انجم اعظمی…تعارف و کلام

انجم اعظمی…تعارف و کلام
تحقیق و تدوین : محمد یوسف وحید
(مدیر:شعوروادراک خان پور)

سر میں سودا سہی،سر پھوڑنے اب جاؤں کہاں
اس خرابے میں جہاں کوئی بھی دیوار نہیں
انجم اعظمی ‘شاعر اور مصنف،جن کا ’لب ورخسار‘ کے نام سے محبت کی نظموں کا مجموعہ شائع ہو چکا ہے ، ’شاعری کی زبان‘ ان کے تنقیدی مضامین کا مجموعہ ہے۔
پروفیسر انجم اعظمی (پیدائش: 2 جنوری 1931ء – وفات: 31 جنوری 1990ء) پاکستان سے تعلق رکھنے والے اُردو کے ممتاز شاعر اور نقاد تھے۔ انجم اعظمی 2 جنوری، 1931ء کو فتح پور، اعظم گڑھ ضلع اُترپردیش، برطانوی ہندوستان میں پیدا ہوئے۔ ان کا اصل نام مشتاق احمد عثمانی اور والد کا نام عبد الاحد عثمانی تھا ۔ انہوں نے گور کھپو ر ، الٰہ آباد اور علی گڑھ سے تعلیم حاصل کی اور تقسیم ہند کے بعد 1952ء میں کراچی میں سکونت اختیار کی۔گورنمنٹ بوائز کالج ناظم آباداور کامرس کالج کراچی سے وابستہ رہے ۔ پاکستان رائٹرز گلڈ، کراچی کے رُکن تھے ۔ان کے شعری مجموعوں میں’’ لب و رُخسار، لہو کے چراغ، چہرہ اور زیرِ آسماں ‘‘کے نام شامل ہیں جبکہ ان کے تنقیدی مضامین کے مجموعے’’ ادب اور حقیقت اور شاعری کی زبان ‘‘کے نام سے اشاعت پذ یر ہوچکے ہیں۔انجم اعظمی کو ان کے مجموعۂ کلام ’’چہرہ ‘‘پر 1975ء میں آدم جی ادبی انعام بھی عطا ہوا تھا۔انجم اعظمی 31 جنوری، 1990ء کو کراچی،پاکستان میں وفات پاگئے۔ وہ کراچی میں سخی حسن قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

Anjum Azmi


انجم اعظمی کی کتابوں کی تفصیل کچھ یوں ہے :
(1) ادب اور حقیقت(تنقید)
اشاعت گھر،کراچی
جنوری 1979ء
(2) شاعری کی زبان(تنقید)
الباقریہ پبلیکیشنز، کراچی
1988-89ء
(3) اعلی تعلیم
کراچی اشاعت گھر
1980ء
(4)زیرِآسماں (شاعری)
کراچی اشاعت گھر
1980ء
(5) لہو کے چراغ (شاعری)
کراچی آرٹ اکیڈیمی، کراچی
1961ء
(6)لب و رخسار (نظمیں)
آرٹ اکیڈمی، علی گڑھ
1951-52ء
(7)چہرہ ( شاعری )
1975ء
انجم اعظمی نے اُردو غزل اور نظم میں طبع آزمائی کی ہے ۔ اُردو غزل کا نمونہ ملاحظہ فرمائیں :
عالم وحشت تنہائی ہے کچھ اور نہیں
سر پہ اک گنبد بینائی ہے کچھ اور نہیں
کیوں ہوا مجھ کو عنایت کی نظر کا سودا
آج رسوائی ہی رسوائی ہے کچھ اور نہیں
اپنا گھر پھونک چکا اپنا وطن چھوڑ چکا
یہ فقط بادیہ پیمائی ہے کچھ اور نہیں
ہو سکے تو کوئی فردا کی بنا لو تصویر
وقت جلووں کا تمنائی ہے کچھ اور نہیں
آؤ خوش ہو کے پیو کچھ نہ کہو واعظ کو
میکدے میں وہ تماشائی ہے کچھ اور نہیں
٭
فریبِ غم ہی سہی، دل نے آرزو کر لی
برا ہی کیا ہے، اگر تیری جستجو کر لی
غلط ہے، جذبۂ دل پر نہیں کوئی الزام
خوشی ملی نہ ہمیں جب تو غم کی خو کر لی
بٹھا کے سامنے تم کو بہار میں پی ہے
تمہارے رِند نے توبہ بھی روبرو کر لی
وفا کے نام سے ڈرتا ہوں، اے شہِ خوباں
تم آئے بھی تو نظر جانبِ سبو کر لی
کہاں سے آئیں گے انداز بے پناہی کے
ابھی سے جیبِ تمنا اگر رفو کر لی
زمانہ دے نہ سکا فرصتِ جنوں انجم
بہت ہُوا تو گھڑی بھر کو ہائے ہو کر لی
٭
انجم اعظمی چند نظموں کا نمونہ
(خوش آمدید)
آج اس بزم میں آئے ہو بڑی دھوم کے ساتھ
بے خودی محو نظارہ ہے تمہاری خاطر
یاد آتے ہیں وہ ایام جدائی ہم کو
جنہیں ہنس ہنس کے گزارہ ہے تمہاری خاطر
گو مع لطف سے خالی نہیں پندار جنوں
یاں غم عشق کا یارا ہے تمہاری خاطر
رنج اٹھانا تو کوئی بات نہیں ہے لیکن
زہر پینا بھی گوارا ہے تمہاری خاطر
ہار اور جیت کے مفہوم میں کیا رکھا ہے
جیت کر بھی کوئی ہارا ہے تمہاری خاطر
ترک شیراز ہو تم حافظ شیراز ہوں میں
اب سمرقند و بخارا ہے تمہاری خاطر
تم جو آئے ہو تو اس زیست کی لذت پا کر
ہم نے عالم کو سنوارا ہے تمہاری خاطر
آج ہم نے مہ و انجم کو بھی زحمت دی ہے
آسمانوں سے اتارا ہے تمہاری خاطر
لالہ و گل کو بہاروں کو سمن زاروں کو
دیدہ و دل نے پکارا ہے تمہاری خاطر
پھر یہاں شیشہ و ساغر سے چراغاں ہوگا
پھر کوئی انجمن آرا ہے تمہاری خاطر
(ما?خذ:لہو کے چراغ )
٭
(سال نو)
(علی گڑھ 31دسمبر50ء کی شب)
اب رات ڈھل رہی ہے کوئی دو کا وقت ہے
آنکھوں میں نیند جھول رہی ہے ابھی تلک
لیکن میں سال نو کے لئے جاگتا رہوں
امید کے چراغ جلاؤں نئے نئے
بیٹھا ہوں خامشی کی نواؤں کو چھیڑ کر
اپنے غموں سے آج بھی فرصت نہیں مجھے
پلکوں پہ آج بھی تو لرزتے ہیں یہ دیے
لیکن انہیں غموں سے نیا آستاں بنا
وجہ سکوں ہے آج خیال گریز پا
ٹوٹے ہوئے دلوں کو سہارا بھی دے سکا
جب دل کی دھڑکنوں سے ملے درس آگہی
پھر کس لئے جنوں میں کوئی انتشار ہو
نا کامیاں حیات کی شرما نہ جائیں گی
اس دیس کی فضاؤں سے گر ہم کو پیار ہو
ان مے کدوں سے کل بھی نہ تھا مجھ کو واسطہ
جن میں لہو کے جام اٹھاتے ہیں حکمراں
احساس کی نگاہ مگر دیکھتی ہے اب
کچھ اور تیز گام ہوا کاروان شوق
اور سال نو بھی ساتھ اسی کارواں کے ہے
ان جھونپڑوں میں آج چراغاں نہیں تو کیا
دو چار سال اور بھی امکاں نہیں تو کیا
فصل بہار آئے گی جھومیں گی ڈالیاں
پھولوں میں پات پات میں رنگت سمائے گی
ہوں گے کبھی تو جام بہ کف خاص و عام سب
ہر ہر نگاہ ساغر و مینا اٹھائے گی
زلف حیات شوق سے پرچم اڑائے گی
میں آج سال نو کے لئے جاگتا رہوں
امید کے چراغ جلاؤں نئے نئے
(ماخذ: لہو کے چراغ)
٭
شرابی
(علی گڑھ1951ء)
یہ مے کدہ ہے ترا اور میں شرابی ہوں
سنبھال ساقیا مینا کو اپنے ہاتھوں میں
مجھے بھی آج مع ارغواں کی حاجت ہے
سرک رہے ہیں رخ کائنات سے پردے
دل و دماغ میں اک روشنی سی در آئی
ہر ایک گھونٹ پہ کچھ زندگی کے راز کھلے
محیط ہو گئی کون و مکاں کی گیرائی
مگر یہ جام کے اندر بھی کیسی تاریکی
بہت ہی تلخ ہے اپنا خمار بادہ کشی
کہیں چراغ بجھا جل اٹھے کہیں فانوس
وہی تضاد وہی ہے کشاکش ہستی
حیات آج کہاں کھینچ کر مجھے لائی
سنبھال ساقیا مینا کو اپنے ہاتھوں میں
حیات کے لئے کوئی شراب ہے کہ نہیں
بس ایک بار تو ایسی پلا دے اے ساقی
کہ ہوش آ نہ سکے تیرے پینے والے کو
(ماخذ: لہو کے چراغ)
٭
(دیوداس)
(کراچی 1960 ء)
زندگی عشق کی وحشت بھرا افسانہ تھی
میرے ہاتھوں میں وہ اک زہر کا پیمانہ تھی
روح کا غم مع گلفام سے کم کیا ہوتا
کوئی تریاک بجز وصل صنم کیا ہوتا
کھو گئی پاربتیؔ روتی رہی چندر مکھیؔ
زندگی لٹتی رہی راہ گزاروں میں مری
غمگساروں کی بھی یاد آئی مگر بھول گیا
اس کی بانہوں کے سوا کچھ نہ مجھے یاد رہا
اک ابھرتی رہی تصویر خلا میں برسوں
میں اکیلا ہی پھرا دشت وفا میں برسوں
جل بجھا جسم کے ہم راہ دل سوزاں تک
جان دینے چلا آیا ہوں در جاناں تک
مر رہوں جیسے بے بس و لاچار مرے
کیا قیامت ہے کہ یوں عشق کا بیمار مرے
ناامیدی ہے کہ اب طاقت دیدار گئی
رخ جاناں کی ہوس روح گرفتار گئی
رات لو ختم ہوئی اور زباں بند ہوئی
مجھ کو معلوم تھا خاموش سویرا ہوگا
لوگ پھینک آئیں گے مجھ کو جہاں اس مرگھٹ پر
موت کا چھایا ہوا گھور اندھیرا ہوگا
چیل کوؤں نے مگر لاش کے ٹکڑے کر کے
ہر طرف کوچہ ٔجاناں میں بکھیرا ہوگا
(ماخذ:لہو کے چراغ )
٭
کراچی
(کراچی 1960ء)
اک ہجوم بے کراں
شہر کی سڑکوں پہ گلیوں میں رواں
دن کے ہنگاموں کو رکھتا ہے جواں
ایک جانب سلسلہ ہائے عمارات بلند
جن کے مینارے فلک سے مل گئے ہیں جا بجا
شہر کی سطوت کے عظمت کے نشاں
دوسری جانب ہے بوسیدہ مکانوں کی قطار
مدتوں سے گردش لیل و نہار
ہے اس آبادی میں جن کی نوحہ خواں
اے کراچی اے نگار جانستاں
گو ترے رخ پر کھلی ہے چاندنی
تیری گلیوں میں اندھیری رات ہے
(ماخذ:لہو کے چراغ )
٭
(اردو)
زندگی بھیس بدل کر جہاں فن بنتی ہے
میرؔ و غالبؔ کا وہ انداز بیاں ہے اردو
کبھی کرتی ہے ستاروں سے بھی آگے منزل
چشم اقبال سے گویا نگراں ہے اردو
ساتھ انشا کے کبھی ہنستی ہے دل کھول کے وہ
بہر فانی کبھی مصروف فغاں ہے اردو
حاصل بزم ہے اور بزم کو تڑپاتی ہے
جان مے خانہ ہے میخانہ ٔ جاں ہے اردو
گاہ پروانے کی میت پہ کھڑی ملتی ہے
صورت شمع جہاں گریہ کناں ہے اردو
گاہ خوشیوں کے چمن زار میں جا بستی ہے
موسم گل کی جہاں روح رواں ہے اردو
محو گلگشت جہاں حور بہشتی مل جائے
قابل رشک وہ گلزار جناں ہے اردو
ہر غزل کوچہ ٔ جاناں سے زیادہ پیاری
ہر نظر شعر ہے تصویر بتان اردو
ہر نئی نظم نئے موڑ پہ لے جاتی ہے
روح امروز ہے فردا کا نشاں ہے اردو
دھل گئی کوثر و تسنیم کے پانی سے مگر
جنت ارض کی مظلوم زباں ہے اردو
باغباں مجھ کو اجازت ہو تو اک بات کہوں
نغمہ بلبل کا ہے پھولوں کی زباں ہے اردو
ملتے ہیں اس سے ہزاروں ہمیں تہذیب کے درس
اس قدر ذہن پہ کیوں تیرے گراں ہے اردو
اب بھی چھا جاتی ہے ہر روح پہ مستی بن کر
اس خرابی میں بھی افسون جواں ہے اردو
٭
(ناامیدی کفر)
تم جو مغرب کی جگالی سے کبھی تھکتے نہیں
تم کو کیا معلوم ہے تخلیق کا جوہر کہاں
فلسفی بنتے ہو اپنے آپ سے پوچھو کبھی
کھو گیا ہے روح کا گوہر کہاں
تم دل و جاں سے مشرق کی پرستاری کرو
کیا برہمن کے سوا کچھ اور ہو
کیا کسی کی مشرق و مغرب میں دل داری ہوئی
بھوک سے بے حال ہیں جو ان کی غم خواری ہوئی
عدل کی میزان جب ٹوٹی پڑی ہو درمیاں
زندگی ساری کی ساری ہی ریاکاری ہوئی
مغرب و مشرق کی ساری بحث میں تم ناامیدی کے سوا کیا دے سکے
ناامیدی کفر ہے
کفر سے بچتے بھی اور کفر ہی کرتے ہو تم
تم تو ماضی حال و مستقبل کے بھی قائل نہیں
دل کہے کچھ بھی مگر تم اس طرف مائل نہیں
وہ جو مطلق ہے تمہارے واسطے سارے زمانے دے گیا
تم بتاؤ تم نے اب تک کیا کیا
ناامیدی کفر ہے کفر ہی کرتے ہو تم
دل میں گر روشن ہو اس دن کی امید
جستجو تم کو جب اپنے آپ سے ملوائے گی
زندگی کرنے کو پیارے شش جہت کھل جائے گی
(ماخذ:پاکستانی ادب، ڈاکٹر راشد امجد، اکادمی ادبیات اسلام آباد، 2009ء )
٭
شاعر
(کیٹس کی ایک تصویر دیکھ کر)
(ترچنا پلی1952ء)
نہ جانے کتنے ہی ماضی کے خواب بکھرے ہیں
فسردہ بھیگی ہوئی سوگوار پلکوں پر
جنوں ہے یا کہ خرد اس نگاہ کا مفہوم
خلا میں ڈھونڈ رہا ہے کوئی نہ جانے کیا
نگاہ دیکھ رہی ہیں پرے زمانے سے
ہے کھویا کھویا ہوا رمز زندگی گویا
فسانہ ٔ غم جاناں ہے یا غم دنیا
مچل رہے ہیں ان آنکھوں میں آرزو کے شرار
ان آنسوؤں میں نمایاں ہیں وقت کی لہریں
سنائی دیتی ہے رہ رہ کے زندگی کی پکار
لبوں کو گر ملی جنبش تو نغمہ پھوٹ پڑا
کبھی نشاط کا جادو کبھی کوئی غم ہے
خموشیوں میں ہے ایمان و آگہی کی جلا
امید و بیم سے آگے نیا ہی عالم ہے
سحر کا نور ہے اس کی نگاہ میں انجمؔ
زمیں کے حسن کو شاداب کرنے آیا ہے
(ماخذ:لہو کے چراغ )
٭
(کئی صد ہزار برس کے خواب)
ترے در سے گزرا تھا بارہا
وہ کھلا نہیں
وہاں در پہ پہرہ لگا تھا گردش حال کا
میں ترے طلسم میں بند تھا
مجھے تھا کسی سے نہ اپنے آپ سے واسطہ
فقط ایک نوحہ بے اماں تھا سکوت میں
وہ سکوت جس میں بھنور صداؤں کے بے شمار
وہی گونجتے تھے وجود میں
کوئی چشم شوق کو واقعے
سر راہ اب بھی ملا نہیں
تو گلہ نہیں
کہ میں اپنی ذات کی انجمن میں ہر اک سے محو کلام ہوں
مرے حال کی نہ اسے خبر نہ اسے خبر
کہ یہ لوگ
سادہ غریب مخلص و چارہ ساز
یہی لوگ حرص میں مبتلا جو نکالیں کام فریب سے
نہ ہو ان سا کوئی زمانہ ساز
کبھی ان میں زہر انا کا ہے کبھی وہم کا کبھی جہل کا
کبھی سانپ اندھی عقیدتوں کے لپٹ گئے
ہمہ وقت رہتی ہے سیم و زر کی طلب انہیں
کہ یہ خواجگان ورم سے رکھتے ہیں ساز باز
جنہیں بندگان ورم کہیں تو بجا کہیں
کہ وہ خواجہ کیا ہیں ورم کی کرتے ہیں بندگی
انہیں مجھ سے ملنے کا شوق کیا
یہ وہ لوگ ہیں جو نہ اپنے آپ سے مل سکے
یہ انہیں کے بارے میں تھا جو کھلا صحیفہ ٔہست و بود
یہ بدلتے چہروں کے لوگ
جن کا نہ اپنا چہرہ نہ خال و خط
اسی کارواں میں شریک ہیں جو امید وہم کی راہ میں
کئی صد ہزار برس سے ہے
کئی بار ابھرے ہیں گرد سے
کئی بار دھواں میں اٹ گئے
وہ جو خواب تھے
کئی صد ہزار برس کے خواب
جو یقیں نہ تھے جو گماں نہ تھے
وہ جو ان کے اپنے نگاہ و دل پہ عیاں نہ تھے
کہ عیاں ہوئے تو بکھر گئے
مگر ان کا اپنا وجود تھے لہو بن کے ان کی رگوں میں پیہم رواں بھی تھے
تیرا در تو اب بھی کھلا نہیں
مگر اک امید کا در کھلا
کئی صد ہزار برس کا عرصہ انتظار گزر گیا
وہ جو خواب تھے وہ جو خواب ہیں
وہی خواب دل میں اتر پڑے
نیا رنگ ہے شب و روز کا
نئی تابش مہ و سال ہے
ہوتے سب کے خواب جو میرے خواب
عجب اس میں لطف وصال ہے
(ماخذ:(1)سیپ’سہ ماہی میگزین‘، ص: 156
(2) فکرِ نو’سہ ماہی میگزین‘،نسیم درانی ،ص: 39)
٭
(علی گڑھ یونیورسٹی)
مرکز علم و ہنر میکدۂ سوز و ساز
سجدۂ شوق سے آباد ہے رندوں کا حرم
جام در جام ہے صہبائے جنون حکمت
دیکھنا ہو تو کوئی دیکھ لے ساقی کا کرم
مے گساری کا یہ انداز نہ دیکھا ہم نے
سب کے دکھ درد کا احساس نشے کا عالم
ایک ہی آگ سے ہر روح جلا پاتی ہے
ہو گئے ایک ہی شعلے میں شرارے مدغم
اپنے ہر دور کی تحریک کا آئینہ لئے
پھر اٹھاتا ہے علی گڑھ نئی دنیا میں قدم
راہ دشوار میں اک قافلہ نکہت و نور
سنگ خارا کی چٹانوں کے مقابل ہے کھڑا
ٹوٹ جائے گا بہت جلد طلسم امروز
نور فردا کے تبسم میں بدل جائے گا
(ماخذ: لہو کے چراغ )
٭

anjum


(خواب فراموش)
دل کی دھڑکن سے عیاں ذہن کے پردوں میں نہاں
دھندلا دھندلا سا وہ اک عکس ترے چہرے کا
ایک مدت ہوئی دیکھا تھا تجھے
خال و خط یاد نہ آئے مجھ کو
صبح دم جیسے کوئی سوچ رہا ہو بیٹھا
رات کیا خواب نظر آیا تھا
اور اک عمر گزر جانے پر
دفعتاً میری تمنا کی طرح
آئینہ خانۂ تصویر میں آج
جل اٹھیں تیرے خط و خال کی شمعیں ساری
اور وہی رات کا بھولا ہوا خواب
تیری آنکھوں ترے عارض ترے لب کی صورت
صبح دم دیکھ رہا ہے کوئی
٭
(پھول کھلا بے حجاب)
درد کی سوغات تھی
راہ کے ملبوس تھے کانٹوں کے ہار
موڑ بہت آئے ہیں
نام رکھا دشت و در
اور اسی دشت میں
تو بھی تھی خانہ خراب میں بھی خانہ خراب
ٹل ہی گئی ساعت قحط دمشق
ہوش سوا ہے مگر
ہوش نہیں آئے گا
جیسے بہم شبنم و گل ہوں یوں ہی خواب عشق
شبنم تعبیر سے موج جنوں خیز ہے
چشم فسوں ساز نے ایک افسانہ کہا
دل نے اسے سن لیا
لمحۂ جاوید کی
ایک ہی تفسیر ہے
قصر زلیخا میں آج
یوسف کنعاں کی پذیرائی ہے
وصل کی بے تاب کھڑی آئی ہے
حیلۂ پرویز ہے
دوہا چراغ سحر
ٹل ہی گئی ساعت قحط دمشق
پھول کھلا بے حجاب
جاگ اٹھے دشت و در
رنج میں راحت میں بھی
ایک ہی موسم کو ملا ہے ثبات
شوق کی تنویر سے کیسے فروزاں ہیں بام
میں نے لکھی کائنات
دل کے اسیروں کے نام
٭

فریب غم ہی سہی دل نے آرزو کر لی
برا ہی کیا ہے اگر تیری جستجو کر لی
غلط ہے جذبہ ٔدل پر نہیں کوئی الزام
خوشی ملی نہ ہمیں جب تو غم کی خو کر لی
بٹھا کے سامنے تم کو بہار میں پی ہے
تمہارے رند نے توبہ بھی روبرو کر لی
وفا کے نام سے ڈرتا ہوں اے شہ خوباں
تم آئے بھی تو نظر جانب سبو کر لی
کہاں سے آئیں گے انداز بے پناہی کے
ابھی سے جیب تمنا اگر رفو کر لی
زمانہ دے نہ سکا فرصت جنوں انجمؔ
بہت ہوا تو گھڑی بھر کو ہا و ہو کر لی
(ماخذ: لہو کے چراغ )
٭
انجم اعظمی کی چند اُردو غزلیں
وعدہ ہے کہ جب روز جزا آئے گا
تو اپنے ہی جلووں میں گھرا آئے گا
تا حشر یوں ہی منتظر دید رہوں
چپکے سے کبھی آ کے بتا، آئے گا
میں نامہ ٔ اعمال کھلا رکھوں گا
رحمت کو تری جوش سوا آئے گا
حسرت گہ عالم میں تمنا کا قدم
الا کی طرف صورت لا آئے گا
خالی بھی تو کر خانہ ٔ دل دنیا سے
اس گھر میں مری جان خدا آئے گا
دریا میں بہت لہر ہیں خوابیدہ ابھی
جاگیں گی تو طوفان بڑا آئے گا
محفل میں سبھی دوست نہیں آتے ہیں
دشمن بھی کوئی دوست نما آئے گا
اب تاب نہ لاؤں گا یہ اندیشہ ہے
منظر جو کوئی ہوش ربا آئے گا
نکلو بھی کبھی سود و زیاں سے ورنہ
کوچے میں ترے کون بھلا آئے گا
(ما خذ:سیپ، شمارہ نمبر 47، ص: 228)
٭

anjum


ہم سے کیا خاک کے ذروں ہی سے پوچھا ہوتا
زندگی ایک تماشا ہے تو دیکھا ہوتا
دیکھتے گر ہمیں عالم کو بہ انداز دگر
اور ہی دشت جنوں میں دل رسوا ہوتا
کیا کیا اہل محبت نے مگر تیرے لیے
ہم نے اک صحنٔ چمن اور بھی ڈھونڈا ہوتا
تم بھی ہوتے مے و نغمہ بھی دل شیدا بھی
اور ایسے میں اگر ابر برستا ہوتا
ہنس کے اک جام پلاتا کوئی دیوانے کو
پیار تو ہوتا مگر کاہے کو سودا ہوتا
تذکرے ہوتے رہے چاک گریبانوں کے
ہاں تری بزم طرب میں کوئی ایسا ہوتا
تشنہ لب کون ہے گو جام نہ آیا ہم تک
دور اک اور چلا خون جگر کیا ہوتا
خاک نے کتنے بد اطوار کئے ہیں پیدا
یہ نہ ہوتے تو اسی خاک سے کیا کیا ہوتا
اس سے ملنا ہی غضب ہو گیا ورنہ انجمؔ
در بدر پھرنے کا جھگڑا بھی نہ اٹھا ہوتا
(ماخذ: لہو کے چراغ)
٭
میری دنیا میں ابھی رقص شرر ہوتا ہے
جو بھی ہوتا ہے بہ انداز دگر ہوتا ہے
بھول جاتے ہیں ترے چاہنے والے تجھ کو
اس قدر سخت یہ ہستی کا سفر ہوتا ہے
اب نہ وہ جوش وفا ہے نہ وہ انداز طلب
اب بھی لیکن ترے کوچے سے گزر ہوتا ہے
دل میں ارمان تھے کیا عہد بہاراں کے لئے
چاک گل دیکھ کے اب چاک جگر ہوتا ہے
ہم تو ہنستے بھی ہیں جی جان سے جانے کے لئے
تم جو روتے ہو تو آنسو بھی گہر ہوتا ہے
سینکڑوں زخم اسے ملتے ہیں اس دنیا سے
کوئی دل تیرا طلب گار اگر ہوتا ہے
قافلہ لٹتا ہے جس وقت سر راہ گزر
اس گھڑی قافلہ سالار کدھر ہوتا ہے
انجمؔ سوختہ جاں کو ہے خوشی کی امید
رات میں جیسے کبھی رنگ سحر ہوتا ہے
(ماخذ: لہو کے چراغ)
٭
ایک سودا ہے لذت غم ہے
آج پھر میری آنکھ پر نم ہے
دل کو بہلا رہے ہیں مدت سے
زندگی کیا عذاب سے کم ہے
ذرہ ذرہ اداس ہے اس کا
میرے گھر کا عجیب عالم ہے
مہر و مہ پر کمند پڑتی ہے
سوچ میں کوئی ابن آدم ہے
تجھ سے پردہ نہیں مرے غم کا
تو مری زندگی کا محرم ہے
یہ جو اک اعتبار ہے تم پر
کس قدر پائیدار و محکم ہے
کل تو دنیا بدل ہی جائے گی
آج ان کا یہ جور پیہم ہے
دل نہ کعبہ ہے نے کلیسا ہے
تیرا گھر ہے حریم مریم ہے
(ماخذ: لہو کے چراغ)
٭
جو شب بھر آنسوؤں سے تر رہے گا
سحر دم دامن دل بھر رہے گا
علاج اس کا گزر جانا ہے جاں سے
گزر جانے کا جاں سے ڈر رہے گا
ہوا مشکل ترے عاشق کا جینا
ترے کوچے میں آ کر مر رہے گا
دل وحشی نے کب آرام پایا
ستم کی آگ میں جل کر رہے گا
حیات جاوداں ہو یا کہ دنیا
ترا بندہ ترے در پر رہے گا
نہ ہو عصیاں تو کیسا حشر کا دن
کہاں پھر داور محشر رہے گا
حقائق سے جو دل الجھا ہوا ہے
وہی خوابوں کا صورت گر رہے گا
کوئی تو خیر کا پہلو بھی نکلے
اکیلا کس طرح یہ شر رہے گا
نہ بزم مے کدہ باقی رہے گی
نہ دست شوق میں ساغر رہے گا
جو دن ہے آنے والا بے اماں ہے
قدم گھر سے اگر باہر رہے گا
کوئی تو آعظمی صاحب کو سمجھاؤ
یہ گوشہ شہر سے بہتر رہے گا
(ما خذ: سیپ، شمارہ نمبر 47، ص:35)
٭
عالم وحشت تنہائی ہے کچھ اور نہیں
سر پہ اک گنبد بینائی ہے کچھ اور نہیں
کیوں ہوا مجھ کو عنایت کی نظر کا سودا
آج رسوائی ہی رسوائی ہے کچھ اور نہیں
اپنا گھر پھونک چکا اپنا وطن چھوڑ چکا
یہ فقط بادیہ پیمائی ہے کچھ اور نہیں
ہو سکے تو کوئی فردا کی بنا لو تصویر
وقت جلووں کا تمنائی ہے کچھ اور نہیں
آؤ خوش ہو کے پیو کچھ نہ کہو واعظ کو
میکدے میں وہ تماشائی ہے کچھ اور نہیں
(ماخذ: لہو کے چراغ )
٭
حوالہ جات :
(کتابیات)
1۔پاکستان کرونیکل، عقیل عباس جعفری، ورثہ / فضلی سنز، کراچی، 2010ء، ص: 663
2۔ وفیات نامورانِ پاکستا ن ،ڈاکٹر منیر احمد سلیچ، لاہور، اردو سائنس بورڈ، لاہور، 2006ء، ص:176
3۔انجم اعظمی: حیات و خدمات، ڈاکٹر مشرف احمد
4۔دبستانوں کا دبستان کراچی (جلد اوّل)، احمد حسین صدیقی،کراچی، محمد حسین اکیڈمی، 2003ء، ص 83
5۔انجم اعظمی ’’لہو کے چراغ‘‘ کی روشنی میں،’’اُردو شاعری اور پاکستانی معاشرہ‘‘، ڈاکٹر فرمان فتح پوری،لاہور، الوقار پبلی کیشنز2007ء، ص: 225 – 216
6۔پاکستانی ادب، ڈاکٹر راشد امجد، اکادمی ادبیات اسلام آباد، 2009ء )
(رسائل )
1۔ ماہنامہ’’ہم قلم‘‘ کراچی سالگرہ نمبرشمارہ 1961ء، ص 226
2۔عروسِ وطن، انجم اعظمی ،ماہنامہ’’افکار‘‘ کراچی، شمارہ 171-170 (اکتوبر ،نومبر 1965ء) ص: 72
(ویب سائٹ )
1۔ ریختہ ڈاٹ او آر جی ۔ انجم اعظمی ، کراچی 56( ویب )
1۔انجم اعظمی، سوانح و تصانیف ویب، پاکستان (ویب)
2۔فریب ِغم ہی سہی دل نے آرزو کر لی (غزل)، انجم اعظمی، ہم وطن فورمز(ویب)
٭٭٭

Yousuf Waheed

محمد یوسف وحید

مدیر:شعوروادراک خان پور

تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

streamyard

Next Post

2جنوری ...تاریخ کے آئینے میں

اتوار جنوری 2 , 2022
2جنوری ...تاریخ کے آئینے میں
2جنوری …تاریخ کے آئینے میں

مزید دلچسپ تحریریں