محمد علی فضل لکھتے ہیں
گزشتہ روز پنجابی انسٹیٹیوٹ آف لینگوئج آرٹس اینڈ کلچر کے زیر اہتمام مجھ خاکسار کے اعزاز میں شام سخن کا اہتمام کیا گیا ۔جس پر پلاک کی ڈائریکٹر جنرل جو کہ پنجابی زبان وادب کے فروغ اور اس کی آبیاری میں ہمہ وقت مصروف عمل نظر آتی ہیں اور اپنے پیشہ ورانہ فرائض کی بجا آوری میں اپنی مثال آپ کے مصداق پر سو فیصد پورا اترتی ہیں
میڈم صغریٰ صدف صاحبہ۔
ڈاکٹر خاقان حیدر غازی۔ڈائریکٹر پلاک۔
اور ملک عزیز کے ہر دلعزیز اردو پنجابی کے منفرد لہجے کے شاعر ادیب صحافی اور مصنف مزاج نقاد دانشور جناب سید فرحت عباس شاہ کو بھی اپنی عقیدتوں کا خراج پیش کرتا ہوں جنہوں نے انتہائی مختصر سے وقت میں مختصر پروقار شام سخن کا اہتمام فرما کر مل بیٹھنے کی راہ نکالی اور میرے شوق کو فزوں تر کیا ۔۔آپ سب کا تہہ دل سے شکریہ جن احباب نے مجھے اپنا ممنون التفات ہونے کا موقع فراہم کیا۔
صدارت : فرحت عباس شاہ صاحب
مہمان خصوصی : ڈاکٹر خاقان حیدر غازی صاحب
مہمان اعزاز : طاہرہ سراء صاحبہ
مضامین : غلام شبیر شاہین صاحب ، فیصل زمان چشتی صاحب
نقابت : راجا نئیر صاحب
اسی شام کے بارے میں غلام شبیر شاہین لکھتے ہیں
بلاشبہ آپ کے ساتھ آپ کے اعزاز میں منعقدہ شام سخن میں ہم اپنی شمولیت کو بھی باعث اعزاز سمجھتے ہیں
اس تقریب کے تفصیلی جائزے میں کچھ اسمائے گرامی ہیں جن کا تذکرہ کئیے بغیر یا ان شخصیات کو دل کی گہرائیوں سے یدیہ تحسین پیش کئیے بغیر میرے نزدیک ایک سطر بھی ضبط تحریر میں لانا صریحاً ناانصافی کے زمرے میں آتا ہے۔
یہ دورجس میں ہم زندگی کر رہے ہیں بالخصوص ہمارے دیسی سماج میں جہاں لوگوں کے پاس بغیر کسی زاتی مفاد کے وقت نکالنا ممکن ہی نہیں ۔۔۔اس تقریب میں آپ کے ساتھ ان لوگوں کی بے لوث محبت کا منظر دیکھ کر جی بہت خوش ہوا۔۔۔آپ واقعتا خوش قسمت انسان ہو۔۔۔جس کے ساتھ ہمارے وطن کے وہ نابغہ روزگار افراد جو اپنے اپنے شعبہ میں اتھارٹی اور ایک سند کادرچہ رکھتے ہیں ) محبت و احترام سے پیش آتے ہیں ۔۔۔
سید فرحت عباس شاہ میرے ملک کا وہ فرد فرید ہے جو بندش افکار کے ساتھ ساتھ آزاد نظم کے میدان کا بھی فاتح شاہسوار ہے۔۔نثری کالم نگاری ہو یا یوٹیوب پر ان کے تجزئیے ہوں وہ دیانت اور خیانت کے درمیان غیر اور خیر کے درمیان ۔ادب اور بے ادبی کے درمیان قال اور حال کے درمیان واضح طور خط تنسیخ کھینچتے ہوئے نظر آتے ہیں آج تک کسی قسم کے لقمہ تر کی ہوس نے ان کے لہجے کے جلال اور پایہ استقلال میں لغزش نہیں آنے دی ۔
وہ ہر دور میں مظلومیت کے ساتھ رہے ۔۔وہ سچ بات کہتے ہوئے مخاطب کے سرکاری عہدے کو بھی خطرے میں نہیں لاتے ۔جو اس تقریب کی صدارت کر رہے تھے دل کو بہت اطمینان ہوا۔۔۔میڈم صغریٰ صدف صاحبہ ڈائریکٹر جنرل پلاک
جن کا وجود پورے قلم قبیلے میں لائق صد تحسین باعث صد افتخار ہے کہ انہوں نے ان دنوں ناسازی طبیعت کے باوجود اس تقریب کو پلاک کے ڈائریکٹر جناب خاقان حیدر غازی صاحب کو تقریب کی زمہ داری تفویض کی انہوں نے بھی کمال محبت اور خوش اسلوبی کے ساتھ اس تقریب کو تکمیل تک پہنچایا۔
اور مہمان شاعر کی شاعری پر اس قدر جامع اور پر اثر گفتگو فرمائ کہ سامعین کو ان کے لفظ لفظ سے مہمان شاعر کی شاعری میں زیر بحث لائے گئے موضوعات کا علمی محاکمہ مجسم شکل میں دکھائی دینے لگا۔۔۔انہوں نے۔کتاب کے نام ۔۔۔مٹی ہیٹھ تماشا۔۔پر ایسے پرسوز پیراوں میں بات کی کہ کچھ لمحوں کے لئے خود میرے دل میں بھی مٹی کے نیچے ہونے والے تماشے کو دیکھنے کی تمنا نے بھی انگڑائ لی۔۔۔
ان کی گفتگو کے فوراً بعد ۔نہایت ہی منفرد لہجے احساسات و جذبات سے مسجہ و مرصع صفدرہ آباد سے تشریف لائ ہوئ شاعرہ طاہرہ سرا جنہیں اپنے نہایت دلکش انداز بیاں کےسبب اپنے ملک کے ساتھ ساتھ باہر کے کئی دوسرے ممالک میں بھی مقبولیت کا مقام حاصل ہے ۔انہوں نے بھی اپنا کلام پیش کرنے کے ساتھ ساتھ مہمان کی شاعری کو کھلے دل سے سراہا ۔۔۔
اور ان کی ایک غزل بھی سنائ ۔۔۔۔۔
فیصل زمان چشتی صاحب جو کہ پنجابی زبان کے نہایت عمدہ شاعر ہیں انہوں نے مہمان شاعر کی شاعری
پر تفصیل سے گفتگو کرکے سامعین کو شاعر کے فکری و شعوری گوشوں سے پردہ کشائی کے لئیے انہی کے شعری نمونوں کو سامعین کی سماعتوں کی نذر کیا اور تمام شرکاء سے خوب داد وصول کی۔۔۔۔آخر میں صدر محفل سید فرحت عباس شاہ نے محمد علی فضل کی شاعری کو موجودہ دور میں ہونے والی پنجابی شاعری میں قابل تائید وقابل تقلید قرار دیتے ہوئے کہا کہ ان کی شاعری میں خیال کو بغیر کسی ملاوٹ کے من وعن شعری صورت میں ڈھالا گیا ہے جس میں ان کے جذبوں کی سچائی اپنے تمام خد و خال کے ساتھ جلوہ گر نظر آتی ہے۔۔۔۔یہاں فقط ایک چیز ایسی بھی دیکھنے کو ملی
جو آج سے پہلے کبھی دیکھنے میں نہیں آئ کہ مہمان خصوصی کے خطاب کے بعد محفل کو کنڈکٹ کرنے والا یعنی نقیب اپنا کلام پیش کرنا شروع کردے ۔۔۔ایسی ادبی تقریبات میں نقابت کے فرائض انجام دینے والے قابلِ احترام اناونسرز حضرات کو ان باتوں کا خیال رکھنا چاہیے یا انہیں نقابت کے متقاضی تمام اسرار و رموز سے آشنا ہونا چاہئے ۔۔۔ہوا تو ایسے ہی تھا مگر میں نے یہ بات از راہ تفنن طبع ہی کی ہے ۔۔۔کئ سارے نئے احباب سے ملاقات ہوئی جن کے نام زیادہ ہیں پھر کبھی سہی۔
میں محمد علی فضل کو ڈھیروں مبارک باد پیش کرتا ہوں ۔پنجابی کے اس ایک مصرعے کے ساتھ
میں گلیاں دا روڑا کوڑا
محل چڑھایا سائیاں
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔