انچاس ( 49 ) سالہ مختصر زندگی میں شہرت کی بلندیوں تک پہنچنے والے عامر لیاقت کی زندگی پر ایک طائرانہ نظر )
تحقیق و تحریر :
سیّدزادہ سخاوت بخاری
عامر لیاقت نے جب لودھراں کی نوخیز حسینہ دانیہ ملک سے اپنا تیسرا بیاہ رچایا تو اس پر آوازے کسے گئے ، اعتراضات اٹھائے گئے ، طرح طرح کی باتیں ہوئیں لیکن اس نے ہار نہ مانی بلکہ ٹک ٹوک پر اپنی نئی دلہن کو پہلو میں بٹھاکر ایک ویڈیو پیغام میں کہا ،
” جیو تو عامر لیاقت کی طرح "
اس کی یہ اداء دیکھ کر مجھے
کے آصف کی فلم مغل اعظم کے لئے شکیل بدایونی کا لکھا ، موسیقار اعظم نوشاد کی موسیقی سے مزین ، لتا منگیشکر کی مدھر آواز میں گایا ہوا وہ نغمہ یاد آگیا جسے مدھو بالا ( انارکلی ) پر شہزادہ سلیم ( دلیپ کمار ) کے لئے فلمایا گیا ۔ گانے کے بول تھے ،
جب پیار کیا تو ڈرنا کیا
پیار کیا کوئی چوری نہیں کی
گھٹ گھٹ کر یوں مرنا کیا
پیار کیا تو ڈرنا کیا
فلم مغل اعظم کی کہانی مغلیہ سلطنت کے تیسرے شہنشاہ جلال الدین اکبر اور اس کے صاحبزادے شہزادہ سلیم کے گرد گھومتی ہے ۔ اکبر بادشاہ کو ان کے پچاس سالہ طویل ، رنگین اور انوکھے دور کی بناء پر مغل اعظم کا خطاب ملا ۔ تاریخ سے دلچسپی رکھنے والوں کے لئے بتاتا چلوں کہ اترپردیش ( UP ) کے شہر آگرہ کو اکثر لوگ صرف تاج محل کی وجہ سے جانتے ہیں جبکہ اس سے قبل ، اکبر نے دلی کی بجائے آگرہ کو اکبرآباد کا نام دے کر اپنا دارالحکومت بنایا ۔ وہاں دلی کے لال قلعے سے بڑا لال قلعہ اور کئی عمارات تعمیر کرائیں اور یہ بھی جان لیجئے کہ اکبر کی آخری آرام گاہ بھی آگرہ کے قریب سکندرا کے مقام پر ہے ۔
آگرہ کی تاریخ بڑی دلچسپ ہے ۔ بادشاھوں ، سیاست دانوں ،حکیموں ، علماء ، ادباء ، شعراء اور دانشوروں کی اسی سرزمین سے تقسیم ہند کے وقت اٹھ کر پاکستان آنیوالوں میں جہاں ایم کیو ایم کے بانی الطاف حسین کا خاندان شامل ہے وہیں اس کاروان میں عامر لیاقت حسین کے والدین بھی شامل تھے ۔
عامر کے والد شیخ لیاقت حسین 1929 کو اسی آگرہ میں پیدا ہوئے اور تقسیم کے بعد ہجرت کرکے کراچی آگئے ۔ عامر کی والدہ کا نام غوثیہ محمودہ سلطانہ تھا ۔ وہ ایک معروف ادیبہ اور کالم نگار تھیں ۔ شیخ لیاقت حسین ایم کیو ایم کی ٹکٹ پر ممبر قومی اسمبلی منتخب ہوئے اور 2009 میں وفات پاگئے ۔
ان ہی شیخ لیاقت حسین کے ہاں 5 جولائی 1971 کو عامر نے جنم لیا جو بعد از آں ڈاکٹر عامر لیاقت حسین کے نام سے شہرت کی بلندیوں تک جاپہنچا ۔
عامر لیاقت نے اپنے ایک انٹرویو میں بتایا کہ انہوں نے لیاقت میڈیکل کالج جامشورو سے ایم بی بی ایس اور سرجری میں ڈگری حاصل کی ۔ اس کے علاوہ وہ اسپین کی ایک یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی سند حاصل کرنے کا دعوی بھی رکھتے تھے لیکن ایک موقع پر HEC یا ہائر ایجوکیشن کمیشن نے ان کی بی اے کی سند کو جعلی قرار دے دیا ۔
وہ اپنے والد کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ایم کیو ایم کے رکن بنے اور پرویز مشرف کے دور میں قومی اسمبلی سے ہوتے ہوئے شوکت عزیز کی کابینہ میں وزیرمملکت برائے مذہبی امور کے عہدے تک جا پہنچے ۔ بعد ازآں پارٹی کے حکم پر وزارت سے مستعفی ہوگئے ۔ یہی نہیں بلکہ انہیں ایم کیو ایم سے بھی نکال دیا گیا ۔
اللہ نے انہیں بے پناہ صلاحیتوں سے نوازا تھا ۔ وہ ایک بہترین مقرر ، کمپیئر ، ٹی وی شو میزبان اور ایکٹر ہونے کے ساتھ ساتھ دینی معلومات کا چلتا پھرتا انسائیکلوپیڈیا بھی تھے ۔ انہوں نے پی ٹی وی ، جیو ، بول اور اے آر وائی پر اپنی صلاحیتوں کا بھرپور مظاھرہ کیا اور داد حاصل کی لیکن کئی مواقع پر ان کی غیر ضروری اور اختلافی باتیں انہیں آسمان سے زمین پر لے آئیں ۔
2018 میں انہوں نے تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کی اور کراچی ایسٹ سے ممبر قومی اسمبلی منتخب ہوئے مگر عمران خان سے اختلاف کی بناء پر اسمبلی سے استعفی دیدیا ۔
عامر لیاقت حسین نے 3 شادیاں کیں ۔ پہلی شادی بشری اقبال سے ، دوسری طوبی عامر اور تیسری حال ہی میں دانیہ ملک سے ہوئی مگر سب کی سب ناکام ہوئیں اور شاید اسی صدمے نے ان کو زندگی سے مایوس کردیا ۔
عامر لیاقت حسین کئی دیگر جوانمرگ فنکاروں ، شاعروں ، ادیبوں اور اداکاروں کی طرح آیا اور چلا گیا ۔ چند کتابیں بھی تحریر کیں ۔ پسماندگان میں ایک بیٹی دعاء عامر اور بیٹا احمد شامل ہے ۔
اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ
سیّدزادہ سخاوت بخاری
مسقط، سلطنت عمان
شاعر،ادیب،مقرر شعلہ بیاں،سماجی کارکن اور دوستوں کا دوست
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔