تتلی بھنورے سے کہتی تھی
آو باغ میں ہم چلتے ہیں
ننھے منے پھولوں سے ہم
جا کر باتیں اب کرتے ہیں
دونوں باغ میں جب جائیں ہم
کیاری کیاری میں پھولوں سے
اچھی اچھی باتیں کر کے
اپنے دل کو بہلاتے ہیں
تتلی کی یہ باتیں سن کر
بھنورے کا دل پھولوں سے
باتیں کرنے کو للچایا
دونوں مل کر باغ کو نکلے
اڑتے اڑتے باغ میں پہنچے
اچھے اچھے پھول جو دیکھے
تتلی نے اک پھول سے پوچھا
تیری خوشبو کیوں ہے پیاری
پھول یہ ہنس کر کہنے لگا
راز میں تم کو بتلاتا ہوں
ساری بات یہ سمجھاتا ہوں
اک دن بلبل نے بچوں کو
میری شاخ پہ چھوڑا تھا
کہہ کر مجھ سے کہ جاتا ہوں
دانہ دنکا ان کا پل میں
کھانے کا لے کر آتا ہوں
کہتے ہی وہ پُھر سے اڑ کر
جنگل بیلے میں جا پہنچا
اتنے میں اک کوا آیا
بلبل کے بچوں کو کھانے
میں نے جلدی سے بلبل کے
بچوں کو شاخوں میں اپنی
چھپ جانے کی رائے دے دی
بلبل کے وہ دونوں بچے
میری ہی رکھوالی میں تھے
میری حکمت عملی سے وہ
میری شاخوں میں چھپ بیٹھے
کالے کوے نے بچوں کا
مجھ سے آ کر جب پوچھا
ٹالا اس کو بس یہ کہہ کر
بلبل کے بچے نہ ڈھونڈو
گھر میں ماں کے وہ پاس ہوں گے
بچوں کو نہ کوا پا کر
واپس اپنے گھر کو پلٹا
بچ نکلے بلبل کے بچے
بلبل جنگل سے جب لوٹا
سب کچھ کوے کے بارے میں
اُس کو بچوں نے سمجھایا
بچوں کو وہ لے کر واپس
اپنے گھر کی جانب پلٹا
بچوں کی جب جان بچائی
رب نے مجھ سے خوش ہو کر
سب پھولوں سے پیاری پیاری
یہ کہہ کر اک خوشبو بخشی
واپس کر دیں گے جو امانت
تن میں خوشبو کو پائیں گے
سب کے من کو وہ بھائیں گے
پیارے بچو نیارے بچو
نگرانی کرنا تم اس کی
واپس مالک کو جب کرنا
کالے کوے سے نہ ڈرنا
خوشبو تم کو مل جائے گی
جو سب دنیا مہکائے گی
میرا تعلق پنڈیگھیب کے ایک نواحی گاوں غریبوال سے ہے میں نے اپنا ادبی سفر 1985 سے شروع کیا تھا جو عسکری فرائض کی وجہ سے 1989 میں رک گیا جو 2015 میں دوبارہ شروع کیا ہے جس میں نعت نظم سلام اور غزل لکھ رہا ہوں نثر میں میری دو اردو کتابیں جبکہ ایک پنجابی کتاب اشاعت آشنا ہو چکی ہے
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔