عبدالباسط خان کی نظم "عید” کا تجزیاتی مطالعہ
ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی*
عبدالباسط خان ایک تخلیقی مزاج کے حامل ادیب، شاعر اور سیاحت کے شوقین ہیں۔ آپ دو کتابیں لکھ چکے ہیں، جن میں سفرنامہ، خودنوشت اور ناول شامل ہیں۔ آپ کے مضامین معروف اخبار روزنامہ ایکسپریس میں بھی شائع ہو چکے ہیں، خصوصاً رمضان المبارک کے دوران آپ کی تحریریں قارئین میں مقبول ہوئیں۔
پیشہ ورانہ طور پر آپ ایک پرائیویٹ جاب سے وابستہ ہیں، لیکن ادب اور شاعری سے آپ کا تعلق کسی رسمی حد بندی کا محتاج نہیں۔ آپ کا طرزِ تحریر گہری فکر، مشاہدے اور جذبات کا حسین امتزاج پیش کرتا ہے۔
آپ کو شاعری سے خاص لگاؤ ہے اور آپ کی تحریریں محبت، زندگی، سماجی مسائل اور فلسفہ پر مبنی ہوتی ہیں۔ سیاحت بھی آپ کے شوق میں شامل ہے اور آپ نے مختلف علاقوں کا سفر کیا، جن کے تجربات کو آپ اپنے منفرد انداز میں تحریری شکل دیتے ہیں۔
عید کی مناسبت سے ان کی نظم "عید” کافی مقبول ہوئی ہے۔ عبدالباسط خان کہتے ہیں کہ "عید: میں خود سے، اپنوں سے، خوشیوں سے ملنا چاہتا ہوں”. یہ نظم عبدالباسط خان کی تخلیقی صلاحیتوں اور ان کے جذباتی اظہار کی ایک عمدہ مثال ہے جس میں شاعر نے جدید دور کے سماجی اور ثقافتی مسائل کو گہرائی سے بیان کرنے کی کوشش کی ہے۔
نظم کا مرکزی موضوع عید کی حقیقی خوشیوں کی تلاش ہے جو جدید دور میں موبائل فونز، سوشل میڈیا، اور مصروفیات کے سبب کہیں کھو گئی ہے۔ شاعر نے مختلف کرداروں (اپنے آپ، دوستوں، رشتہ داروں، بیوی، بچوں) کے ساتھ ملاقات کی خواہش کا دلی اظہار کیا ہے۔ ہر کردار سے جڑنے کی خواہش محبت، خلوص اور سادگی کی علامت ہے۔
عبدالباسط خان کی شعری تکنیک بھی منفرد ہے۔ شاعر نے ہر بند کی ابتدا ‘میں اس عید پر’ سے کی ہے جو ایک تکراری تکنیک ہے اور اس کے ذریعے نظم کو ایک خوبصورت تسلسل اور روانی حاصل ہوئی ہے۔
شاعر نے پرانی اور موجودہ عیدوں کا تقابلی جائزہ لیا ہے، جس سے جدید دور کی کھوکھلی خوشیوں کا احساس نمایاں ہوتا ہے۔
شاعر نے موبائل فون کو موجودہ دور کی عید کی نمائندگی دی ہے، جبکہ پرانی عید کو محبت، اپنائیت اور سادگی کی علامت کے طور پر پیش کیا ہے۔
شاعر نے سوالات کے ذریعے قاری کو سوچنے پر مجبور کیا ہے کہ کیا عید کی خوشیوں کو صرف سکرین پر محسوس کرنا کافی ہے؟ یہ سوالات نظم کی اثر انگیزی میں اضافہ کرتے ہیں۔
نظم کا اختتام شاعر کی خواہش پر ہوتا ہے کہ حکومت موبائل سروسز بند کر دے تاکہ حقیقی خوشیوں کا حصول ممکن ہو سکے۔ یہ اختتام نظم کی جذباتی گہرائی کو مزید بڑھاتا ہے۔
عبدالباسط خان کی یہ نظم جدید دور کے انسان کی زندگی میں سوشل میڈیا اور موبائل فون کی بڑھتی ہوئی مداخلت کو سامنے لاتی ہے۔ شاعر نے انتہائی مؤثر طریقے سے یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ کیسے عید جیسا مقدس اور خوشی کا دن بھی مصنوعی روابط اور سکرینوں کی نذر ہو چکا ہے۔
شاعر نے اپنے خیالات کو سیدھے سادے اور دلنشین انداز میں پیش کیا ہے، جس سے قاری کے دل میں اثر کرنے کی صلاحیت بڑھ جاتی ہے۔ تاہم نظم میں تنقید کے ساتھ ساتھ محبت، اپنائیت اور خلوص کی دعوت بھی موجود ہے جو اسے ایک مثبت پیغام دینے والی نظم بناتی ہے۔
عبدالباسط خان کی نظم "عید: میں خود سے، اپنوں سے، خوشیوں سے ملنا چاہتا ہوں” جدید دور کی تلخ حقیقتوں کی عکاسی کرتی ہے۔ شاعر نے محبت، تعلقات اور اصل خوشیوں کی اہمیت کو اجاگر کیا ہے۔ نظم میں شاعر نے ایک سماجی پیغام بھی دیا ہے کہ ہمیں اپنے پیاروں کے ساتھ حقیقی روابط قائم کرنے کی کوشش کرنی چاہیے نہ کہ صرف سوشل میڈیا کے ذریعے عید کی خوشیاں منانی چاہئیے۔ اہل ذوق قارئین کے مطالعے کے لیے عبدالباسط خان کی نظم پیش خدمت ہے۔
*
عید
*
عید: میں خود سے، اپنوں سے، خوشیوں سے ملنا چاہتا ہوں
اس عید پر میں خود اپنے آپ سے ملنا چاہتا ہوں،
وہ جو کہیں کھو گیا تھا،
زندگی کی بھیڑ میں،
وقت کے ہجوم میں،
کسی موبائل کی سکرین میں…
میں اس عید پر اپنے دوستوں سے ملنا چاہتا ہوں،
نہ کہ صرف ایک میسج بھیج کر،
نہ کہ بس ایک "عید مبارک” کے ایموجی کے ساتھ،
بلکہ جا کر،
گلے لگا کر،
ہاتھ ملا کر،
آنکھوں میں خوشی دیکھ کر!
میں اس عید پر اپنے رشتہ داروں سے ملنا چاہتا ہوں،
جو کبھی عید کی صبح گلے لگاتے تھے،
جو ہاتھ سے سویّاں کھلاتے تھے،
جو دعائیں دیتے تھے،
اور جن کی ہنسی ہر خوشی کا سنگیت ہوا کرتی تھی۔
میں اس عید پر اپنی بیگم سے ملنا چاہتا ہوں،
نہ کہ سوشل میڈیا پر کسی "پرفیکٹ کپل” کی تصویر دیکھ کر،
بلکہ اس کی آنکھوں میں محبت کے وہ رنگ دیکھ کر،
جو ہمیشہ میرے لیے محفوظ رہے،
پر میں کبھی غور نہ کر سکا۔
میں اس عید پر اپنے بچوں سے ملنا چاہتا ہوں،
ان کے ساتھ بیٹھ کر،
ان کی خوشیوں میں شریک ہو کر،
ان کی معصوم مسکراہٹوں میں اپنی عید تلاش کر کے۔
میں اس عید پر اپنے والدین کے پاس بیٹھنا چاہتا ہوں،
اپنی ساری توجہ کے ساتھ،
نہ کسی میسج کی فکر ہو،
نہ کوئی فالتو ویڈیو دیکھنے کی طلب،
نہ فیس بک کی سرچنگ کا جنون،
بس میں اور میرے والدین،
اور ان کے بچپن کی عیدوں کی کہانیاں،
جب عیدی کے چند سکے جیب میں رکھ کر دنیا کی خوشی محسوس ہوتی تھی،
جب دس روپے، بیس روپے، زیادہ سے زیادہ پچاس یا سو روپے کی عیدی ملتی تھی،
لیکن وہ نوٹ ہاتھ میں آتے ہی لگتا تھا جیسے پوری دنیا اپنی ہو گئی ہو!
جب عید کی نماز کے بعد میٹھے پکوانوں کی خوشبو ہر طرف پھیلی ہوتی تھی،
جب نئے جوتے پہن کر محلے بھر میں فخر سے چلا جاتا تھا۔
اور اب؟
اب عیدی ہزاروں میں بھی ملتی ہے،
مگر وہ خوشی نہیں ملتی،
وہ جوش، وہ بے خودی، وہ سادگی نہیں رہی،
اب بچے بھی نوٹ گن کر فیصلہ کرتے ہیں کہ عید اچھی تھی یا نہیں!
میں اس عید کو خوشیوں سے ملانا چاہتا ہوں،
وہ خوشیاں جو بچپن میں ہوتی تھیں،
جب عید کا مطلب نئے کپڑے،
میٹھے پکوان،
محلے میں دوڑتے قدم،
اور اپنوں کے درمیان بے ساختہ قہقہے ہوا کرتے تھے۔
پر اب؟
اب عید کا مطلب؟
ایک سکرین، ایک پیغام، ایک سٹیٹس اپڈیٹ؟
کیا یہی کافی ہے؟
کیا یہی عید رہ گئی ہے؟
کاش،
کاش حکومت عید پر موبائل سروسز بند کر دے،
تاکہ ہم اس پرانی عید کو واپس پا سکیں،
جو موبائل کے سگنلز میں کہیں کھو گئی ہے،
جو ایک وائی فائی کنکشن میں محدود ہو چکی ہے،
تاکہ ہم پھر سے ایک دوسرے کے ساتھ جڑ سکیں،
نہ کہ صرف ایک نیٹ ورک کے ذریعے،
بلکہ دل سے،
روح سے،
محبت سے!
Title Image by Gaby Stein from Pixabay
رحمت عزیز خان چترالی کا تعلق چترال خیبرپختونخوا سے ہے، اردو، کھوار اور انگریزی میں لکھتے ہیں۔ آپ کا اردو ناول ”کافرستان”، اردو سفرنامہ ”ہندوکش سے ہمالیہ تک”، افسانہ ”تلاش” خودنوشت سوانح عمری ”چترال کہانی”، پھوپھوکان اقبال (بچوں کا اقبال) اور فکر اقبال (کھوار) شمالی پاکستان کے اردو منظر نامے میں بڑی اہمیت رکھتے ہیں، کھوار ویکیپیڈیا کے بانی اور منتظم ہیں، آپ پاکستانی اخبارارت، رسائل و جرائد میں حالات حاضرہ، ادب، ثقافت، اقبالیات، قانون، جرائم، انسانی حقوق، نقد و تبصرہ اور بچوں کے ادب پر پر تواتر سے لکھ رہے ہیں، آپ کی شاندار خدمات کے اعتراف میں آپ کو بے شمار ملکی و بین الاقوامی اعزازات، طلائی تمغوں اور اسناد سے نوازا جا چکا ہے۔کھوار زبان سمیت پاکستان کی چالیس سے زائد زبانوں کے لیے ہفت پلیٹ فارمی کلیدی تختیوں کا کیبورڈ سافٹویئر بنا کر عالمی ریکارڈ قائم کرکے پاکستان کا نام عالمی سطح پر روشن کرنے والے پہلے پاکستانی ہیں۔ آپ کی کھوار زبان میں شاعری کا اردو، انگریزی اور گوجری زبان میں تراجم کیے گئے ہیں ۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
کیا آپ بھی لکھاری ہیں؟اپنی تحریریں ہمیں بھیجیں، ہم نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ |