شبیر حسن شبیر کی غزل کا تجزیاتی مطالعہ
شبیر حسن شبیر ایک کہنہ مشق شاعر ہیں اور قریب پچاس سالوں سے 1973 سے شاعری کررہے ہیں اور ان کے کئی شاگرد ہیں آپ اورنگ آباد بہار انڈیا کے رہنے والے ہیں ان کے چار مجموعۂ کلام ( سرمایۂ حیات ،رگ جاں ، بازگشت اور یادوں کے چراغ)منظر عام پر آچکے ہیں اور اہلِ علم کے درمیان قبولیت کی سند حاصل کرچکے ہیں آپ کی ایک نظم "یومِ جمہوریہ”” انڈیا کے بہار سرکار کے چھٹے کلاس کے نصاب میں 1988 سے 2000 تک شامل ہوکر پڑھائی جاتی رہی ہے انہوں نے ہر صنف میں طبع آزمائی کی ہے مگر بنیادی طور پر یہ غزل کے شاعر ہیں انڈیا کے بنگال اردو اکادمی اور بہار اردو اکادمی سے ان کی کتاب پر ایوارڈ بھی مل چکا ہے،انڈیا اور بیرون ممالک کے مختلف رسائل میں ان کے کلام شائع ہوتے رہتے ہیں آپ کئی بزم میں انڈیا اور بین الاقوامی گروپ میں شامل ہیں، ٹی وی، ریڈیو ،اردو ڈائرکٹوریٹ اور آن لائن ذوم پر قومی اور بین الاقوامی مشاعرے میں شامل ہوتے رہتے ہیں گورنمنٹ آف انڈیا کے ادارہ سے لائف اچیومنٹ ایوارڈ بھی مل چکا ہے، آپ گورنمنٹ آف انڈیا کے اوڈٹ ڈپارٹمنٹ سے اوڈٹ آفیسر کے عہدے سے نومبر 2009 میں سبکدوش ہوئے ہیں اور ادب کی خدمت میں لگے ہوئے ہیں۔
اردو کے ممتاز شاعر شبیر حسن شبیر نے ایک ایسی بہترین غزل پیش کی ہے جس میں محبت، چاہت اور خود شناسی کے موضوعات کو شامل کیا گیا ہے۔ شبیر حسن شبیر اپنے اشعار میں شاعرانہ منظر کشی اور استعاراتی زبان کا استعمال کرتے ہوئے انسانی جذبات کے جوہر کو سمیٹتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔
شبیر کی غزل کا مرکزی موضوع محبت کے گرد گھومتا ہوا نظرآتاہے، جس کا اظہار شاعر نے تڑپ، تعریف اور یاد کے ذریعے کیا ہے۔ اپنی محبوب شخصیت کو راحت جان سے تشبیہ دے کر شاعر نے اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے، شاعری کا یہ انداز شاعر کی آرزو کو واضح منظر کشی اور جذباتی شدت سے پیش کرتا ہے۔ غزل جدائی، تقدیر اور محبت کرنے والوں کے درمیان روحانی بندھن کے موضوعات کو بھی چھوتی ہے۔
غزل کی ساخت بہترین ہونے کے ساتھ ساتھ تھیم بھی بہت ہی خوبصورت ہے۔شبیر حسن شبیر غزل کے کلاسیکی ڈھانچے پر قائم رہتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں، ہر مصرعے کے آخر میں ایک مستقل شاعری کی اسکیم اور گریز کا استعمال کرتے ہیں۔ غزل آزاد لیکن باہم جڑے ہوئے اشعار پر مشتمل ہے، ہر ایک مصرع میں شاعر کے جذبات کا ایک پہلو نظر آتا ہے۔ بار بار آنے والا گریز، "راحت جاں کو تو میں راحت جاں کہتا ہوں/تیری تصویر کو دیکھوں تو نشاں کہتا ہوں ” ایک اینکر کے طور پر کام کرتا ہے، جو شاعر کے لگاؤ اور چاہت کو تقویت دیتا ہے۔
غزل جذبات کو ابھارنے اور منظر کشی کے لیے مختلف ادبی آلات کا استعمال کرتی ہے۔ امیجری کو استعاراتی تاثرات کے ذریعے واضح طور پر پیش کیا گیا ہے جیسے ” قافلہ لوٹا جہاں دن کے اجالے میں مرا/ راہبر اس کو ہی تیرا میں جہاں کہتا ہوں "، سفر کے اختتام کی علامت اور کھوئے ہوئے لمحات کی یاد تازہ کرتا ہے۔ شخصیت کا استعمال، جیسا کہ ” رات بھر جاگ کے ٹہلایا مجھے گود لیے/دوستو ایسی محبت کو میں ماں کہتا ہوں” شاعر کے وابستگی کو جذباتی گہرائی فراہم کرتا ہے۔ مزید برآں، علامت "محبت کی دکان” جیسی خطوط میں واضح ہوتی ہے، جو ایک ایسی جگہ کی نشاندہی کرتی ہے جہاں محبت اور جذبات کا تبادلہ ہوتا ہے۔
غزل کے ہر مصرعے میں شاعر ایک الگ جذبات یا خیال سمیٹتا ہوا نظر آتاہے۔ راحت جان کے لیے شاعر کی آرزو واضح ہے کیونکہ وہ اس کی موجودگی کے لیے ترستا ہے اور مشترکہ لمحات کی یاد تازہ کرتا ہے۔ جذبات کا جوڑ قابل ذکر ہے – شاعری محبت اور استعفیٰ دونوں کا اظہار کیا گیا ہے۔ یہ سطریں جیسے ” تم مرے پاس رہو کوئی ضروری تو نہیں / تم مقدر مرا بن جاؤ کہاں کہتا ہوں ” محبوب کے لیے ترستے ہوئے تقدیر کی قبولیت کا احساس دلاتے ہیں۔
"ٹوٹے ہوئے تنکے” اور "مکان” جیسے سادہ لیکن پُرجوش استعاروں کا استعمال شاعر کے عاجزانہ ٹھکانہ اور وجود کی نزاکت کی تصویر کشی کرتا ہے۔ آخری شعر، "تیری فرقت میں گزارا ہے جہاں بھی شبیر/جان لے اس کو محبت کی دکاں کہتا ہوں” جسمانی جدائی سے قطع نظر شاعر کی زندگی پر محبت کے لازوال اثرات کو ظاہر کرتا ہے ۔
راحت جاں کو تو میں راحت جاں کہتا ہوں
تیری تصویر کو دیکھوں تو نشاں کہتا ہوں
شاعر مطلع یعنی پہلے شعر میں یہ کہنا چاہتا ہے کہ جان کی راحت کو میں جان کا سکون کہتا ہوں اور جب تیری تصویر کو دیکھوں تو میں اس کو راحت یا سکون کا نشان کہتا ہوں۔
قافلہ لوٹا جہاں دن کے اجالے میں مرا
راہبر اس کو ہی تیرا میں جہاں کہتا ہوں
راہبر نے راہزن کا کام کیا ہے اس لیے کہ دن کے اجالے میں قافلہ لوٹا ہے اور یہی اس کی دنیا ہے۔
رات بھر جاگ کے ٹہلایا مجھے گود لیے
دوستو ایسی محبت کو میں ماں کہتا ہوں
ایسی ہستی جو رات بھر جاگ کے گود میں لے کر بچے کو ٹہلاتی رہے ایسی ہستی یا محبت کو ماں ہی کہا جاسکتا ہے۔
تم مرے پاس رہو کوئی ضروری تو نہیں
تم مقدر مرا بن جاؤ کہاں کہتا ہوں
محبوب سے کہتا ہے کہ کوئ ضروری نہیں تم مرے پاس رہو لیکن تم مرا مقدر بن جاؤ یہ میں کبھی نہیں کہتا،اس میں محبوب کی بےوفائی کا شکوہ ہے۔
چند ٹوٹے ہوئے تنکے کا سہارا لے کر
میں جہاں رہتا ہوں ہاں اس کو مکاں کہتاہوں
شاعر ٹوٹے پھوٹے تنکوں کو جوڑ کر اپنے رہنے کی جگہ بناتا ہے اور اس کو وہ اپنا مکان کہتا ہے وہ اپنے محبوب سے مخاطب ہو کر کہتا ہے میں تمہارے لۓ محل نہیں بنا سکتا اسی لیے پہلے شعر میں محبوب سے کہتا ہے کہ کوئی ضروری نہیں تم مرے پاس رہو اور میرا مقدر بن جاؤ۔
تیری فرقت میں گزارا ہے جہاں بھی شبیر
جان لے اس کو محبت کی دکاں کہتا ہوں
مقطع میں شاعر کہتا ہے کہ تیری فرقت میں جہاں بھی وقت گزارا ہے وہ میری محبت کی دکاں ہے تم سے مجھے محبت ہے اور تیری جدائی یا فرقت کا احساس ہے مگر تو اتنا بے وفا ہے کہ تجھے اس کا احساس تک نہیں۔
رحمت عزیز خان چترالی کا تعلق چترال خیبرپختونخوا سے ہے، اردو، کھوار اور انگریزی میں لکھتے ہیں۔ آپ کا اردو ناول ”کافرستان”، اردو سفرنامہ ”ہندوکش سے ہمالیہ تک”، افسانہ ”تلاش” خودنوشت سوانح عمری ”چترال کہانی”، پھوپھوکان اقبال (بچوں کا اقبال) اور فکر اقبال (کھوار) شمالی پاکستان کے اردو منظر نامے میں بڑی اہمیت رکھتے ہیں، کھوار ویکیپیڈیا کے بانی اور منتظم ہیں، آپ پاکستانی اخبارارت، رسائل و جرائد میں حالات حاضرہ، ادب، ثقافت، اقبالیات، قانون، جرائم، انسانی حقوق، نقد و تبصرہ اور بچوں کے ادب پر پر تواتر سے لکھ رہے ہیں، آپ کی شاندار خدمات کے اعتراف میں آپ کو بے شمار ملکی و بین الاقوامی اعزازات، طلائی تمغوں اور اسناد سے نوازا جا چکا ہے۔کھوار زبان سمیت پاکستان کی چالیس سے زائد زبانوں کے لیے ہفت پلیٹ فارمی کلیدی تختیوں کا کیبورڈ سافٹویئر بنا کر عالمی ریکارڈ قائم کرکے پاکستان کا نام عالمی سطح پر روشن کرنے والے پہلے پاکستانی ہیں۔ آپ کی کھوار زبان میں شاعری کا اردو، انگریزی اور گوجری زبان میں تراجم کیے گئے ہیں ۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔