راقم – شاندار بخاری
مقیم مسقط
سلطنت عُمان میں حال ہی میں تعینات ہونے والے پاکستانی سفیر عزت مآب جناب عمران علی چوہدری صاحب سے میری پہلی ملاقات 15 فروری 2022 بروز منگل وینڈیم گارڈن ہوٹل میں ہوئی جہاں میرے بھائیوں جیسے پیارے دوست عزیزم قمر ریاض نے سفیر صاحب کے مہمان اور پاکستان سے آئی ادبی شخصیت پروفیسر توفیق بٹ صاحب کے اعزاز میں ایک ادبی محفل کا اہتمام کیا تھا جس میں مجھے بھی بطور دست راست مدعو کیا گیا تھا ۔
دعوت نامہ پر پروگرام کا وقت 7 بجے کا لکھا تھا اور میرا دفتر چونکہ شہر سے باہر تقریبا 45 منٹ کی مسافت پر ہے اور 6 بجے چھٹی ہوتی ہے تو واجبات سے فارغ ہو کر جلدی جلدی تقریب میں شرکت کیلئیے روانہ ہو گیا کہ کہیں پہنچنے میں تاخیر نا ہو جائے لیکن شو مئی قسمت کے راستے میں ایک مقام پر کافی بھیڑ کا سامنا کرنا پڑا ابھی اس محاذ سے نمٹا ہی تھا کہ گاڑی کی تیل کی بتی روشن ہو گئی خیر اب اس مرحلہ کو بھی عبور کر کے جب میں ہال میں پہنچا تو پتا چلا کہ مہمانوں کو وقت پر اکٹھا کرنے کیلئیے یہ 7 بجے کا جال بچھایا گیا تھا ۔
عزیزم قمر ریاض جو کہ خود ایک مشہور ادبی اور سماجی شخصیت ہیں اور ان کو حال ہی مین گورنر پنجاب چوہدری سرور صاحب نے ‘ ایکسٹرا آرڈنری سیٹیزن ‘ کے ایوارد سے نوازا ہے انہوں نے پرتپاک استقبال کیا اور مجھے ایک نہیں بلکہ دو گلدستے پیش کئیے میں ابھی الفاظ تلاش کر ہی رہا تھا کہ اتنی محبت کیسے سمیٹوں قمر نے اپنائیت سے کہا یار جلدی آنا تھا یہ لو گلدستے اور جو مہمان آہیں انہیں پیش کرنا خیر یہ بھی محبت کا ایک انداز ہے ، وہاں موجود دوستوں سے ملاقات ہوئی اور مہمانوں کے آنے کا سلسلہ شروع ہو گیا اور ایک ایک کر کے مہمانوں کی آمد کا تانتا بندھ گیا ، کرونا کی وجہ سے کافی عرصہ کے بعد ایسی محفل کا انعقاد کیا گیا تھا اور کئی لوگوں سے کافی عرصہ کے بعد ملاقات ہوئی جس کی بہت خوشی بھی ہو رہی تھی مجھے کبھی مہمانوں کو ان کی نشستوں پر بٹھانے ہال کے اندر جانا پڑتا کبھی مہمانوں کو خوش آمدید کہنے باہر آنا پڑتا اور میں دل ہی دل میں اسی شش و پنج میں تھا کہ کہیں سفیر صاحب کی آمد نا ہو جائے اور مجھے جو گلدستہ انہیں پیش کرنے کی ذمہ داری دی گئی تھی وہ نہ رہ جائے اسی اثناء میں باہر آتے ہی لفٹ کا دروازہ کھلا اور اس میں سے ایک تروتازہ گلاب جیسا مسکراتا ہوا شخص باہر نکلا جس نے مجھے ملتے ہی ایسے مخاطب کیا جیسے برسوں کی بے تکلف آشنائی ہو اور ہاتھ ملاتے ہوئے میری لال بَو ٹائی کی تعریف کی اور ساتھ ہی میں گلدستے کیلئیے لپکا ہی تھا کہ انہوں نے کہا آپ سب کی یہاں موجودگی ہی اصل گلدستہ ہے اور ہال میں داخل ہو گئے ۔
تقریب کی صدارت قمر ریاض نے کی اور باقاعدہ کاروائی غلام مرتضی قادری صاحب کی پرسوز آواز میں کلام ربانی اور مدح رسول ﷺ سے کیا گیا اس کے بعد شعر و شاعری کے دور کا آغاز ہوا جس میں راقم کے والد سیّد زادہ سخاوت علی شاہ کے علاوہ پنجابی کے مشہور شاعر محمد علی فضل اور اردو میں عمران اسعد نے اپنے شعر پیش کی اور بے پناہ داد وصول کی ۔ اس کے بعد ہم نے مہمان اعزاز جناب توفیق بٹ صاحب کو سنا اور ان کے مدھم انداز میں گفتگو اور زندگی کے تجربات سے سبق آموز واقعات سنے جس کا اپنا ہی مزا تھا ۔
آخر میں مہمان خصوصی اور شمع محفل سفیر پاکستان عزت ماب جناب عمران علی چوہدری صاحب کو خطاب کیلئیے بلایا گیا اور ان کے منفرد انداز گفتگو جس میں انہوں نے تمام حاضرین محفل اور شرکاء یہاں تک کہ ہر شاعر کو اس کے مقبول شعر سنا کر مخاطب کیا جس سے تمام سامعین اور حاضرین محفل پر ایک سحر سا طاری ہو گیا اور ان کی حس مزاح کا تو جواب نہیں بظاہر سادہ لباس میں ملبوس عمران علی چوہدری صاحب کی شخصیت کی جازبیت ایسی ہی کہ ان سے بات کر کے یوں لگتا ہے جیسے وقت رک گیا ہو اور اس وقت کی قید سے نکل کر ان کے ساتھ کہکشاوں میں بسنے والے کسی اور عالم کی سیر کو نکل گہے ہوں لیکن اس مسحور کن گفتگو کیساتھ ساتھ جو انہوں نے عمان آتے ہی کمیونٹی کی سہولت کیلئیے تمام اہم شعبوں کے واٹسآپ نمبر کا اجراء کیا ہے اس سے دور دراز علاقوں میں بسنے والے ہم وطنوں کو سفری پریشانیوں سے نجات ملے گی اور اپنے گھر اور اپنے علاقے سے مطلوبہ معلومات حاصل کر سکیں گے ۔ اب بظاہر تو یہ ایک چھوٹا سا کام ہے آج کل کے اس ٹیکنالوجی کے دور میں واٹسآپ کا نمبر جاری کرنا کون سا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے لیکن یہ چھوٹا کام یہ رابطہ کروانا یہ کنکٹ ایک اتنی بڑی سہولت ہے جس کا کوئ بدل نہیں یہاں مجھے اشفاق احمد مرحوم کے پروگرام زاویہ میں کہی ایک بات یاد آ گئی جس میں وہ بتاتے ہیں کہ میں اپنے پیر اپنے بابا کے پاس گیا اور ان سے کہا کے مجھے کوئی بات سکھائیں تو بابا جی نے فرمایا کہ سوئی میں دھاگہ ڈالنا سیکھو ۔ اب یہ بڑا مشکل کام ہے ۔ میں کبھی ایک آنکھ بند کرتا اور کبھی دوسری آنکھ کانی کرتا ، لیکن اس میں دھاگہ نہیں ڈلتا تھا ۔ خیر ! میں نےان سے کہا کہ اچھا جی دھاگہ ڈال لیا اس کا فائدہ ؟ کہنے لگے اس کا یہ فائدہ ہے کہ اب تم کسی کا پھٹا ہوا کپڑا کسی کی پھٹی ہوئی پگڑی سی سکتے ہو ۔ جب تک تمہیں لباس سینے کا فن نہیں آئے گا تم انسانوں کو کیسے سیئو گے ۔ تم تو ایسے ہی رہو گے ، جیسے لوگ تقریریں کرتے ہیں ۔ بندہ تو بندے کے ساتھ جڑے گا ہی نہیں ۔ یہ سوئی دھاگہ کا فن آنا چاہیے ۔ ہماری مائیں ، بہنیں ، بیبیاں جو لوگوں کو جوڑے رکھتی تھیں وہ یہ چھوٹے چھوٹے کاموں سے کرتیں تھیں تو بظاہر یہ چھوٹا سا کام بہت بڑا کام ہے اور کیوں نا ہو سفیر صاحب کا جیسا نام ویسے ان کے کام بھی ہیں کہتے ہیں نام کا شخصیت پر بہت گہرا اثر ہوتا ہے اور ان کے نام کی مطابقت سے قرآن مجید میں سورہ آل عمران کی ایک آیت ( نمبر 4) میں ایک عبارت ( هُدًى لِّلنَّاسِ ) کا مفہوم میرے ذہن سے گزرا جس کے معنی ہیں ‘ لوگوں کے لیے راہ نما ہیں ‘ اور سفیر پاکستان واقعی اس ترجمہ پر پورا اترتے ہیں عوام الناس کی فلاح اور ان کیلئیے آسانیاں ڈھونڈنا اور تقسیم کرنے کا فن وہ بخوبی جانتے ہیں یہاں انہوں نے کمیونٹی کو آپسی رنجشوں سے بالا تر ہو کر آپس میں مل کر ایک ہو کر کام کرنے کرنے کی تلقین کی جو کہ ایک خوش آہیند اقدام ہے اور ایک ہونے اور جڑے رہنے میں ہی بقاء ہے
‘موج ہے دریا میں بیرون دریا کچھ نہیں ‘
( 18 فروری 2022 بروز جمعہ )
شاندار بخاری
مدیر سلطنت عمان
مسقط، سلطنت عمان
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔