باپ کے موضوع پر عاصم بخاری کی شاعری کا تجزیاتی مطالعہ

باپ کے موضوع پر عاصم بخاری کی شاعری کا تجزیاتی مطالعہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تجزیہ کار
مقبول ذکی مقبول بھکر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حسبِ معمول اپنے اس تجزیہ کا آغاز بھی عاصم بخاری کے ہی ایک شعر سے کرنا کی اجازت چاہتا ہوں ۔

٫٫ ماں ،، پہ کہتی ہے شعر ، اک دنیا
شعر میں نے کہے ہیں ،،والد،، پر
عاصم بخاری کثیرالجہات شاعر و ادیب ہیں ۔ ان کی فکر میں اسلامیت ، مشرقیت پاکستانیت اور مقامیت بدرجہ اتم ملتی ہے۔دیگر موضوعات کی طرح اس موضوع پر بھی ان کا مطالعہ و مشاہدہ عمیق ہے ۔ اسلام کےمطابق ماں کی عظمت و مرتبت کے ساتھ ساتھ باپ کے موضوع پر اتنے اشعار کہہ کر اپنی انفرادیت منوا لی ہے اور یہ ثابت کر دیا ہے کہ ہم اس سے بچ کے چلتے ہیں جو رستہ عام ہو جائے ۔
عام مشاہدہ کی بات ہے کہ معاشرتی تضاد ہمارے متوسط طبقے میں کتنا پایا جاتا ہےکہ ماں جس اولاد پر اپنا تن من دھن سب قربان کرکے انھیں دنیاوی منازل پر پہچاتے ہیں مگر شاعر نے لفظی مہارت سے لفظ بے کار کے ذریعے طنز کی چوٹ بھی کی ہے اور ذو معنویت کے ذریعے شعر کو مزید کاٹ دار بنایا ہے اور یہ حقیقت بھی ہے کہ کاروں کوٹھیوں والے بیٹے والدین کے کام نہیں آتے بلکہ بے کار۔۔۔۔یعنی وہ بیٹے جن کے پاس کاریں نہیں ہوتیں والدین کے کام آتے ہیں جوکہ عین حقیقت ہے۔
شعر
کار والوں کی تو قسمت میں سعادت یہ نہ تھی
کام آیا باپ کے بے کار بیٹا ہی فقط

ایک اور شعر اسی مزاج کا ملاحظہ فرمائیں ۔
کام آتے ہیں باپ ، کے ماں کے
جتنے ٫٫ بے کار ،، لوگ ہوتے ہیں
اللّٰہ تعالیٰ نے اپنی کتاب ِ مقدس میں والدین کے مقام و مرتبہ اور درجہ و منزلت کے بارے کافی مقامات پر جھنجھوڑ کر خبردار کیا ہے۔اسی مفہوم کا احاطہ کرتا عاصم بخاری کا سہل ِ ممتنع کی مثال شعر۔۔۔
حق میں اولاد کے بخاری جی
رد ، دعا باپ کی ، نہیں ہوتی
عاصم بخاری کے ہاں پائی جانے والی اس موضوع کی شاعری پر اسلامیت و مشرقیت کا غلبہ دکھائی دیتا ہے۔اور باپ کی عظمت کا جابجا برملا اعتراف ، حالاں کہ ہمارے ہاں شعرا کی روایت اس کے برعکس ہے وہ زیادہ تر جنت ماں کے قدمومں تلے "کو موضوع بناتے ہیں مگر بخاری کا امیتیاز یہ ہے کہ اس نے ماں کے ساتھ ساتھ باپ کو بھی کثرت سے موضوعِ شعر بنایا ہے ۔ قرآنی تعلیمات کی روشنی میں سادگی و روانی کی مثال شعر دیکھیں

حجِ مقبول کا، ثواب ہے یہ
٫٫ باپ ،، کو دیکھنا محبت سے

ان ہی قرآنی تعلیمات کی ترجمانی کرتا والد کی عظمت و منزلت کا احاطہ کرتا ایک اور خوب صورت سلاست سے بھرپور شعر قارئین کی نذر کرتا چلوں

جس کو جنت کی ہو طلب عاصم
پیار سے دیکھے باپ کا چہرہ
عاصم بخاری کی شعر گوئی کی ایک خوب صورتی یہ بھی ہے کہ ان کے ہاں یک رخی نہیں پائی جاتی ۔مختلف زاویوں سے موضوع کو لیتے ہیں اور خوب نبھاتے ہیں ۔ اسی موضوع کو اب ایک اور انداز کس کرب ناک کیفیت کو سامنے لاتے ہیں۔جو کہ ہمارے معاشرے کی حقیقی تصویر ہے شعر دل دہلا دینے والا ہے یہ شعر عاصم بخاری کا تعارف اور نمائندہ شعر بھی کہوں تو بے جا نہ ہو گا۔
شعر دیکھیے
بچوں کو پالیں یا کہ بڑھاپے میں آپ کو
بیٹوں نے مل کے گھر سے نکالا ہے باپ کو

 عاصم بخاری کی شاعری میں متعدد ایسے ضرب المثل شعر پڑھنے کو ملتے ہیں جن سے ان کے جہاں دیدہ اور بیدار مغز شاعر ہونے کاثبوت ملتا ہے۔

اسی عظمتوں کے مالک کی کی کس مپرسی اور بے بسی ولاچاری کا ایک عالم انھوں نے ایک قطعہ کی صورت میں کیا کمال قدرت سے پیش کیا ہے
قطعہ ملاحظہ ہو
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دور ہے گھر یہاں سے بیٹی کا
جان کی گر امان میں پاؤں
پوچھتا ہے یہ باپ بیٹے سے
ہو اجازت تو شب ٹھہر جاؤں

وہی باپ جو کل تک گھر کا مالک تھا آج لرزتے ہونٹوں سے جان کی امان پاتے ہوئے اپنے بیٹے سے شب بسری کے لیے جائے پناہ کی درخواست کر رہا ہے۔یہ دیو مالائی یا کسی اور مخلوق کی تصویر کشی نہیں بلکہ ہمارے ہی سماج کی تصویریں بڑے ہی ہمدردانہ انداز میں پیش کی گئی ہیں جو کہ ہمیں قدم قدم پر دعوت ِ فکر دے رہی ہیں۔
عاصم بخاری پورے اعتماد اور یقین کے ساتھ اس موضوع کو لے کر بھر پور نبھاتے دکھائی دیتے ہیں۔اور انہیں اپنے موضوع کی اہمیت کا بخوبی ادراک ہے۔ شعر دیکھیں

تمہیں ممتاز کرتی شاعروں میں
یہ پدری شاعری عاصم تمہاری
عاصم بخاری کے ذہن پر اسلامی نقوش گہرے ملتے ہیں ان کی سوچ میں اسلامیت قرآن اور مشرقیت لاشعوری طور پر چھلکتی اور جھلکتی ہے۔
ایک ثلاثی دیکھیں۔

یہ بھی فرما رہا ہے رب میرا
اپنی ہے اسکی منزلت عاصم
باپ کا احترام لازم ہے

آخر میں بخاری نے ہمارے مغربی نظام پر کامیاب چوٹ کی ہے۔
ویسے حیرت تو اس پہ بنتی ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ویسے حیرت تو اس پہ بنتی ہے
آپ ناراض ہو نہ جائیں تو
اہلِ مغرب کے ہی بتانے پر
باپ کا یوم ہم منائیں تو

  عاصم بخاری کے ہاں نظیر اکبر آبادی اور اکبر الہ آبادی کے مزاج کی جھلک بھی کہیں کہیں دکھائی دیتی ہے۔ یوم ِ والد یعنی ٫٫ فادر ڈے ،، کے حوالے سے مشرقیت و اسلامیت کا حامل ان کا ایک فکر انگیز قطعہ ملاحظہ ہو۔

٫٫ یوم ِ فادر ،، رواج مغرب کا
ایسا مشرق میں تو نہیں ہوتادین ِ فطرت میں سارے دن اس کے
باپ کا ایک دن نہیں ہوتا

دین ِ فطرت میں ہمہ اوقات والد کا خیال از حد لازم ہے۔
آخر میں سوشل میڈیا کے دور پر والد کی نظر سے طنز کرتے ہوئے کہتے کہ دنیا کی حد تک ہی سہی سوشل میڈیا پر میری برسی اگر رسمی انداز میں منا لینے پر بھی میں تمہارا شکرگزار رہوں گا۔معاشرتی رویوں پر گہرا طنز ہے ۔ اصلاح ِ احوال کی اشد ضرورت ہے ۔نظم ملاحظہ ہو ۔
نظم
٫٫ فادر ڈے ،،
مشکل ہو گا مانا لیکن
اتنا کرنا میرے بیٹو
اس دنیا سے میرےرخصت
ہو جانے پر کم سے کم تم
فادر ڈے جب بھی آئے تو
اچھا سا اک فوٹو میرا
ممکن ہوتو میرے بچو
والد پر یہ احساں کرنا
اپنا موبائل پر لانا
ڈی پی شی پی کی صورت میں
زندہ رکھنا احساں ہوگا
مِنت ہو گی میری تم سے

  عاصم بخاری کے ہی ایک شعر کےساتھ اپنے تبصرہ کا اختتام چاہوں گا۔

٫٫ باپ ،، کے بارے ڈاکٹر، بولا
کیا دیا باپ نے، بھلا ہم کو

Title Image by Kathrynne from Pixabay

تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

streamyard

Next Post

حسینہ واجد کا آئینہ خانہ

جمعرات اگست 8 , 2024
یہ "آئینہ گھر" دراصل اس کے سیاسی مخالفین کے لیئے خوف کا گڑھ تھا۔ یہاں سیاسی قیدیوں کو سخت اذیت ناک سزائیں دی جاتی تھیں
حسینہ واجد کا آئینہ خانہ

مزید دلچسپ تحریریں