سالی دگر ز عمر من و تو به باد شد
سال کے اختتام و آغاز کے تناظر میں ایرانی شاعر محمد تقی بہار کے چند اشعار ، اگرچہ لطف فارسی میں ہے لیکن اردو ترجمہ بھی قابل غور ہے
سالی دگر ز عمر من و تو به باد شد
بگذشت هرچه بود، اگر تلخ اگر لذیذ
بگذشت بر توانگر و درویش هرچه بود
از عیش و تلخکامی، وز بیم و از امید
ظالم نبرد سود، که یک سال ظلم کرد
مظلوم هم بزیست که سالی جفا کشید
تقویم کهنهایست جهنده جهان که هست
چندین هزار قرن ز هر جدولش پدید
هرچند کهنه است، به هر سال نو شود
کهنه بدین نوی به جهان گوش کی شنید
میری اور آپ کی عمر کا ایک اور سال ضائع گیا، میٹھا یا کڑوا جیسا بھی تھا گزر گیا۔ امیر و غریب جو بھی تھا، عیش و آرام، امید و خوف سب گزرگیا۔ ظالم نے ایک سال ظلم کیا کچھ حاصل نہ کر سکا اور مظلوم بھی سال بھر ظلم سہہ کر زندہ ہے۔ کیلنڈر وہی پرانا ہے دنیا آگے جارہی ہے۔ اس کی ایک ایک گرہ سے ہزار ہا صدیاں برامد ہوئی ہیں۔ اگرچہ یہ ہے تو بہت قدیم لیکن ہر سال نیا ہوجاتا ہے۔
دنیا اس پرانے کو نئے ڈھنگ سے کب برتے گی ؟
فطرت مری مانند نسیم سحری ہے
رفتار ہے میری کبھی آہستہ کبھی تیز
پہناتا ہوں اطلس کی قبا لالہ و گل کو
کرتا ہوں سر خار کو سوزن کی طرح تیز
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
کیا آپ بھی لکھاری ہیں؟اپنی تحریریں ہمیں بھیجیں، ہم نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ |