آنسہ مظہر کا پہلا پڑاؤ "صبح آئندہ”
تبصرہ : سعادت حسن آس
ضلع اٹک سے تعلق رکھنے والی خوشبودار مٹی تحصیل پنڈیگھیب کے گاؤں کسراں کی خوبصورت لب و لہجہ کی شاعرہ آنسہ مظہر کا ادبی دنیا میں "صبح آئندہ” کے عنوان سے پہلا پڑاؤ خوش آئند اقدام ہے یہ خطہ تاریخ پاکستان میں نہایت اہمیت کا حامل ہے عسکری یا ادبی حوالے سے یہ مٹی بہت مردم خیز ہے آنسہ مظہر کا ادب کے افق پر طلوع ہونا ایک نیک شگون ہے ان کی شاعری کے اچھوتے خیالات ،جذبات ،احساسات قابل ستائش ہیں بہت کم عرصے میں انہوں نے ادبی حلقوں میں اردو اور پنجابی شاعری کے حوالے سے اپنے فن کا لوہا منوایا ہے اور اپنی پہلی کتاب کی تعارفی تقریب بھی بلدیہ ہال اٹک میں کروا کر بہت داد سمیٹی اگر یاد ماضی میں جاؤں تو بالکل اسی طرح 1990 میں نیشنل آرٹس کونسل راولپنڈی میں میری نعتیہ کتاب "آس کے پھول” کی بھی تقریب رونمائی ہوئی تھی اور سید ضمیر جعفری نے انڈونیشیا کی ضرب المثل کا حوالہ مجھ سے منسوب کیا اور فرمایا کہ آس وہ خود رو پودا ہے جو سمندر میں اپنی جگہ خود بناتا ہے یہی صورتحال میں اب آنسہ مظہر کے لیے دیکھ رہا ہوں کہ انہوں نے ادبی حلقوں کو اپنی طرف خوب متوجہ کر لیا ہے اگر اسی جذبے سے ان کی مشق سخن جاری رہی تو وہ بے پناہ کامیابی سمیٹیں گی
الحمدللہ میں نے بھی انہی شروعات سے ہی اپنے قدم آگے بڑھاۓ اور مجھ پر دو مختلف یونیورسٹیوں نے اپنے طلباء کو ایم فل کی ڈگریوں سے نوازا. میری ادبی خدمات پر مختلف اداروں نے مجھے گولڈ میڈل عطاء کیے
آنسہ مظہر کی شاعری کو دیکھتے ہوٸے بے حد مسرت ہو رہی ہے میں ان کے لیے دعاگو ہوں اور ان سے کہوں گا کہ وہ ادھر ادھر سے آنے والے پتھروں کی پرواہ کیے بغیر اپنی منزل کی طرف سفر جاری رکھیں ایک دن ان کی محنت ضرور رنگ لائے گی اور کامیابی ان کے قدم چومے گی
ان شاءاللہ
سعادت حسن آس
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔