امیر خسرو کی فارسی غزل کے کھوار تراجم کا تجزیاتی مطالعہ

امیر خسرو کی فارسی غزل کے کھوار تراجم کا تجزیاتی مطالعہ

ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی*

حضرت امیر خسرو کا شمار فارسی کے چند چیدہ چیدہ شعرا میں ہوتا ہے۔ ان کی ایک غزل کافی مشہور ہوئی جس کا پہلا شعر "زحالِ مسکیں مکن تغافل دُرائے نیناں بنائے بتیاں کہ تابِ ہجراں ندارم اے جاں نہ لے ہو کاہے لگائے چھتیاں” تھا۔ خسروؔ کے ان اشعار میں فارسی اور اس وقت کی مروجہ اردو یا ہندی کا امتزاج دکھایا گیا ہے جو کہ امیر خسرو کی دو زبانوں پر غیر معمولی دسترس اور ان کے کلام میں بین الثقافتی حسن کی عکاسی کرتا ہے۔ اس غزل کا ہر شعر نہ صرف عشق اور جدائی کے جذبات کی عکاسی کرتا ہے بلکہ دو زبانوں یعنی فارسی و ہندی کے ملاپ کے ذریعے اس عہد کے گہرے لسانی و ثقافتی تعلقات کو بھی اجاگر کرتا ہے۔


امیر خسرو نے اس غزل کے اشعار کا پہلا مصرع فارسی میں اور دوسرا مصرع اردو (ہندی) میں لکھا ہے۔ خسرو کا یہ منفرد نہ صرف اشعار کو فنی لحاظ سے منفرد بنا دیتا ہے بلکہ ان میں موجود جذبات کو بھی جامع انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ فارسی کے اشعار میں امیر خسرو کے ادب و فن اور ان کی فارسی زبان پر دسترس کا مظاہرہ دیکھنے میں آتا ہے، جبکہ اردو مصرعوں میں عوامی جذبات اور دل کو چھو جانے والے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں۔
اس غزل میں عشق و ہجر کی کیفیتوں کو بہترین الفاظ میں بیان کیا گیا ہے۔ مثلاً:
"شبانِ ہجراں دراز چوں زلف و روزِ وصلت چوں عمرِ کوتاہ
سکھی! پیا کو جو میں نہ دیکھوں تو کیسے کاٹوں اندھیری رتیاں”
اس شعر میں امیر خسرو جدائی کی راتوں کو محبوب کی زلفوں کی طرح طویل اور وصال کے دنوں کو مختصر عمر کی طرح بیان کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔
کھوار اور اردو ترجمے میں امیر خسرو کی طرف سے استعمال کی گئی زبان کی سادگی اور عوامی لہجے کا خاص خیال رکھا گیا ہے۔ اس کا مقصد نہ صرف شاعر کے جذبات کی براہ راست ترجمانی ہے بلکہ یہ ہندی و فارسی کی مشترکہ زبان کو ایک مربوط انداز میں پیش کرتا ہے مثلاً:
یکایک از دل دو چشم جادو بصد فریبم ببردِ تسکیں
کسے پڑی ہے جو جا سناوے پیارے پی کو ہماری بتیاں
اردو ترجمے میں اسے یوں بیان کیا گیاہے:
پلک جھپکتے میں وہ دو ساحر آنکھیں میرے دل کا سکون لے اُڑیں
اب کسے پڑی ہے کہ جا کر ہمارے محبوب کو ہمارا حالِ دل سنائے
امیر خسرو کے فارسی اشعار میں استعمال کیے گئے استعارات و تشبیہات اور ان کے اردو یا ہندی ترجمے میں ان کی اصلیت کو برقرار رکھنا ایک بڑا چیلنج تھا۔ اس غزل کے کھوار و اردو ترجمے میں مختلف مترجمین نے اپنے انداز میں بامعنی الفاظ کا استعمال کیا ہے تاکہ اصل مفہوم اور احساسات کو برقرار رکھا جا سکے۔ تاہم بعض تراجم میں اصل اشعار کے معنوی گہرائی کو محفوظ کرنا مشکل محسوس ہوتا ہے، خاص طور پر جب فارسی میں باریک بین تشبیہات کو بیان کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
امیر خسرو کی یہ غزل عشقِ مجازی کی لازوال داستان ہے جو عاشق کی کیفیت اور محبوب کی لاپروائی کو بیان کرتی ہے۔ یہ غزل ایک عہد کا نمائندہ ادب ہے جس میں فارسی اور اردو کا امتزاج اردو ادب میں کلاسیکی روایت کی بنیاد بنا۔ مختلف مترجمین نے اس غزل کو مختلف انداز میں اردو میں ڈھالنے کی کوشش کی ہے، اور اس کے نتیجے میں ہر ترجمہ اس کے اصلی جذبات اور اثرات کو مختلف زاویے سے اجاگر کرتا ہے۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ امیر خسرو کی فارسی غزل کے کھوار و اردو تراجم اس امر کو اجاگر کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ زبانوں کا امتزاج کس طرح ثقافتی و تہذیبی اشتراک کو فروغ دیتا ہے۔ ان کے کلام میں موجود جذبات کو کھوار و اردو ترجمے میں اس طرح منتقل کیا گیا ہے کہ ان کے اشعار کی اصل خوبصورتی اور گہرائی برقرار رہے۔ یہ تراجم امیر خسرو کی تخلیقی صلاحیتوں اور زبان پر ان کی عبوریت کو سراہنے کا ایک ذریعہ بھی ہے اور کھوار و اردو کے قارئین کے لیے فارسی اشعار کے پیغام کو عام فہم بنانے کی پہلی کوشش بھی ہے۔ اہل ذوق قارئین کے مطالعے کے لیے امیر خسروؔ کی غزل مع کھوار و اردو تراجم پیش خدمت ہیں:
٭
فارسی غزل
*
زحالِ مسکیں مکن تغافل دُرائے نیناں بنائے بتیاں
کہ تابِ ہجراں ندارم اے جاں نہ لے ہو کاہے لگائے چھتیاں
اردو ترجمہ:اس غریب کے حال سے تغافل نہ برت، آنکھیں پھیر کر، باتیں بنا کر
اب جدائی کی تاب نہیں مری جان، مجھے اپنے سینے سے کیوں نہیں لگا لیتے

کھوار ترجمہ:ہیہ ناچار غریبو حالاتاری غافل مو بوس، نور غیچھی مودیت، دیش بیکو بچے لوان اشٹوکیے بہنہ مو ساوزاوے۔ ہانیسے جدائیو غمان برداش کوریکو مہ موژا ہمت نیکی اے مہ خوش روئے۔ محبتو سورا مہ سوم دوچھار کو نو بوسان۔

شبانِ ہجراں دراز چوں زلف و روزِ وصلت چوں عمرِ کوتاہ
سکھی! پیا کو جو میں نہ دیکھوں تو کیسے کاٹوں اندھیری رتیاں
اردو ترجمہ:جدائی کی راتیں زلف کی مانند دراز اور وصال کے دن عمر کی مانند مختصر
اے دوست! محبوب کو دیکھے بغیر یہ اندھیری راتیں کیوں کر کاٹوں

کھوار ترجمہ:جدائیو چھوئے ته پھوران درونگ وا وصالو انوس عمرو غون مختصار
اے دوست! خوش رویو پوشیکار غیر ہمی ٹونگ ٹانگ چھویان کیچہ کوری شخسئیم

یکایک از دل دو چشم جادو بصد فریبم ببردِ تسکیں
کسے پڑی ہے جو جا سناوے پیارے پی کو ہماری بتیاں
اردو ترجمہ:پلک جھپکتے میں وہ دو ساحر آنکھیں میرے دل کا سکون لے اُڑیں
اب کسے پڑی ہے کہ جا کر ہمارے محبوب کو ہمارا حالِ دل (باتیں) سنائے

کھوار ترجمہ:غیچھو چیپا ہتے جو جادوگار غیچھ مه ہردیو سکونو گانی اوانی۔ ہانیسے کوس وسہ شیر کی بی مه خوش رویوتے مه ہردیو حالو بیان کوئے۔

چوں شمعِ سوزاں، چوں ذرہ حیراں، ہمیشہ گریاں، بہ عشق آں ما
نہ نیند نیناں، نہ انگ چیناں، نہ آپ آویں، نہ بھیجیں پتیاں
اردو ترجمہ:میں اس عشق میں جلتے ہوئے اور ذرۂ حیراں کی طرح ہمشیہ فریاد کر رہا ہوں
نہ آنکھوں میں نیند، نہ تن کو چین کہ نہ تو وہ خود آتے ہیں اور نہ ہی کوئی پیغام بھیجتے ہیں

کھوار ترجمہ:اوا ہیہ عشقہ چوکرو دیوؤ غون وا ذرۂ حیرانو غون ہمیش فریاد کورومان
نہ غیچھہ اورارو، نہ ہردیوت سکون، نہ تھے ہسے تان گویان وا نہ کیہ پیغام انزیران

بحقّ ِروزِ وصالِ دلبر کہ دادِ ما را غریب خسروؔ
سپیت من کے ورائے راکھوں جو جائے پاؤں پیا کی کھتیاں
‏ اردو ترجمہ:مسکین خسرو کو قابو کرنے والا محبوب ایک دن اس ملنے کا موقع دے گا،‏میں لاکھوں سفید موتی اس دن لٹانے کے لیے تیار ہوں جب مجھے محبوب کا راستہ دکھے گا۔

کھوار ترجمہ:مسکین خسروو قابو کوراک دوست ای انوس ہوتے ملاؤ بیکو موقعو ضرور دوئے۔ اوا لاکھہا اشپیرو شاوائے ہتے انوس تان خوشو سورا بوشئیکو بچے تیار اسوم کیاوتکہ متے مہ خوش رویو صورت غیچھی ہائے

تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

streamyard

Next Post

ایک صدی کا قصہ ایم سی اسکول کی پروقار تقریب

اتوار دسمبر 15 , 2024
کیمبل پور اٹک میں واقع بر صغیر پاک و ہند کی معروف علمی درسگاہ گورنمنٹ ایم سی بوائز ہائی سکول اٹک سابق ایم سی مڈل سکول
ایک صدی کا قصہ ایم سی اسکول کی پروقار تقریب

مزید دلچسپ تحریریں