اینٹی بائیوٹک ادویات:زہر یا دوا
ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی٭
(ورلڈ ریکارڈ ہولڈر)
پہلے ہم جب بیمار ہوتے تھے تو دیسی ٹوٹکے اور جڑی بوٹیوں کے استعمال سے ہم فورا صحت یاب ہوتے تھے لیکن جب ہم نے اینٹی بائیوٹک ادویات کا استعمال شروع کیا تو ان ادویات نے ہمارے جسم کے ایک حصے کا درد تو فوری طور پر ٹھیک کردیا لیکن ہمارے جسم ایک حصے کو خراب کردیا، ان اینٹی بائیوٹک ادویات کا غیر ضروری اور غیر محتاط استعمال کی وجہ ہم بیماریوں کی زد میں آچکے ہیں، آج کے دور میں صحتِ عامہ کے لئے یہ اینٹی بائیوٹک ادویات ایک سنگین خطرہ بن چکے ہیں۔ عالمی ادارہ صحت کے اعداد و شمار کے مطابق، 2019ء میں دنیا بھر میں 12 لاکھ 70 ہزار اموات ایسی بیماریوں کے نتیجے میں ہوئیں جن پر دواؤں کا اثر نہیں ہوا۔ اس صورتحال کی بنیادی وجہ اینٹی بائیوٹک ادویات کا بے تحاشا استعمال ہے ۔
اینٹی بائیوٹک دوائیوں کا بے تحاشا استعمال بیسویں صدی کے اوائل میں متعارف ہوا اور بیماریوں کے خلاف ان کی کامیابی سے طب میں انقلاب برپا ہوا۔ پنسلین جیسی ابتدائی اینٹی بائیوٹکس نے مہلک بیکٹیریا سے پھیلنے والی بیماریوں پر قابو پانے میں اہم کردار ادا کیا۔ ان ادویات نے طاعون، ٹی بی اور دیگر مہلک امراض کو ختم کرنے میں مدد دی۔ لیکن بعد میں ان کے بے جا استعمال نے ان کے موثر پن کو کم کرنے کے ساتھ ساتھ اب ان کے اثر کو بالکل بے اثر کرنا شروع کر دیا ہے جو کہ ایک خطرناک عمل ہے۔
کہا جارہا ہے کہ یہ اینٹی بائیوٹک ادویات انسان کے اندر پرورش پانے والے بیکٹیریا کو مارنے کے لئے بنائی گئی ہیں اور وائرس پر ان کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔ یہ عام نزلہ، زکام اور کھانسی جیسے وائرس سے پھیلنے والی بیماریوں میں بالکل بھی کارگر نہیں ہوتیں۔ جب یہ دوا ایسی بیماریوں کے لئے استعمال کی جاتی ہیں جن کے لئے یہ مؤثر نہیں ہوتیں تو جسم میں موجود بیکٹیریا ان کے خلاف مزاحمت پیدا کر لیتے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ جب ان ادویات کی واقعی ضرورت ہو، تو وہ موثر نہیں رہتیں۔
پاکستان دنیا کے ان ممالک میں شامل ہے جہاں اینٹی بائیوٹک ادویات کا بے جا استعمال تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق چین اور بھارت کے بعد پاکستان میں اینٹی بائیوٹک کا استعمال تیسرے نمبر پر ہے۔ پاکستان میں 25 فیصد اموات کی وجہ اینٹی بائیوٹک ادویات کا غیر ضروری استعمال ہے، جو دوا فروشوں کی جانب سے کسی بھی نسخے کے بغیر فروخت اور ڈاکٹروں کے بے جا نسخے لکھنے کا نتیجہ ہے۔ دوا ساز کمپنیوں کی جانب سے ڈاکٹروں کو دی جانے والی مراعات بھی اس مسئلے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔
اس خطرناک صورت حال پر قابو پانے کے لیے ماہرین اس بات پر زور دیتے ہیں کہ 103 یا 104 ڈگری تک بخار ہونے پر ہی اینٹی بائیوٹک دی جانی چاہیے۔ دنیا کے بیشتر ترقی یافتہ ممالک میں اینٹی بائیوٹکس کی فروخت صرف مستند ڈاکٹروں کے نسخے پر ممکن ہے تاکہ غیر ضروری استعمال سے بچا جا سکے۔ پاکستان میں بھی اسی طرز کی پابندیاں نافذ کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے علاوہ، ڈاکٹروں کو بھی اس حوالے سے تربیت اور پابندیوں کا سامنا ہونا چاہیے تاکہ وہ حقیقی ضرورت کے بغیر اینٹی بائیوٹک تجویز نہ کریں۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ اینٹی بائیوٹک ادویات کے غیر محتاط استعمال سے انسانی زندگی کو شدید خطرات لاحق ہیں اور اس سے نمٹنے کے لئے فوری اقدامات بھی ضروری ہیں۔ پاکستان میں حکومتی سطح پر ایسی پالیسیاں بنانے کی ضرورت ہے جو اینٹی بائیوٹک ادویات کے بے جا استعمال کو روکے۔ اینٹی بائیوٹکس کے عام فروخت پر پابندی، عوام میں آگاہی پیدا کرنا، اور ڈاکٹرز کی جانب سے غیر ضروری طور پر تجویز کرنے کے رجحان کو کم کرنا یہ وہ اقدامات ہیں جو صحتِ عامہ کے لئے فائدہ مند ثابت ہوں گے۔
Title Image by Arek Socha from Pixabay
رحمت عزیز خان چترالی کا تعلق چترال خیبرپختونخوا سے ہے، اردو، کھوار اور انگریزی میں لکھتے ہیں۔ آپ کا اردو ناول ”کافرستان”، اردو سفرنامہ ”ہندوکش سے ہمالیہ تک”، افسانہ ”تلاش” خودنوشت سوانح عمری ”چترال کہانی”، پھوپھوکان اقبال (بچوں کا اقبال) اور فکر اقبال (کھوار) شمالی پاکستان کے اردو منظر نامے میں بڑی اہمیت رکھتے ہیں، کھوار ویکیپیڈیا کے بانی اور منتظم ہیں، آپ پاکستانی اخبارارت، رسائل و جرائد میں حالات حاضرہ، ادب، ثقافت، اقبالیات، قانون، جرائم، انسانی حقوق، نقد و تبصرہ اور بچوں کے ادب پر پر تواتر سے لکھ رہے ہیں، آپ کی شاندار خدمات کے اعتراف میں آپ کو بے شمار ملکی و بین الاقوامی اعزازات، طلائی تمغوں اور اسناد سے نوازا جا چکا ہے۔کھوار زبان سمیت پاکستان کی چالیس سے زائد زبانوں کے لیے ہفت پلیٹ فارمی کلیدی تختیوں کا کیبورڈ سافٹویئر بنا کر عالمی ریکارڈ قائم کرکے پاکستان کا نام عالمی سطح پر روشن کرنے والے پہلے پاکستانی ہیں۔ آپ کی کھوار زبان میں شاعری کا اردو، انگریزی اور گوجری زبان میں تراجم کیے گئے ہیں ۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔