کوثرؔ نقوی کی کتاب "یادِ رفتگاں: قطعہ ہائے تاریخِ وفات” کا تجزیاتی مطالعہ
کوثرؔ نقوی کا شمار ممتاز شعرا میں ہوتا ہے۔ آپ اپنی بہترین قطعات نگاری کی وجہ سے مشہور ہیں۔ آپ کی وفیات نگاری پر حالیہ کتاب "یادِ رفتگاں: قطعہ ہائے تاریخِ وفات” پہلی کتاب ہے جو کہ فوت شدہ شخصیات کے بارے میں قطعاتی ادب میں ایک نیا اضافہ ہے۔ ادبی دنیا میں وفیات نگاری کے موضوع پر یہ پہلی قابلِ ستائش تصنیف ہے، جس میں ۱۵۰ فوت شدہ شخصیات کی زندگیوں اور کاموں کو بذریعہ قطعات محفوظ کرنے پر توجہ دی گئی ہے۔ کمیل ابن کوثر کی زیر نگرانی اس تالیف نے ادبی برادری کی ممتاز شخصیات کی توجہ حاصل کی ہے، جن میں علامہ سید حسن ظفر نقوی اور پروفیسر ڈاکٹر ہلال نقوی شامل ہیں۔
کمیل ابن کوثر کا مرتب کردہ کوثر نقوی کی کتاب، "یادِ رفتگاں” ۱۵۰ مرحومین کے بارے میں قطعاتی شاعری پر مبنی ایک قیمتی ذخیرے کے طور پر ہمارے سامنے ہے. جن شخصیات نے ادب، ثقافت اور معاشرے پر اپنے دور میں نمایاں نقوش چھوڑے ہیں، کتاب ان شخصیات کے مختصر اور معلوماتی پروفائلز کو شاعرانہ انداز میں پیش کرتی ہے، جو ان کی زندگی، شراکت اور ان کے متعلقہ شعبوں پر اثرات پر روشنی ڈالتی ہے۔ زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد، جیسے کہ شاعر، ادیب، اسکالرز اور فنکاروں کی شمولیت سے اس تالیف میں گہرائی اور تنوع شامل ہوا ہے۔ کتاب پر تبصرہ کرتے ہوئے علامہ سید حسن ظفر نقوی رقمطراز ہیں
"قطعہ تاریخ لکھنا خود ایک کہنہ مشقی کا متقاضی ہے چہ جائے کہ اس میں تمام لوازمات کی رعایت۔ مثلاً: حُسنِ شعر، حُسنِ صوتی، سالم الاعداد ہونا، شخصیت سے مناسبت بعد معنی اور تشریح طلبی کے جھنجٹ سے آزاد۔ آج کے دور میں ان خوبیوں کے ہمراہ اور خامیوں سے دور ایک شاعر کی شخصیت ابھر کر سامنے آتی ہے۔ اور وہ کوثرؔ نقوی ہے۔ بے شک اس میدان کے اور بھی شہسوار ہیں لیکن ناچیز کی رائے میں کوثرؔ نقوی اس میدان میں یگانہ روزگار ہیں”۔
کتاب کی ایک نمایاں خصوصیت اس کی باریک بینی سے ترتیب و تحقیق اور تفصیل پر توجہ ہے۔ کوثر نقوی اور کمیل ابن کوثر نے واضح طور پر ان فوت شدہ شخصیات کے بارے میں معلومات اکٹھا کرنے میں نمایاں کوششیں کی ہیں، تاکہ فوت شدہ شخصیات کی خدمات اور ان کی وراثت کو آنے والی نسلوں کے لیے محفوظ رکھا جائے۔ پروفائلز کی جامع نوعیت ان افراد کے ثقافتی اور فکری ورثے کے لیے گہری تعریف کو ظاہر کرتی ہے۔ پروفیسر ڈاکٹر ہلال نقوی کتاب کے بارے میں لکھتے ہیں
”میدان سُخنوری کے استاد کوثر نقوی کی سُخنوری اپنی ایک شناخت رکھتی ہے اور فنی امتیازات میں تو اُنھوں نے خود کو منوا بھی لیا ہے۔ جس کی روشنی ان کے لکھے ہوئے قطعات تاریخِ وفات میں قندیل حیات کی طرح منوّر ہے۔ اس فن کے ماہرین ان کی اس تخلیقی رَوِش کے بہت قائل ہیں ۔ ہمارے پیش نظر ان کے جو یہ ڈیڑھ سو (۱۵۰) قطعات تاریخ وفات ہیں یہ ان کے بائیں ہاتھ کا کام ہے۔ وہ مسلسل لکھ رہے ہمیں مسلسل کہہ رہے ہیں ۔ کوثر نقوی سالم الاعداد مصرع تاریخ کو اپنے اس شعری سفر کا لازمہ سمجھتے ہیں۔ یہ خوبی اساتذہ ہی میں دیکھی جاسکتی ہے اور اس میں کیا شک ہے کہ کوثرؔ نقوی اس میدان سُخنوری کے بہت پختہ کہنے والے اُستاد ہیں”۔
"یادِرفتگاں” ادبی تاریخ اور ثقافتی تحفّظ کے منظر نامے میں بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔ ان ۱۵۰ شخصیات کی یادوں کو امر کرتے ہوئے کتاب اس بات کو یقینی بناتی ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کی شراکت کو فراموش نہیں کیا جائے۔ یہ کتاب قارئین کو ان شخصیات کی زندگیوں اور کاموں کو جاننے کا موقع فراہم کرتا ہے جس سے وہ ثقافتی اور فکری منظر نامے کی گہری تفہیم کو فروغ دیتے ہیں اور جہاں سے وہ ابھرے ہیں۔
یہ کتاب خواہشمند مصنفین اسکالرز اور فنکاروں کے لیے ایک حوالہ کا ذریعہ بھی ہے۔ یہ ان لوگوں کے سفر اور کامیابیوں کو ظاہر کرتا ہے جنہوں نے اپنے متعلقہ شعبوں میں انمٹ نقوش چھوڑ کر اس دنیا سے چلے گئے ہیں، کتاب میں شامل پروفائلز قارئین کو ان کے نقش قدم پر چلنے اور بہترین کارکردگی کے لیے کوشش کرنے کی ترغیب دیتے ہیں۔
اگرچہ "یادِرفتگاں” بلاشبہ ایک قابلِ تعریف کاوش ہے، لیکن یہ اپنی فہرست کے بغیر لکھی جانے والی پہلی کتاب ہے جوکہ کتاب کی مقبولیت میں کمی کا باعث بن رہی ہے، فہرست سے قاری اپنے مطلوبہ شخصیت کا قطعہ دیکھ سکتا تھا لیکن کتاب بغیر فہرست کے شائع کی گئی ہے۔
کتاب کو پڑھنے اور اس کی مقبولیت کو مزید بڑھانے کے لیے کتاب کی فہرست وار ترتیب سے کتاب کو مزید بہتر بنایا جاسکتا تھا۔ انڈیکس کے ساتھ پروفائلز کی ایک موضوعاتی یا تاریخ وار ترتیب انتہائی ضروری تھی جس کی کمی شدت سے محسوس کی جارہی ہے۔ کتاب کی فہرست قارئین کو تخلیق سے زیادہ مؤثر طریقے سے قطعہ تلاش کرنے میں مدد فراہم کرے گی۔
علامہ سید حسن ظفر نقوی کا جائزہ، "یگانہ روزگار – کوثر نقوی” اور پروفیسر ڈاکٹر ہلال نقوی کا مضمون، "میدانِ سُخنواران کلید استاد”، کوثر نقوی کی ادبی میراث کے تحفظ کے لیے لگن کو اجاگر کرتا ہے۔ دانشور کوثر نقوی کی "یادِ رفتگاں” کو مرتب کرنے میں ان کی انتھک کوششوں کو سراہتے ہیں اور مرحوم مصنفین کی زندگیوں کو قطعاتی ادب کے ذریعے یاد کرنے میں کتاب کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہیں۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ کوثر نقوی کی "یادِ رفتگاں: قطعہ ہائے تاریخِ وفات” ادبی دُنیا کے لیے ایک قابلِ قدر شراکت ہے، جو ۱۵۰ فوت شدہ شخصیات کے لازوال علمی اور ادبی اثرات کا ثبوت ہے۔ اگرچہ ہر کتاب کی اپنی اپنی حدود ہیں، لیکن ثقافتی اور فکری میراث کے تحفظ میں اس کتاب کی اہمیت کو بغیر فہرست بڑھاوا نہیں دیا جا سکتا۔ فہرست شامل کرنے سے اس کتاب کی مقبولیت میں مزید اضافہ ہوسکتا تھا۔ ہم اس تاریخی پروجیکٹ کے لیے کوثر نقوی اور کمیل ابن کوثر کو ان کی لگن کے لیے مبارکباد پیش کرتے ہیں اور امید کرتے ہیں کہ "یادِ رفتگاں” آنے والی نسلوں کے لیے قارئین کو تحریک اور تعلیم دیتا رہے گا۔
رحمت عزیز خان چترالی کا تعلق چترال خیبرپختونخوا سے ہے، اردو، کھوار اور انگریزی میں لکھتے ہیں۔ آپ کا اردو ناول ”کافرستان”، اردو سفرنامہ ”ہندوکش سے ہمالیہ تک”، افسانہ ”تلاش” خودنوشت سوانح عمری ”چترال کہانی”، پھوپھوکان اقبال (بچوں کا اقبال) اور فکر اقبال (کھوار) شمالی پاکستان کے اردو منظر نامے میں بڑی اہمیت رکھتے ہیں، کھوار ویکیپیڈیا کے بانی اور منتظم ہیں، آپ پاکستانی اخبارارت، رسائل و جرائد میں حالات حاضرہ، ادب، ثقافت، اقبالیات، قانون، جرائم، انسانی حقوق، نقد و تبصرہ اور بچوں کے ادب پر پر تواتر سے لکھ رہے ہیں، آپ کی شاندار خدمات کے اعتراف میں آپ کو بے شمار ملکی و بین الاقوامی اعزازات، طلائی تمغوں اور اسناد سے نوازا جا چکا ہے۔کھوار زبان سمیت پاکستان کی چالیس سے زائد زبانوں کے لیے ہفت پلیٹ فارمی کلیدی تختیوں کا کیبورڈ سافٹویئر بنا کر عالمی ریکارڈ قائم کرکے پاکستان کا نام عالمی سطح پر روشن کرنے والے پہلے پاکستانی ہیں۔ آپ کی کھوار زبان میں شاعری کا اردو، انگریزی اور گوجری زبان میں تراجم کیے گئے ہیں ۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔