سید حامد یزدانی کی کتاب ’’بہارِ قبول‘‘ کا تجزیاتی مطالعہ
ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی
[email protected]
سیّد حامد یزدانی اردو کے استاد شاعر، ادیب اور صحافی سیّد یزدانی جالندھری مرحوم و مغفور کے صاحب زادے ہیں۔ پاکستان میں سوشیالوجی کے لیکچرارشپ اور ریڈیو پاکستان سے جُزوقتی وابستگی کے بعد وہ ریڈیو ڈوئچے ویلے، دی وائس آف جرمنی میں بحیثیت پروڈیوسر خدمات انجام دینے کے لیے جرمنی میں بھی مقیم رہ چکے ہیں۔اور اب ایک مدت ہوئی مستقل طور پر کینیڈا سکونت اختیار کرچکے ہیں اور شمالی امریکا کینیڈا کے ادبی حلقوں میں سرگرمی سے حصہ لیتے ہیں۔ وہ پاکستانی ادبی جرائد میں بھی مسلسل لکھتے ہیں اور معروف ادبی سماجی ویب سائٹس پر مستقل کالم نگاری بھی کرتے ہیں۔ ان کے پانچ شعری مجموعے، ایک افسانوں کا مجموعہ اور ایک پروفیسر عارف عبدالمتین کے فن و شخصیت پر ایک تنقیدی و تحقیقی کتاب منظرِ عام پر آچکی ہیں۔
کتاب ’’بہارِ قبول‘‘ میں سید حامد یزدانی نے اعلیٰ حضرت احمد رضا خان بریلوی کے مشہور و معروف سلام ’’مصطفےٰ جانِ رحمت پہ لاکھوں سلام‘‘ کی تضمین کی ہے۔ اس کتاب میں سید حامد یزدانی نے ایک سو اکہتر اشعار کی تضمین کو انتہائی محنت اور ماہرانہ انداز میں پیش کیا ہے، جو اردو نعت نگاری میں ایک اہم اضافہ ہے۔ ان کی تضمین میں شامل شعری تراکیب اور معنوی جہات قاری کو متاثر کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتی ہیں۔
انھوں نے بشکلِ مخمس جس مہارت اور فنکارانہ کمال سے سے ایک سو اکہتر اشعار پر تضامین رقم کی ہیں اُس کا ثبوت کتاب میں شامل اساتذہ فن کی آرا سے بھی ملتا ہے۔
ڈاکٹر ریاض مجید نے اس تضمین کی فنی قدر و قیمت پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ حامد یزدانی نے تضمین میں زبان اور اظہار کو ایک نئی جہت دی ہے، جہاں بیسیوں نئی تراکیب نے مضمون کو جدت اور معنی کی گہرائی عطا کی ہے۔ حامد یزدانی نے عربی و فارسی تراکیب کو استعمال کر کے نعت کے موضوع کو ایک نورانی فضا میں ڈھالا ہے جو قاری کو ایک خوشگوار تاثر فراہم کرتی ہے۔ ڈاکٹر ریاض مجید رقمطراز ہیں
"ڈاکٹر ریاض مجید لکھتے ہیں:
مقامِ اطمینان ہے کہ یہ تضمین سیّد حامد یزدانی جیسے کہنہ مشق نعت نگار نے رسماً نہیں دلی تشویق سے کی ہے اور اس کا بخوبی حق ادا کیا ہے۔انھوں نے اس کے بند بند پر محنت کی ہے۔ لسانی فضا کی بات کی جائے تو حامد نے اپنی تضمین میں بیسیوں نئی تراکیب تخلیق کی ہیں جوعربی اور فارسی الفاظ پر مشتمل ہیں اور اپنے اندر گہرے مطالیب لیے ہوئے ہیں۔اور ان سے موضوعات و مضامینِ نعت میں صرف بلاغت پیدا نہیں ہوئی بلکہ تضمین کی زبان اور اظہار میں ندرت بھی پیدا ہوئی ہے۔ان فنی اور لسانی اوصاف نے تضمین میں ایک مثبت و نورانی بہجت کی فضا قائم کردی ہے اور یوں یہ نعتیہ تضمین جلال آثاراور نورافروز کیفیات کی حامل ہوگئی ہے۔ایک سرمستی، خوشی اور کیف و رعنائی کے ہالے نے اس تضمین کو اس طرح اپنی گرفت میں لے رکھا ہے کہ قاری پر اس کا تاثر بڑا خوش گورا ہوجاتا ہے۔یہ تضمین اردو نعت کے معاصر منظر نامے میں ایک خوش گوار اضافہ ہے۔
ڈاکٹر عزیز احسن اس تضمینِ سلام کو تجدیدِ متن کی ایک عمدہ مثال قرار دیتے ہیں۔ وہ اپنی موقر رائے میں سلام کے مطلع کا حوالہ دیتے ہوئے اس کی تضمین رقم کرتے ہیں:
شانِ ختمِ رسالت پہ لاکھوں سلام
رب کے احسانِ نعمت پہ لاکھوں سلام
پیارے آقا کی عظمت پر لاکھوں سلام
’’مصطفیٰ، جانِ رحمت پہ لاکھوں سلام
شمعِ بزمِ ہدایت پہ لاکھوں سلام‘‘
اس بند کا حوالہ دے کر وہ لکھتے ہیں
اس تضمینی عمل سے یا تو سلامِ رضا کے متن کی تشریح ہوجاتی ہے یا اس متن کی معنیاتی وسعت ظاہر ہوتی ہے۔‘‘
وہ تضمین میں قرآن و حدیث سے اخذ کردہ موضوعات کے ذکر کو سراہتے ہیں اور شاعر کی مثبت دینی سوچ کی تعریف کرتے ہیں۔ وہ جہاں اس تضمین میں ترکیب سازی کے عمل کی تعریف کرتے ہیں وہاں اس کے مصرعوں کی معنویت اور سلاست کو بھی لائقِ ستائش قرار دیتے ہیں”۔
ڈاکٹر عزیز احسن نے بھی اس تضمین کو تجدیدِ متن کا ایک عمدہ نمونہ قرار دیا ہے۔ وہ اس تضمین کے اشعار میں شامل قرآنی و حدیثی موضوعات کو نعتیہ ادب میں قاری کے لیے فکری اور معنوی وسعت کا ذریعہ سمجھتے ہیں اور اس میں استعمال کردہ تراکیب اور مصرعوں کی معنویت کو لائقِ ستائش قرار دیتے ہیں۔ ڈاکٹر عزیز احسن لکھتے ہیں۔
"ڈاکٹر عزیز احسن اپنی رائے کا اختتام ان سطور پر کرتے ہیں:
"میں نے یہ تضمین لوح سے تمّت تک مکمل پڑھی ہے اور بلا تردد کہہ سکتا ہوں کہ الحمد للہ تضمین نگار نے سلام رضا کی تضمین کرتے ہوئے کہیں توضیحی اور کہیں معنیاتی توسیع کے ساتھ ساتھ تجدیدِ متن کا حق ادا کیا ہے۔ زبان سادہ اور بیان میں دلکشی کا پہلو نمایاں ہے اور یہ کہ تضمین نگار نے اصل شاعر کے شعری مزاج سے ہم۔آہنگ مصرعے لگا بھی بند مکمل کیے ہیں جیسے یہ بند:
آپ شاہِ امم، تاجدارِ حرم
ہیں کرم ہی کرم، تاجدارِ حرم
عاصیوں کا بھرم، تاجدارِ حرم
’’شہر یارِ اِرم ، تاجدارِ حرم
نوبہارِ شفاعت پہ لاکھوں سلام‘‘
پروفیسر صدیق نورمحمد نے اپنے مضمون میں حامد یزدانی کی تضمین کے لسانی اور معنوی محاسن کی نشاندہی کی ہے۔ ان کے مطابق اس تضمین میں اسما البنی ﷺ، سیرتِ نبوی، آثارِ صحابہؓ اور اولیا اللہ کے موضوعات کو ایک دلکش انداز میں سمویا گیا ہے۔ پروفیسر صدیق کا کہنا ہے کہ تضمین میں برجستگی اور سلاست کی ایسی خوبیاں ہیں جو اس کا اثر قاری کے دل میں براہِ راست منتقل کرتی ہیں۔ پروفیسر صدیق مزید لکھتے ہیں:
"’’یہ سلام برجستگی اور سلاست کا ایسا شاہکار ہے کہ لگتا ہے جیسے الہام ہوا ہو۔‘‘
سید صبیح رحمانی نے فلیپ میں حامد یزدانی کے شعری آہنگ اور نعت کے تشکیلی عناصر کی بھی تعریف کی ہے۔ ان کے مطابق شاہ صاحب کی نعتیں، جو اس کتاب میں شامل ہیں، ان کی نعتیہ فکر اور دینی مہارت کو بخوبی عیاں کرتی ہیں۔ سید صبیح رحمانی رقمطراز ہیں
"کتاب کا فلیپ سید صبیح رحمانی نے لکھا ہے ۔ان کا کہنا ہے:
اس تضمین کے اشعار میں شاعر کا شعری آہنگ بتدریج بلند ہوتا گیا ہے۔حامد یزدانی کی یہ کاوش قابلِ قدر ہے۔ان کی چند نعتیں بھی اس کتاب کی زینت ہیں جن سے ان کی نعت کے تشکیلی عناصر بخوبی واضح ہیں۔
اس کتاب میں حامد یزدانی کی نعت پر پروفیسر جعفر بلوچ کی رائے بھی شامل کردی گئی ہے جس سے شاعر کی حضور ﷺ سے محبت و عقیدت اور اس کی فنی ریاضت کا پتہ ملتا ہے”۔
کتاب کے آخر میں شاعر کے کوائف بھی درج کیے گئے ہیں جس میں طبع شدہ اور زیرِ ترتیب کتابوں کی فہرست بھی شامل ہے۔
کتاب ’’بہارِ قبول‘‘ نعت ریسرچ سنٹر کراچی سے شائع کی گئی ہے۔ اس کا سرورق دیدہ زیب اور خوشنما ہے، جس سے کتاب کا جاذبیت کا پہلو مزید اُبھر کر سامنے آتا ہے۔ 128 صفحات پر مشتمل یہ کتاب نعت نگاری کے جدید اور منفرد انداز کو قاری تک پہنچانے میں ایک بہترین اضافہ ہے۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ سید حامد یزدانی کی کتاب ’’بہارِ قبول‘‘ اردو نعتیہ ادب میں ایک اہم اضافہ ہے جو فنی اور فکری لحاظ سے بلند معیار پر پورا اُترتی ہے۔ اس میں اعلیٰ حضرت احمد رضا خان کے سلام کی تضمین کو نئی طرز میں پیش کیا گیا ہے، جس سے نعت نگاری کے میدان میں ایک منفرد سنگ میل قائم ہوتا ہے۔ اس کتاب کا مطالعہ نعت سے محبت رکھنے والے قارئین کے لیے ایک قیمتی تجربہ ثابت ہوگا۔ میں شاہ صاحب کو کتاب کی اشاعت پر مبارک باد پیش کرتا ہوں۔
رحمت عزیز خان چترالی کا تعلق چترال خیبرپختونخوا سے ہے، اردو، کھوار اور انگریزی میں لکھتے ہیں۔ آپ کا اردو ناول ”کافرستان”، اردو سفرنامہ ”ہندوکش سے ہمالیہ تک”، افسانہ ”تلاش” خودنوشت سوانح عمری ”چترال کہانی”، پھوپھوکان اقبال (بچوں کا اقبال) اور فکر اقبال (کھوار) شمالی پاکستان کے اردو منظر نامے میں بڑی اہمیت رکھتے ہیں، کھوار ویکیپیڈیا کے بانی اور منتظم ہیں، آپ پاکستانی اخبارارت، رسائل و جرائد میں حالات حاضرہ، ادب، ثقافت، اقبالیات، قانون، جرائم، انسانی حقوق، نقد و تبصرہ اور بچوں کے ادب پر پر تواتر سے لکھ رہے ہیں، آپ کی شاندار خدمات کے اعتراف میں آپ کو بے شمار ملکی و بین الاقوامی اعزازات، طلائی تمغوں اور اسناد سے نوازا جا چکا ہے۔کھوار زبان سمیت پاکستان کی چالیس سے زائد زبانوں کے لیے ہفت پلیٹ فارمی کلیدی تختیوں کا کیبورڈ سافٹویئر بنا کر عالمی ریکارڈ قائم کرکے پاکستان کا نام عالمی سطح پر روشن کرنے والے پہلے پاکستانی ہیں۔ آپ کی کھوار زبان میں شاعری کا اردو، انگریزی اور گوجری زبان میں تراجم کیے گئے ہیں ۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔