بے نام ادیب و کالم نویس

بے نام ادیب و کالم نویس

Dubai Naama

وہ اردو زبان و ادب کی دنیا میں چوٹی کے ادیب، مصنف اور کالم نگار ہیں۔ وہ ہلکے پھلکے انداز میں لکھتے ہیں۔ ان کی تحریریں، اشعار اور کالم شگفتہ اور ادبی زبان لیئے ہوتے ہیں۔ خاص طور پر ان کے اخباری کالمز اتنے ہلکے پھلے ہوتے ہیں کہ فربہ قارئین ان کی چار منٹ کی کوئی تحریر پڑھ لیں تو جہاں انہیں ڈائٹنگ کی ضرورت نہیں رہتی وہاں امکان ہے کہ کچھ نہیں تو مفت میں ان کا چار چھٹانک تک وزن بھی کم ہو جاتا ہے۔ جو موٹے قارئین ہیں یا جن کے پیٹ کی توند نکلی ہوئی ہو اور وہ ان کے اس فن سے بھی شناسا ہوں، وہ اپنا وزن کم کرنے کے لیئے ان کے کالم تواتر سے پڑھتے ہیں۔ وہ دیگر موضوعات کے علاوہ دوستوں اور جاننے والوں پر بھی لکھتے ہیں۔ خاص طور پر انہیں خاکہ نویسی میں کمال مہارت حاصل ہے۔ وہ کالم عموما نماز فجر ادا کرنے کے بعد صبح سویرے لکھتے ہیں۔ جب سے میری مت سنبھلی ہے میں انہیں تسلسل سے پڑھ رہا ہوں۔ ان کو آج تک پتہ نہیں چلا ہے کہ میں بھی ان کا ایک ادنی سا قاری ہوں ورنہ انہوں نے مجھ پر بھی ایک آدھ کالم چڑ دینا تھا۔

ایک دن میں پیدل چلتے ہوئے ان کا کالم پڑھتا جا رہا تھا کہ میرا سر اچانک ایک راہ گیر میں وج گیا۔ پہلے تو وہ مسافر غصے میں آیا، پھر میرے کھی کھی کرتے چہرے کو دیکھا اور جب محسوس کیا کہ میرے ہاتھ میں ادارتی صفحہ ہے تو ہنس کر بولا کوئی بات نہیں، آپ ضرور ان کا کالم پڑھتے جا رہے ہوں گے۔ وہ پچھلی کم و بیش چار دہائیوں سے ایک معاصر اخبار میں کالم لکھ رہے ہیں۔ انہوں نے بہت سوں پر خاکے بھی لکھے ہیں، وہ کمال کے شاعر بھی ہیں اور اتنے ہی اچھے مزاح نگار بھی ہیں۔

ان کی تحریریں کتنی زود ہضم اور شگفتہ ہوتی ہیں آپ اس سے اندازہ لگا لیں، وہ لکھتے ہیں: "وہ کالج میں ہمیشہ نظریں جھکا کر چلتے ہیں بس جس سے ٹکرانا ہو اس سے جا ٹکراتے ہیں۔
اس دوران میں آدھا ایم اے کر چکا تھا۔انہوں نے انگریزی میں ایم کیا ہوا تھا مگر پنجاب یونیورسٹی اورینٹل کالج میں ملازمت کی شرط پوری کرنے کے لیئے انہیں ایم اردو کا امتحان دینا پڑا۔ ایک دن سید صاحب نے ڈاکٹر صاحب کو اپنے آفس میں بلایا اور کہا ڈاکٹر صاحب آپ خواہ مخواہ سید وقار عظیم سے شاکی رہتے ہیں اس کی بجائے کسی دن لغزش پا کو بہانہ بنا کر ان پر گر جائیں۔”

انہوں نے اس جملہ میں یہ نہیں لکھا کہ ان پر گرنے والے کا وزن کتنے ٹن کا ہو گا۔ ان کے بارے وہ مزید لکھتے ہیں کہ ڈاکٹر صاحب کے پاس ایک زمانے میں اسکوٹر ہوا کرتا تھا ایک روز ان کے ایک طالب علم نے کہا سر اب آپ کار لے لیں۔ ڈاکٹر صاحب نے جواب دیا بس تم دعا کرو جس پر شاگرد نے کہا سر میں نے کیا دعا کرنی ہے دعا تو یہ اسکوٹر ہی کرتا ہو گا۔

ایک جگہ وہ لکھتے ہیں کہ وہ کمزوری کی وجہ سے بستر سے ہل جل نہیں سکتے تھے لیکن ان کی ظرافت میں کوئی فرق نہیں آیا تھا ایک دن کہنے لگے مرزا ادیب کو پرائڈ آف پرفارمنس ملا ہے مگر وہ اس بات پر پریشان ہے کہ یہ اگلے سال کسی اور کو بھی مل جائے گا۔

اپنے ایک کالم میں وہ لکھتے ہیں کہ، "ہم اس دوران سو گئے، درمیان میں جب کسی کی آنکھ کھلتی تو دیکھتا کہ سسر اپنا کلام بلاغت نظام سنانے میں مشغول ہیں۔ دریں اثنا وہ روزی کمانے کے لیئے بیرون ملک چلا گیا، واپس آیا تو ویسے کا ویسا ہی تھا۔ وہ ہمارے ساتھ امریکہ نہیں گیا تھا البتہ تبلیغی جماعت کے ساتھ اندرون ملک اور بیرون ملک تبلیغی گروپس کے ساتھ آتا جاتا تھا۔ ایک دفعہ مسعود بیمار ہوا تو میں اس کی بیمار پرسی کے لیئے اس کی طرف گیا۔ میں نے دیکھا کہ ہماری آنٹی ایک بکرے کو مسعود کی چارپائی کے گرد سات چکر لگانے پر مجبور کر رہی ہیں مگر وہ قدم اٹھانے سے انکاری ہے، اسے پتہ تھا سات چکر مکمل ہونے پر اس کے ساتھ کیا ہو گا۔ بالآخر میں آگے بڑھا اور بکرے کو پیچھے سے دھکیلتے ہوئے اس سے سات چکر لگوانے میں کامیاب ہو گیا۔”

"وہ جمیل الدین عالی کے سسر تھے۔ جیسا کہ میں نے ابھی بتایا آواز بہت پاٹ دار تھی۔ ایک دن وہ کلام سنا رہے تھے:
یہ اس کی حکایت ہے لب غیر پہ کیسی،
ہٹ جا میرے آگے سے تیری ایسی کی تیسی۔
اس وقت ایک گھریلو ملازم جگ میں پانی لے کر آ رہا تھا، جب اس نے زور دار آواز میں سنا: "ہٹ جا میرے آگے سے تیری ایسی کی تیسی،” تو جگ اس کے ہاتھ سے چھوٹ گیا۔ انہوں نے میرے لئے گرجدار آواز دی "خیرو” مگر خیرو کی طرف سے کوئی جواب نہ آیا۔ دو تین بار آواز دینے کے بعد بولے پتہ نہیں کہاں مر گیا، آج کے خدام بھی زمانے کے رنگ میں رنگے گئے ہیں۔ حالانکہ ایسی بات نہ تھی، ان کے ہاں کوئی ملازم تھا ہی نہیں۔ ہوتا تو وہ آ کر آداب بجا لاتا۔ اس کے بعد انہوں نے اپنی کسی خیالی کنیز فاطمہ کو دو تین بار پکارا، کوئی ہوتی تو آتی۔ یہ دیکھ کر میں نے عرض کی نواب صاحب آپ مجھے قدموں میں جگہ دیں، یہ میری حیثیت سے زیادہ عزت افزائی ہو گی۔ سی بلاک میں "شہزادہ خیرالدین مغلیہ خاندان کے آخری چشم و چراغ” کی کوٹھی تھی اور انہوں نے اپنا یہ پورا تعارف اپنی نیم پلیٹ پر درج کیا ہوا تھا۔ میں ایک بار اپنے ابا جی کے ساتھ ان کی دعوت پر ان کے ہاں گیا تھا اور ان کے سارے انداز مغلیہ خاندان کی آخری سے آخری پشت جیسے تھے۔”

یہ ان کے انداز ہائے تحاریر کے مختصر سے نمونے ہیں۔ لیکن ان کا انداز ہی اتنا منفرد ہے کہ آپ سمجھ تو گئے ہونگے کہ میں کس کی بات کر رہا ہوں۔ ان بزرگ صحافی اور کالم نگار کا ہمارے درمیان موجود ہونا ہم نئے لکھنے والوں اور ان کے کالموں سے حظ اٹھانے والوں کے لیئے کسی نعمت سے کم نہیں ہے کہ وہ بے نام ہو کر بھی بہت بڑے نام والے ہیں۔ وہ کتنے بڑے نام کے ادیب وہ صحافی ہونگے جنہیں لوگ ان کے لفظوں ہی سے پہچان لیں کہ یہ کس کی تحریر ہے۔۔۔!

تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

streamyard

Next Post

حکومت پنجاب لائیو سٹاک اور ایگریکلچر کے شعبہ کی ترقی کے لیئے کوشاں ھے

جمعہ دسمبر 20 , 2024
حکومت پنجاب لائیو سٹاک اور ایگریکلچر کے شعبہ کی ترقی کے لیئے کوشاں ھے
حکومت پنجاب لائیو سٹاک اور ایگریکلچر کے شعبہ کی ترقی کے لیئے کوشاں ھے

مزید دلچسپ تحریریں