سرمایہ اہل سنت، واعظ شیریں بیاں، حضرت علامہ مولانا جناب محمد یوسف حقانی صاحب دام ظله العالی ، اٹک شہر کی قدیم عظیم دینی و روحانی درسگاہ جامعہ قادریہ حقانیہ کے ناظم اعلی اور جامعہ مسجد نوری بادشاہ صاحبؒ کے امام و خطیب ہیں۔
آپ انتہائی نفیس شخصیت کے مالک، باکردار اور وضع دار انسان ہیں، ایک سچے اور سُچے مسلمان و اہل سنت عالم دین ہیں۔ میں نے انہیں ہمیشہ تاجدار مدینہ ﷺ کی محبت کا درس دیتے اور اتباع اولیائے کرام کا پیغام سناتے سُنا ہے۔ مجھے ذاتی طور پر ان کے جملہ اوصاف کے ساتھ ساتھ ان کی خوش الحانی بہت پسند ہے، جب وہ نعت و سلام بحضور سرور کائنات رحمت عالم حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ پیش کرتے ہیں تو رقت و سرور کا ایک ناقابل بیاں ماحول ہوتا ہے۔
اس میگزین کی بنیاد رکھتے وقت جو موضوعات میرے ذہن میں تھے ان میں سے ایک اہم ترین موضوع اٹک کی شخصیات کے احوال بھی تھا جس کے ذیلی موضوعات میں اولیائے کرام ،اساتذہ کرام ، علماء و مشائخ وغیرہ ہیں، علمائے کرام کی فہرست میں ایک نام جناب یوسف حقانی صاحب کا بھی تھا،ذیل میں ان کے احوال حیات جس قدر ممکن ہوسکے بیان کرتا ہوں۔
آپ 1968 ء میں آزاد جموں و کشمیر کے ضلع پونچھ (موجودہ ضلع سندھنوتی) ، تحصیل پلندری ڈاک خانہ رحیم آباد کے موضع ڈھک میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد گرامی گل شیر خان ابن جمال الدین بن نواب خان ابن فتح علی اعوان قبیلے کے ایک زمیندار دیندار گھرانے سے تعلق رکھتے تھے۔ زمین داری کے ساتھ ساتھ تجارت بھی ان کا پیشہ تھا۔
ابتدائی تعلیم آپ نے پرائمری تک آبائی گاؤں موضع ڈھک کے اس وقت کے پرائمری اسکول ڈھک آزادکشمیر اور مڈل کے لیے گلہ چوکیاں مڈل اسکول تحصیل پلندری سے حاصل کی ۔ میٹرک پرائیویٹ طور پر راولپنڈی بورڈ سے مکمل کی، اسی دوران آپ کو علماء و مشائخ اہل سنت کی مجالس میں بیٹھنے اور انہیں سننے سے دینی مذہبی تعلیم کا شوق پیدا ہوا تو اس کےلیے چکسواری ضلع میر پور آزادکشمیر میں مدرسہ حنفیہ میں داخلہ لیا۔ ابتدائی قرآنی تعلیم ، تجوید و ناظرہ وہاں پر پڑھا اور یہ تقریبا 82-1981 کا دور تھا۔ پھر 1984 میں اٹک جامع قادریہ حقانیہ میں آگئے۔دارالعلوم جامع قادریہ حقانیہ میں 1984 سے درس نظامی کا آغاز کیا جہاں سے الشہادۃ الثانویہ جامع الشہادۃ الثانویہ خاصہ ، الشہادۃ العالیہ ، الشہادۃ العالمیہ کا کورس آٹھ سالہ مکمل کیا اور دورہ حدیث عالمیہ سال دوم کا امتحان تنظیم المدارس اہل سنت و جماعت پاکستان سے پاس کیا، اور الشہادہ العالمیہ (مساوی ایم۔اے اسلامیات) کی سند حاصل کی۔
آپ کی ابتدائی اور ثانوی تعلیم کے اساتذہ کرام میں تجوید و ناظرہ قاری نور گل صاحب جامع حنفیہ چکسواری ضلع میر پور،عصری تعلیم میں جناب محمد قاسم صاحب ،محمد حنیف صاحب ،محمد صغیر صاحب ، محمد بشیر صاحب ، کرم خان صاحب ، ہیڈ ماسٹر محمد عارف صاحب ، محمد اعظم صاحب شامل ہیں۔ جب کہ اعلی تعلیم میں آپ نے شیخ الحدیث حضرت علامہ محمد سلیمان شاہ صاحب آف جلالیہ چھچھ ، حضرت علامہ مفتی محمد غوث شاہ صاحب ، حضرت علامہ شیخ الحدیث عبدالباری صاحب ، حضرت علامہ صاحبزادہ پیر عبدالظاہر رضوی صاحب ، حضرت علامہ صاحبزادہ پیر عبدالعادل قادری بادشاہ صاحب ، حضرت علامہ مفتی محمد نعمان صاحب غورغشتی ، حضرت علامہ امیر الرحمان صاحب صوابی ، حضرت علامہ غلام ربانی صاحب ہری پور سے کسب فیض کیا۔
آپ کے سلسلہ طریقت اور بیعت کا احوال بھی بہت دلچسپ و راہنما ہے۔ سلاسل اربعہ میں سے ایک سلسلہ ہے،سلسلہ عالیہ قادریہ جس کی نسبت امام الاتقیاء الاصفیاء سید الاولیاء حضرت سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی الحسنی و الحسینی المعروف غوث الاعظمؒ کی طرف ہے تو اس سلسلہ میں بدست ا میر شریعت پیر طریقت غوث زمان حضرت پیر بادشاہ صاحب ؒآستانہ عالیہ قادریہ شریف آمین آباد اٹک کے دست حق پرست پر بیعت ہو کر داخل سلسلہ قادریہ ہوئے۔ داستان اس کی یوں ہے کہ تعلیم کے ابتدائی زمانے سے ہی آپ کو یہ شوق تھا کہ کسی کامل پابند شریعت محمدی ولی اللہ کی بیعت کی جائے، چونکہ حضرت پیر بادشاہ صاحبؒ فی الفور ہر کسی کو بیعت نہ کرتے تھے تو دائیں بائیں دور نزدیک تلاش کی مگر اطمینان قلب نہ ہوا جہاں کہیں حاضری ہوتی غور و خوض سے نظر پھرآکر آپ کی ذات پہ ہی ٹھہرتی آخر ایک دن عرض کرنے پر فرمایا کہ بام خیل شریف حضرت لالہ جی صاحب اور خواجگان بام خیل شریف کے مزارات پر حاضری دے کر آؤ تو آپ اپنے ایک ساتھی دوست مولانا محمد عزیز صاحب آزاد کشمیر رحیم آباد والے کے ساتھ وہاں تشریف لے گئے اور حاضری کے بعد واپسی پر درخواست پیش کی تو دونوں کو حضرت پیر بادشاہ صاحبؒ نے اپنے قادری سلسلہ میں بیعت کی سعادت بخشی اور کچھ اورادواسباق کا ارشاد فرمایا۔
حضرت پیر بادشاہ صاحبؒ طلباء سے فرماتے کہ آپ کتاب کے ساتھ تعلق قائم رکھیں علم حاصل کریں اور پھرتصوف کے طرف رجوع کریں۔
آپ بسلسلہ تبلیغ دین اندرون ملک مختلف شہروں کا سفر بھی کرتے رہتے ہیں۔ 2010 ء میں آپ کو سفر حرمین شریفین کی سعادت بھی نصیب ہوئی۔ تحریر و تحقیق بھی آپ کا مشغلہ ہے اور کئی ایک کتب زیر قلم ہیں۔
جامعہ قادریہ حقانیہ سے آپ کی وابستگی کو لگ بھگ 37 برس کا عرصہ ہو چکا ہے۔ آپ 1984ء کو یہاں تشریف لائے اور 1994 ء کی ابتدا میں فراغت کے بعد دستار بندی ہوئی اور تب سے اب تک آپ بحیثیت مبلغ، معلم،خطیب اور ناظم اعلی جامعہ میں خدمات انجام دے رہے ہیں۔
آغا جہانگیر بخاری
چیف ایگزیکٹو و بانی مدیر
اٹک ویب میگزین
فطرت مری مانند نسیم سحری ہے
رفتار ہے میری کبھی آہستہ کبھی تیز
پہناتا ہوں اطلس کی قبا لالہ و گل کو
کرتا ہوں سر خار کو سوزن کی طرح تیز
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔