڑ کے ہاں جام ریاض احمد لاڑ 15 جنوری 1953ء کو پیدا ہوئے۔
انہوں نے ابتدائی تعلیم گورنمنٹ بوائز پرائمری سکول بستی آرائیں گوٹھ ماہی سے حاصل کی۔
1969ء میں گورنمنٹ ہائی سکول اللہ سے میٹرک کا امتحان امتیازی نمبروں سے پاس کرنے کے بعد انہوں نے 1973 ء میں گورنمنٹ ایس ای (صادق ایجرٹن) کالج بہاولپور سے گرایجویشن کی ۔ کالج میں قومی ہاکی ٹیم کے کھلاڑی اولمپئنز سمیع اللہ خان اور کلیم اللہ خان ان کے کالج فیلو تھے۔
جام ریاض احمد لاڑ بچپن سے ہی ادبی ذوق کے حامل تھے تاہم 1965ء میں جب وہ گورنمنٹ ہائی سکول اللہ آباد میں ساتویں جماعت کے طالب علم تھے تو وہ ایک مرتبہ اپنی والدہ محترمہ کے ہمراہ تحصیل لیاقت پور کے معروف قصبہ جندو پیر کمال میں اپنے کسی رشتے دار کی شادی میں شریک ہوئے۔
شادی کی تقریب میں سرائیکی شاعر خیر محمد فانی نے جب اپنا سرائیکی کلام پیش کیا تو جام ریاض احمد لاڑ ان سے بےحد متاثر ہوئے ۔ انہوں نے جندو پیر کمال کے استاد الشعراء صوفی فیض محمد دلچسپ کو اپنا استادِ سخن بنا کر باقاعدہ شعر کہنے شروع کئے۔
1967ء میں انہوں گورنمنٹ ہائی سکول اللہ آباد میں ایک سرائیکی یونین بنائی جس کے وہ صدر تھے۔ یونین کے زیرِ اہتمام وہ سرائیکی شعراء حافظ بشیر احمد نوکر ، صالح محمد صالح ، محمد اکبر ہمدرد ، محمد یار دلبخت و دیگر مقامی شعراء کو گاہے بگاہے سکول میں مدعو کرتے اور وہ خود بھی ان شعراء کے ساتھ اساتذہ کرام اور طلباء کو کلام سنا کر دادِ تحسین وصول کیا کرتے تھے۔
1969ء میں جب انہوں نے گورنمنٹ ایس ای کالج بہاولپور میں داخلہ لیا تو ان دنوں کالج میں سرائیکی ادبی سوسائٹی جس کے سرپرست اُردو کے پروفیسر عطاء اللہ خان اعوان تھے ، غیر فعال تھی۔ انہوں نے پروفیسر عطاء اللہ اعوان اور پرنسپل منور علی خان سے سرائیکی ادبی سوسائٹی کو فعال کرنے کی استدعا کی تو انہوں نے سوسائٹی کی ادبی سرگرمیاں بحال کر دیں۔
ان دنوں ایس ای کالج بہاولپور کا سالانہ میگزین ” نخلستانِ ادب ” جو صرف دو زبانوں اردو اور انگلش میں شائع ہوتا تھا ، جام ریاض احمد لاڑ کی کاوشوں سے میگزین میں سرائیکی ادب کو بھی شامل کرنے کی منظوری دی گئی ۔ اس سرائیکی حصّے کا نام ” پنجند ” رکھا گیا اور انہیں سرائیکی حصّے پنجند کا سب ایڈیٹر بنا کر کالج کے غلام محمد گھوٹوی ہال کی بالائی منزل پر ایک کمرہ بھی الاٹ کر دیا گیا۔
1972ء کے نخلستانِ ادب میں ان کی ایک سرائیکی نظم ” ایس ای کالج دا حلیہ ” کے عنوان سے شائع ہوئی وہ میگزین آج بھی ان کے پاس محفوظ ہے جو انہیں اپنے کالج کے حسین دور کی یاد دلاتا رہتا ہے۔
جام ریاض احمد لاڑ نے ایس ای کالج کے پرنسپل منور علی خان سے سرائیکی لائبریری اور پندرہ روزہ ” سرائیکی خبر نامہ ” شائع کرنے کی بھی منظوری حاصل کی ۔ جب کالج میں سرائیکی یونین کے الیکشن ہوئے تو انہوں نے الیکشن میں حصہ لیا اور وہ صدر منتخب ہونے میں کامیاب ہوئے۔

اپنی دھرتی اپنے لوگ،جام ریاض احمد ریاض لاڑ
جام ریاض احمد ریاض لاڑ

جام ریاض احمد ریاض لاڑ نے ایس ای کالج بہاولپور میں سرائیکی مشاعروں کے انعقاد کو بھی یقینی بنایا اور سرائیکی زبان کے مہان استاد الشعراء حافظ عبد الکریم دلشاد ، جانباز جتوئی ، صوفی فیض محمد دلچسپ ، حسین بخش نادم ، صالح اللہ آبادی ، حافظ بشیر احمد نوکر ، خدا بخش دلشوق ڈیراوری ، امیر بخش خاں دانش ، پیر بخش پرناز و دیگر کو کالج کے مشاعروں میں مدعو کر کے سرائیکی ادب کو پروان چڑھانے میں اپنا بھرپور کردار ادا کیا۔
ایس ای کالج کے مشاعروں میں صوفی فیض محمد دلچسپ کے بڑے بھائی صوفی خیر محمد الغوزہ نواز اور حبیب اللہ بانسری نواز بھی شریک ہوتے تھے جو اپنے فن کا مظاہرہ کرکے سماں باندھ دیا کرتے تھے۔
گورنمنٹ ایس ای کالج بہاولپور سے گریجوایشن کرنے کے بعد جام ریاض احمد لاڑ 1975ء میں ڈپٹی منیجر اوقاف تعینات ہوئے اور پاکپتن شریف میں صحابی رسول ﷺ حضرت عبد العزیز مکی ؓ کے مزار پر اپنی محکمانہ خدمات سر انجام دینے لگے بعد ازاں وہ محکمہ انہار میں بطورِ ضلعدار بھی تعینات رہے۔
جام ریاض احمد لاڑ 16 نومبر 1977ء کو محکمہ خوراک میں بطورِ فوڈ انسپکٹر بھرتی ہوئے اور 35 سال اپنی محکمانہ خدمات سر انجام دینے کے بعد 14 نومبر 2013 ء کو ریٹائر ہوئے۔
انہوں نے اپنے کالج کے زمانے میں تحریک بحالی صوبہ بہاولپور میں بھی حصہ لیا اور جب فرید گیٹ بہاولپور کے قریب شہزادہ مامون الرشید عباسی کی قیادت میں جاری احتجاجی جلوس پر بہاولپور پولیس اور رینجرز نے گولی چلائی تو وہ بھی اس جلوس میں شریک تھے اور انہوں نے وہ سارا منظر اپنی آنکھوں سے دیکھا۔
انہوں نے 1987ء میں ادبی تنظیم ” سرائیکی قلم قبیلہ اللہ آباد ” کی بنیاد رکھی جس کے سرپرست وہ خود تھے ۔ تنظیم کے پہلے صدر محمد نواز خان فانی اللہ آبادی تھے جب انہوں نے صدارت سے استعفیٰ دیا تو میاں محمد شجاعت اللہ خان تنظیم کے نئے صدر بننے میں کامیاب ہوئے۔ جنرل سیکرٹری ، ندیم سمیجو جبکہ عقیل اللہ آبادی تنظیم کے سیکرٹری نشر و اشاعت تھے۔
سرائیکی قلم قبیلہ کے زیرِ اہتمام 1987ء میں ٹاؤن کمیٹی ہال اللہ آباد میں ایک مشاعرہ منعقد کیا گیا جس کی صدارت سابق وفاقی وزیر برائے مذہبی امور حاجی محمد سیف اللہ خان نے کی جبکہ اسسٹنٹ کمشنر لیاقت پور شکیل احمد ہاشمی بھی مشاعرے میں موجود تھے۔ نقابت کے فرائض ندیم سمیجو جبکہ سرائیکی زبان کے مہان شعراء جانباز جتوئی ، سفیر لاشاری ، امان اللہ ارشد ، ظفر حیات ظفر ، ہدایت کاشف و دیگر نے اپنا اپنا کلام پیش کر کے بھرپور داد سمیٹی۔ استاد الشعراء امان اللہ ارشد جو ان دنوں میڑک کے اسٹوڈنٹ تھے ، اپنا خوبصورت کلام پیش کرنے پر انہیں وفاقی وزارت مذہبی امور کی طرف سے 1000 روپے کا چیک بطورِ انعام دیا گیا۔
سرائیکی قلم قبیلہ کے زیرِ اہتمام 20 جولائی 1989ء کو بھی گورنمنٹ ہائی سکول اللہ آباد کے سبزہ زار میں ” کل پاکستان خواجہ فرید کانفرنس ” منعقد ہوئی جس کی نقابت کے فرائض رانا مختار احمد چنڑ نے انجام دیے۔ یہ اپنی نوعیت کی ایک منفرد کانفرنس تھی جسے لوگ آج تک نہیں بھولے۔ کانفرنس میں مقامی شعراء کے علاوہ سرائیکی زبان کے مہان شعراء جانباز جتوئی ، سفیر لاشاری ، قاصر جمالی ، جند وڈہ مغموم ، پر سوز بخاری ، صالح اللہ آبادی ، فدا حسین شہباز ، امان اللہ ارشد اور جاذب انصاری نے اپنے کلام سے محظوظ کیا ۔ گلوکاروں میں پٹھانے خان ، استاد حسین بخش خان ڈھاڈی ، جمیل پروانہ، نصیر مستانہ ، عاشق رمضان اور سخاوت حسین نے اپنی گائیکی جبکہ صوفی فیض محمد دلچسپ کے بڑے بھائی صوفی خیر محمد الغوزہ نواز ، الہیٰ بخش الغوزہ نواز اور حبیب اللہ بانسری نواز نے اپنے فن کا مظاہرہ کر کے سینکٹروں سامعین کے دل جیت لیے ۔
جام ریاض احمد لاڑ نے اپنے خاندان کے لئے ایک ریفارمر کا کردار ادا کیا اور ایک تعلیمی انقلاب لائے۔ نتیجتاً ان کی فیملی کے افراد اعلیٰ تعلیم یافتہ ہونے کے علاوہ اہم عہدوں پر بھی فائز ہیں۔
انہیں سیاست سے بھی بہت دلچسپی ہے ایک زمانے میں وہ سابق پارلیمانی سیکرٹری و ایم پی اے رئیس مشتاق احمد کے دست راست رہے اور انہوں نے گوٹھ ماہی میں مختلف ترقیاتی منصوبوں بجلی، گرلز و بوائز پرائمری سکولز کے قیام،ٹیلی فون لائن، بنیادی مرکز صحت اور میٹل روڈز کی تعمیر میں اپنا بھرپور کردار ادا کیا۔
جام ریاض احمد لاڑ نے گوٹھ ماہی میں واقع اپنی خوبصورت رہائش گاہ ” لاڑ منزل ” میں ایک لائبریری بھی قائم کر رکھی ہے جو ان کے ادبی اور جمالیاتی ذوق کی غمازی کرتی ہے۔
سرائیکی زبان کےخلیق شاعر جام ریاض احمد ریاض لاڑ کا سرائیکی شعری مجموعہ ” دیوانِ ریاض ” زیرِ ترتیب ہے جو شاعری کی مختلف اصناف سے مزین ہے۔
غیر مطبوعہ ” دیوانِ ریاض ” سے منتخب کلام ملاحظہ کیجئے

میں جانڑ گیا وندلائی رکھدیں
ڈے لارے روز اکائی رکھدیں

جے بولاں نال ادب دے میں
آ وینداں وات غضب دے میں
میڈیاں سختیاں روز تپائی رکھدیں
میں جانڑ گیا وندلائی رکھدیں

نہ دل دا راز ڈسیندا ہئیں
ہتھوں من مچلا تھی ویندا ہئیں
ایویں چکر یار چلائی رکھدیں
میں جانڑ گیا وندلائی رکھدیں

اتھ کوڑیاں قسماں پی ویندی
اتھ ونج تے بئے دا تھی ویندیں
ٹھگ بنڑ تے روز ٹھگائی رکھدیں
میں جانڑ گیا وندلائی رکھدیں

جے سچ آکھاں تاں رنج تھیندیں
بن ڈوہ دے زوریں انج تھیندیں
ہیں حال اچ وقت نبھائی رکھدیں
میں جانڑ گیا وندلائی رکھدیں

اتھ وعدے قول پکا ویندیں
اتھ آواں رخ بدلا ویندیں
نت ٹاب بنڑا جکھوائی رکھدیں
میں جانڑ گیا وندلائی رکھدیں

میں گالھ کراں نہ سہندا ہئیں
ونج نال رقیبیں بہندا ہئیں
سڈ اکھیں نال ڈکھائی رکھدیں
میں جانڑ گیا وندلائی رکھدیں

نت اپنڑے ہوندیں رولیں توں
جے بولیں وی رنج بولیں توں
ڈے جھنڑکاں خون سکائی رکھدیں
میں جانڑ گیا وندلائی رکھدیں

سنڑ درد ریاض سنڑاواں میں
تیکوں سینہ چیر ڈکھاواں میں
جو زخم میڈے چچلائی رکھدیں
میں جانڑ گیا وندلائی رکھدیں
_

ڈتے ماہی درد ہزاراں ہن
نت سوز فراق دیاں ماراں ہن

دل یار کیتے نت ماندی ہے
پئی رات ڈینھاں تڑپاندی ہے
نہ ولدی یار توں آندی ہے
تونڑیں لکھ لکھ بھیجاں تاراں ہن

تھیا حال کنوں بے حالاں میں
اوندے رستے واٹاں بھالاں میں
بیٹھا پل پل پیندا فالاں میں
پئے وہندے نیر قطاراں ہن

رت رو رو حال ونجیندا ہاں
ایہو دل کوں روگ چا لیندا ہاں
گنڑ تارے رات نبھیندا ہاں
پرا باکھ دیاں شاہد دھاراں ہن

میکوں دشمن بہہ چنجویندے ہن
انڑ جڑدے جوڑ جڑیندے ہن
گھڑ کوڑ دے دوبے لیندے ہن
بنڑیے راہ وچ آن دیواراں ہن

میڈا جیڑا ویکئیں وات رہے
میڈے سر تے غم دی رات رہے
بے تات کوں کوئی نہ تات رہے
میڈیاں دردوں روز پکاراں ہن

بے غرض کوں اصلوں غرض نہیں
میڈا سنڑدا نکڑا عرض نہیں
اے ٹھیک اے اوں تے فرض نہیں
پر لوک کریندے ویاراں ہن

میں درد ریاض اچ پوتا ہاں
میں ہجر دی ہنج اچ لوتا ہاں
چھڑا ڈکھ دا خالی بوتا ہاں
ہنڑ ہتھ محبوب مہاراں ہن

تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

streamyard

Next Post

مجھے ہے حکمِ اذاں

جمعرات نومبر 16 , 2023
اسرائیل اتنا ظالم ہے کہ اس نے فلسطین کے طبی عملے کے اب تک 192 افراد ہلاک کر دیے ہیں علاج کے لیے دواوں کا فقدان ہے ایمبولینسیں تباہ کر دی ہیں
مجھے ہے حکمِ اذاں

مزید دلچسپ تحریریں