یوم اقبال پر سرفراز بزمی کی نظم "اقبال نامہ” کا تجزیاتی مطالعہ
(یوم اقبال کے حوالے سے خصوصی تحریر)
اقبالیات
آہنگ اقبال کے بقید حیات شعراء میں سرفراز بزمی ایک معروف نام ہے جن کے کئ اشعار علامہ سے منسوب ہوکر عوام میں مقبولیت پاچکے ہیں جیسے
اللہ سے کرے دور تو تعلیم بھی فتنہ
اولاد بھی املاک بھی جاگیر بھی فتنہ
ناحق کے لئے اٹھے تو شمشیر بھی فتنہ
شمشیر ہی کیا نعرہء تکبیر بھی فتنہ
(تعلیم کی جگہ تعمیر پڑھیں )
سرفراز بزمی سوائی مادھوپور راجستھان انڈیا سے تعلق رکھنے والے ادیب، حافظ، عالم فاضل ہونے کے ساتھ ساتھ راجستھان یونیورسٹی سے بی اے فارسی اور ہسٹری، ایم ڈی ایس، یونیورسٹی اجمیر شریف سے ایم اے انگریزی ادب اور لنگویج مائنورریٹی ایل ایم کالج اجمیر سے ٹیچرس ٹریننگ کورس کرکے محکمۂ تعلیم راجستھان سے بطور ماہر تعلیم وابستہ ہیں، آپ کی کتابوں میں ”نوائے صحرا”، ”رود ریگزار” اور ”سوئے حرم” شامل ہیں۔
سرفراز بزمی کی نظم "اقبال نامہ” بچوں کے لیے اقبالیات کے موضوع پر ایک بہترین نظم ہے جو علامہ محمد اقبال کی زندگی اور خدمات کو سامنے لاتی ہے۔ یوم اقبال کے موقع پر بچوں کے لیے لکھی گئی یہ نظم اقبال کی ابتدائی زندگی سے لے کر ایک مشہور فلسفی، شاعر،ماہر قانون اور مفکر بننے تک کے سفر کو بیان کرتی ہے۔ اس نظم میں شاعر نے اقبال کے ایک نوجوان طالب علم سے ایک ممتاز فلسفی تک کے سفر کی واضح تصویر کو شاعرانہ انداز میں خوبصورتی سے پیش کیا ہے۔
نظم "اقبال نامہ” کا مرکزی موضوع علامہ اقبال کی زندگی اور کارناموں کے بارے میں بچوں کو متاثر کرنا اور ان کو تعلیم دینا ہے۔ یہ علم، استقامت، اور کسی کی ثقافتی اور روحانی جڑوں کے ساتھ گہرے تعلق کو اجاگر کرتا ہے۔ اقبال کی زندگی کی کہانی کے ذریعے سرفراز بزمی کی نظم بچوں کو بڑے خواب دیکھنے اور معاشرے میں مثبت کردار ادا کرنے کی ترغیب دیتی ہے۔
اس نظم کو ایک بیانیہ کے طور پر خوبصورتی سے ترتیب دیا گیا ہے، جس میں اقبال کی پیدائش سے لے کر ان کی بیرون ملک قانون کی اعلیٰ تعلیم اور ان کے گہرے فکری اور روحانی سفر تک کی زندگی کا پتہ لگایا گیا ہے۔ اس میں تاریخی حقائق اور کہانیوں کو ایک ساتھ باندھا گیا ہے، نظم اقبال نامہ میں اقبال کی زندگی کا ایک تاریخی بیان پیش کیا گیا ہے۔ یہ ڈھانچہ نوجوان قارئین تک ایک واضح اور پرکشش پیغام پہنچانے میں مدد کرتا ہے اور اسے ایک موثر تعلیمی ذریعہ بناتا ہے۔سرفراز بزمی "اقبال نامہ” کے اثرات کو بڑھانے کے لیے مختلف ادبی آلات استعمال کرتے ہیں جو کہ مندرجہ ذیل ہیں:
استعارہ: اقبال کو ایک چمکتے ہوئے ستارے کے طور پر پیش کیا گیا ہے، جو ان کی چمک دمک اور اثر و رسوخ کی علامت ہے۔
"بخت اقبال” اور "ستارہ روشن تھا” جیسے فقروں میں انتشار کا استعمال بیانیہ میں تال اور موسیقیت کا اضافہ کرتا ہے۔
امیجری: اس نظم میں اقبال کے سفر اور تجربات کی واضح منظر کشی پیش کی گئی ہیں، جس سے نوجوان قارئین کے لیے ان کی زندگی سے جڑنا آسان ہو جاتا ہے۔
علامت نگاری: دنیا میں علامہ اقبال کی اہمیت کو ظاہر کرنے کے لیے نظم میں "اقبال نایاب” جیسی علامتیں استعمال کی گئی ہیں۔
نظم "اقبال نامہ” شاعر مشرق علامہ اقبال کی ابتدائی تعلیم سے لے کر اعلیٰ تعلیم کے لیے بیرون ملک سفر تک، ان کی زندگی کا ایک جامع بیان فراہم کرتا ہے۔ اس میں علم کے لیے اس کی پیاس پر زور دیا گیا ہے، جس کی مثال ان کے علمی مشاغل اور متعدد ممالک کے اسفار سے ملتی ہے۔ علم کی اس پیاس نے بالآخر اسے ڈاکٹر اور بیرسٹر بننے میں مدد کی، اعلیٰ تعلیم کے شوق نے فکری نشوونما کے لیے اقبال کی لگن کو ظاہر کیا۔
یہ نظم اس تبدیلی کی طرف اشارہ کرتی ہے جس سے اقبال گزرے، خاص طور پر جب وہ مغربی تہذیب سے مایوس ہو گئے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ اقبال کی روحانی بیداری نے انہیں مغرب کے جھوٹے وہموں کو چھوڑ کر اپنے عقائد کو اپنی ثقافت کی اقدار سے ہم آہنگ کرنے پر مجبور کیا۔
سرفراز بزمی کی یہ شاعری اقبال کی صوفیانہ شاعری سے فلسفیانہ فکر کی طرف منتقلی کی خوبصورتی سے عکاسی کرتی ہیں، ایک شاعر اور مفکر کے طور پر ان کے فکر و فن کے ارتقا کو سمیٹتی ہیں۔ نظم میں ان کی مشہور تصانیف جیسے "رموزِ بیخودی” پر بھی تفصیلی روشنی ڈالی گئی ہے، جو ادب اور فلسفے میں ان کے تعاون کو اجاگر کرتی ہے۔
شاعری کا اختتام اقبال کے اکسٹھ سال کی عمر میں انتقال پر ان ان کی شاندار خدمات کی پُرجوش عکاسی کے ساتھ ہوتا ہے، جو ان کے پائیدار اثرات اور مشرق کے لیے امید کی کرن کے طور پر ان کے کردار کی عکاسی کرتی ہے۔ یہ نوجوانوں کو آگے بڑھنے اور اپنی صلاحیتوں کو پورا کرنے کی دعوت دیتا ہے۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ سرفراز بزمی کا "اقبال نامہ” علامہ اقبال کو شاندار الفاظ میں خراج تحسین پیش کرتا ہے، جو نوجوان قارئین کو اس نامور فلسفی اور شاعر کی زندگی اور نظریات کا ایک قابل رسائی اور متاثر کن تعارف پیش کرتا ہے۔ یہ بچوں کو اقبال کے نقش قدم پر چلنے، علم، روحانی ترقی اور معاشرے کی بہتری کے لیے جدوجہد کرنے کی ترغیب دیتا ہے۔ اہل ذوق قارئین کے مطالعے کے لیے سرفراز بزمی کی نظم پیش خدمت ہے۔
"اقبال نامہ”
سنو پیارے بچو کہانی سنو
یہ اک داستاں جاودانی سنو
کہانی ہے اک شہر پنجاب کی
کہانی ہے اقبال نایاب کی
خدا دار ایک شیخ جنت مقام
کہ نور محمد ہوا جن کا نام
خدا کی عطا ان کے دو لال تھے
کلاں تھے”عطا "خرد "اقبال” تھے
بلندی پہ تھا بخت اقبال کا
ستارہ منور تھا اس لال کا
اٹھارہ کا سن تھا ستتر کا سال
کہ پیدا ہوا یہ سراپا کمال
تھے استاد اک مولوی میر حسن
لیا آپ نے ان سے درس کہن
لگائی جو رہوار ہمت پہ چوٹ
چلے آئے لاہور از سیالکوٹ
تشفی کے لیکن بجھے جب دیے
تو لاہور سے کیمبرج چل دیے
براؤن ، نکلسن ، ٹگرٹ ، سارلی
نمایاں ملے ان کو استاد بھی
تھےسر آرنلڈ ان میں سب سےشہیر
وہ دنیاۓ علم و ادب کے امیر
بڑھی اور جب علم کی تشنگی
گئے بہر تعلیم تا جرمنی
رقم کی وہاں فلسفے پر کتاب
تو اس پر ملا ڈاکٹر کا خطاب
مگر تشنگی اور بڑھتی گئ
تو لندن سے کی پاس بیرسٹری
رہے شہر لندن میں ایسے مقیم
کہ دربار فرعون میں جوں کلیم
ولایت سے جب ڈاکٹر ہو گئے
نوازا حکومت نے ، سر ہوگئے
وہ انیس سو پانچ سے آٹھ تک
رہے ارض یورپ پہ بن کر فلک
مگر جب کھلے اس تمدن کے عیب
وہ حاضر کی دنیا یہ دنیائے غیب
ہوئے جب عیاں بھید سب ناشکیب
تمدن تفنن کے جھوٹے فریب
تو بیزار مغرب ہوئے اسقدر
پلٹ کر نہ دیکھا ادھر عمر بھر
اثر تھا یہ مغرب کے طوفان کا
مسلماں کو جس نے مسلماں کیا
غرض جب کھلاحق، ہوئےشرمسار
کلام الٰہی پڑھا اشکبار
کھلے دل پہ اسرار ہائے ازل
تو پھر بحر عرفاں میں ڈوبی غزل
تو پھر عارض و زلف و لب کھوگئے
روایات کہنہ کے ڈھب کھو گئے
ہوئی شاعری پھر بلوغ المرام
قلم سے لیا تیر و نشتر کا کام
وہ پیغام مشرق زبور عجم "
رموز خودی بیخودی ” کا علم
سنائی زمانے کو بانگ درا
کہ بیدار ہو نیند سے قافلہ
بتائے ہمیں راز تفصیل سے
اڑے عرش تک بال جبریل سے
خوشا ! ضرب مومن وہ ضرب کلیم
ہوجس ضرب سےقصر باطل دو نیم
دیا قوم کو ارمغان حجاز
وفا کا ترانہ محبت کا ساز
غرض کیا بتاؤں وہ کیا شخص تھا
وہ افکار قرآں کا اک عکس تھا
بالآخر ہوئی عمر اکسٹھ برس
بجا موت کے کارواں کا جرس
یہ خورشید انیس سو اڑتیس کو
چھپا صبح اپریل اکیس کو
قفس سے اڑا عندلیب حجاز
سوئے خلد ، مشرق کا دانائے راز
چراغ خودی کا نگہباں گیا
قلندر تھا اک شعلہ ساماں گیا
جو کہتا تھا لوگو مکاں اور ہیں
ستاروں سے آگے جہاں اور ہیں
وہ کہتا تھا تم صقر و شاہین ہو
تو پھر کیوں غلام سلاطین ہو
کہاں فکر عصفور شاہیں کہاں
خدا کا جہاں سب تمہارا جہاں
وہ کرتا تھااس ضرب مومن کی بات
گریں منھ کےبل جس سےلات و منات
روایات شیخ و برہمن سے بیر
وہ من کا مسافر حرم ہو کہ دیر
وہ تن کی رفاقت سے بیزار سا
وہ من کی تمازت سے تلوار سا
وہ دستور منصور و سرمد کا پاس
وہ ملبوسئ فقر سے خوش لباس
سکھائی زمانے کو نکتے کی بات
خودی کیا ہے بیدارئ کائنات
سپر عقل ہے عشق شمشیر ہے
یہ دنیا تو مومن کی جاگیر ہے
کہا جس نے بیباک انداز سے
لڑا دو ممولے کو شہباز سے "
دعا کی کہ اے خالق بحر و بر !
جوانوں کو دے میری آہ سحر
عطا کر انھیں وہ جنون عمل
ہوں شق ان کی ٹھوکر سے دشت و جبل
نظر عشق و مستی میں سرشار کر
خرد کے تماشوں سے بیزار کر
وہ رستہ دکھا ان کو پروردگار
چلے جس پہ تیرے اطاعت شعار
ترا ہو کے رہنے کی توفیق دے
"دل مرتضی سوز صدیق دے”
خدا رحم فرمائے اقبال پر
جو روتا رہا قوم کے حال پر
محبت میں بزمی نے جو کچھ کہا
کہو پیارے بچو وہ کیسا لگا
Title Image Wikipedia
Title Image background by QASIM REHMANI from Pixabay
رحمت عزیز خان چترالی کا تعلق چترال خیبرپختونخوا سے ہے، اردو، کھوار اور انگریزی میں لکھتے ہیں۔ آپ کا اردو ناول ”کافرستان”، اردو سفرنامہ ”ہندوکش سے ہمالیہ تک”، افسانہ ”تلاش” خودنوشت سوانح عمری ”چترال کہانی”، پھوپھوکان اقبال (بچوں کا اقبال) اور فکر اقبال (کھوار) شمالی پاکستان کے اردو منظر نامے میں بڑی اہمیت رکھتے ہیں، کھوار ویکیپیڈیا کے بانی اور منتظم ہیں، آپ پاکستانی اخبارارت، رسائل و جرائد میں حالات حاضرہ، ادب، ثقافت، اقبالیات، قانون، جرائم، انسانی حقوق، نقد و تبصرہ اور بچوں کے ادب پر پر تواتر سے لکھ رہے ہیں، آپ کی شاندار خدمات کے اعتراف میں آپ کو بے شمار ملکی و بین الاقوامی اعزازات، طلائی تمغوں اور اسناد سے نوازا جا چکا ہے۔کھوار زبان سمیت پاکستان کی چالیس سے زائد زبانوں کے لیے ہفت پلیٹ فارمی کلیدی تختیوں کا کیبورڈ سافٹویئر بنا کر عالمی ریکارڈ قائم کرکے پاکستان کا نام عالمی سطح پر روشن کرنے والے پہلے پاکستانی ہیں۔ آپ کی کھوار زبان میں شاعری کا اردو، انگریزی اور گوجری زبان میں تراجم کیے گئے ہیں ۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔