ریاست اللہ آباد

ریاست اللہ آباد

(1728ء تا 1748ء)

ہزاروں سال قدیم وادئ ہاکڑہ جو موجودہ بہاولپور ڈویژن کے تین اضلاع بہاولپور،بہاولنگر اور رحیم یار خان پر مشتمل تھی۔اپنی زرخیزی و شادابی کے باعث نہایت معروف تھی۔مختلف قوموں اور مذاہب کے عروج و زوال کی داستانیں سناتی وادئ ہاکڑہ ہمیشہ بیرونی اقوام اور حملہ آوروں کا ہدف رہی ہے۔ قریباً تین ہزار سال قبل مسیح میں دراوڑ قوم جو مصر میں بحیرہ روم کے ساحلی علاقوں میں آباد تھی۔سب سے پہلے وادئ ہاکڑہ میں آباد ہوئی۔پھر آریا قوم نے قدم رکھا اور پھر وقت کے ساتھ ساتھ دوسری بہت سی اقوام اور حملہ آوروں کی یہاں آمد ہوئی۔جس سے وادئ ہاکڑہ تہ وبالا ہوتی رہی۔حتیٰ کہ آج بھی وہ اپنی حالتِ زار پر نوحہ کناں ہے۔اسی وادئ ہاکڑہ کے صحرائے چولستان میں صدیوں قبل دریائے سرسوتی کے نام سے موسوم دریائے ستلج کا معاون دریا دریائے ہاکڑہ بھی موجود تھا۔جو زمین پر ٹھاٹھیں مارتا ہوا جنوب مغرب کی سمت بہتے ہوئے پتن منارہ (رحیم یار خان) میں جا نکلتا تھا۔تاریخ کے اس قدیم اور گم گشتہ دریائے ہاکڑہ کے کنارے پر قلعہ دراوڑ آج بھی اپنی عظمت رفتہ کی داستان لیے ہوئے قائم و دائم ہے۔قلعہ دراوڑ سے 56 کلومیٹر دور شمال مغرب جبکہ پتن منارہ سے قریباً 115 کلومیٹر شمال مشرق میں اللہ آباد واقع ہےجو کبھی ریاست اللہ آباد کا دارالحکومت ہوا کرتا تھا۔جو بدقسمتی سے ترقی معکوس کا سفر طے کرتے ہوئے آج صرف یونین کونسل کی حیثیت رکھتا ہے اور اپنے اندر عروج و زوال کی ایک عظیم داستان لیے آج بھی قائم و دائم ہے۔

ریاست اللہ آباد


مؤرخین کے مطابق عباسی خاندان کے امیر چنی محمد خان عباسی کی وفات کے بعد عباسی خاندان دو گروہوں ” کلہوڑا اور داؤد پوترا میں تقسیم ہوگیا تھا۔کلہوڑا خان عباسی امیر چنی محمد خان عباسی کا پوتا اور مہدی خان عباسی کا بڑا بیٹا تھا۔جبکہ داؤد خان عباسی امیر چنی محمد خان عباسی کا چھوٹا بیٹا تھا۔یوں داؤد خان عباسی کی اولاد داؤد پوترا جبکہ کلہوڑا خان عباسی کی اولاد کلہوڑا کے نام سے معروف ہوئی۔داؤد پوترا خاندان کے امیر محمد مبارک خان عباسی کی وفات کے بعد جب کلہوڑا خاندان کے امیر نور محمد کلہوڑا نے حکومت پر قبضہ کر کے امیر صادق محمد خان عباسی کو شکار پور چھوڑنے پر مجبور کیا تو امیر صادق محمد خان عباسی شکار سے قلعہ خان پور(قلعہ خان پور ضلع شکار پور کی تحصیل خان پور میں واقع تھا۔جہاں قلعے کی باقیات تاحال موجود ہیں) میں مقیم ہوگئے۔مگر امیر نور محمد کلہوڑا نے امیر صادق محمد خان عباسی(اول) کو قلعہ خان پور سے بھی نقل مکانی پر مجبور کر دیا۔نتیجتاً امیر صادق محمد خان عباسی (اول) 1726ء میں قلعہ خان پور سے نقل مکانی کرکے ڈیرہ غازی خان کے علاقہ ” بیٹ دبلی ” جو کہ اب تحصیل و ضلع لیہ کی سب تحصیل کوٹ سلطان کی ایک نواحی نشیبی یونین کونسل ” بکھری احمد خان ” کا ایک موضع ہے میں آ کر مقیم ہوگئے۔سال 1727ء میں امیر صادق محمد خان عباسی کو اوچ شریف کے سجادہ نشین حضرت مخدوم شیخ عبد القادر رحمتہ اللہ علیہ نے انہیں اوچشریف میں قیام کی دعوت دی۔چنانچہ امیر صادق محمد خان عباسی بیٹ دبلی سے اوچ شریف آئے۔ان دنوں نواب حیات اللہ خان ترین ملتان کے صوبیدار تھے اور حضرت مخدوم شیخ عبدالقادر رحمتہ اللہ علیہ کے نواب حیات اللہ خان ترین سے بہت قریبی مراسم تھے۔حضرت مخدوم شیخ عبدالقادر رحمتہ اللہ علیہ کے کہنے پر نواب حیات اللہ خان ترین نے امیر صادق محمد خان عباسی(اول) کو قلعہ دراوڑ کی غربی جانب ” چودری ” نام کی ایک وسیع جاگیر عنایت کر دی۔ امیر صادق محمد خان عباسی نے سن 1728ء میں دریائے ستلج کی قدیم گزر گاہ کے غربی کنارے(دریائے ستلج جو دریائے گھارا کے نام سے بھی موسوم ہے۔کسی زمانے میں اللہ آباد کے مشرق میں بہتا تھا۔بعد ازاں اسی مقام پر ” ترکڑی ” بھی بہا کرتی تھی۔جس کے آثار لیاقت پور کی چنی گوٹھ روڈ کے دونوں طرف آج بھی موجود ہیں) و موجودہ ریلوے اسٹیشن لیاقت پور سے 6 کلومیٹر دور مغرب میں واقع سطح سمندر سے 370 فٹ بلند ایک آباد ٹیلے پر اللہ آباد ریاست کی بنیاد رکھی اور اللہ آباد کو اپنا دارالحکومت قرار دیا۔
کلہوڑوں کو جب امیر صادق محمد خان عباسی(اول) کی اللہ آباد میں حکومت کے متعلق معلوم ہوا تو انہوں نے ریاست جیسلمیر (انڈیا) کے حاکم راول اگھی سنگھ کو امیر کے خلاف بھڑکایا جبکہ راول اگھی سنگھ نے بھی اللہ آباد میں ایک مسلم ریاست کے قیام اور اس کی ترقی کو اپنے لیے خطرہ سمجھا۔چنانچہ راول اگھی سنگھ نے 1728ء میں اللہ آباد پر حملہ کرنے کے لیے اپنے بھائی نہر سنگھ کی کمان میں فوج روانہ کی۔جب امیر صادق محمد خان عباسی کو جیسلمیری فوج کے حملے کے متعلق اطلاع ملی تو انہوں نے اپنی فوج کو مقابلے کا حکم دیا۔جونہی نہر سنگھ کی فوج نے حملہ کیا تو امیر کی فوج نے جیسلمیری فوج کا جوانمردی سے مقابلہ کیا اور انہیں شکست دے کر نہر سنگھ کو گرفتار کر لیا۔راول اگھی سنگھ کو اپنی فوج کی شکست اور بھائی کی گرفتاری کا شدید صدمہ ہوا اور وہ بدلہ لینے کے لیے موقع کی تلاش میں رہنے لگا۔

امیر صادق محمد کان عباسی اول

امیر


1731ء میں نواب حیات اللہ خان ترین کے حکم پر امیر صادق محمد خان عباسی (اول) اپنی فوج کے ہمراہ ” فرید خان لکھویرا ” کے خلاف جنگ کے لیے چشتیاں شہر سے چند کلومیٹر دور ” شہر فرید ” روانہ ہو گئےجہاں گھمسان کا رن پڑا۔آخر کار فرید خان لکھویرا کو گرفتار کر لیا گیا۔جبکہ اس کے دو بھائی معروف خان لکھویرا اور علی خان لکھویرا کے علاوہ اور بھی بہت سے معروف لوگ اس جنگ میں مارے گئے۔امیر ابھی لکھویروں کے خلاف جنگ میں مصروف تھے کہ راول اگھی سنگھ نے اللہ آباد پر حملہ کر دیا اور خوب لوٹ مار کرنے اور شہر کو نقصان پہنچانے کے بعد اس کی فوج ابھی واپس ہی ہوئی تھی کہ امیر صادق محمد خان عباسی لکھویروں کے خلاف جنگ میں فتح کے بعد واپس اللہ آباد لوٹے تو انہوں نے اللہ آباد کی تباہی وبربادی کو دیکھ کر غارت گر جیسلمیری فوج کا تعاقب کرکے جوابی حملہ کر دیا۔سخت لڑائی ہوئی طرفین کے کئی فوجی مارے گئے۔شدید حملوں سے جیسلمیری فوج کے قدم اکھڑ گئے اور وہ قلعہ دراوڑ کی طرف پسپا ہونے لگی۔اس وقت قلعہ دراوڑ حاکم جیسلمیر کے قبضہ میں تھا اور ” بیکا ” نامی شخص قلعے کا کوتوال(محافظ) تھا۔جب جیسلمیری فوج پسپا ہوتی ہوئی قلعہ دراوڑ پہنچی تو بجائے اس کے کہ کوتوال بیکا اور دیگر محافظ اپنی فوج کے ساتھ قدم جماتے۔ساری فوج بھاگ کھڑی ہوئی۔امیر صادق محمد خان عباسی نے قلعہ دراوڑ فتح کر لیا۔جبکہ امیر کے فوجیوں نے بیکا کو قلعہ دراوڑ سے 19 کلومیٹر دور گرفتار کر لیا۔یہ جگہ آج بھی ” بیکا والا کنڈا ” کے نام سے مشہور ہے۔1739ء میں ایران کے شہنشاہ نادر شاہ درانی جب ڈیرہ اسماعیل خان اور ڈیرہ غازی خان پر حملہ آور ہوئے تو امیر صادق محمد خان عباسی (اول) نادر شاہ درانی کے سلام و حاضری کے لیے ڈیرہ غازی خان پہنچے۔ ملاقات میں نادر شاہ درانی نے امیر صادق محمد خان عباسی کو سندھ میں شکار پور، لاڑکانہ و دیگر کچھ علاقے عنایت کر دیے۔اس طرح شکار پور ایک دفعہ پھر داؤد پوترا خاندان کے قبضے میں آ گیا۔امیر صادق محمد خان عباسی نے اپنے ولی عہد شہزادہ محمد بہاول خان عباسی(اول) اور حرم کی مستورات و مخدارات کو ٹانوری اور اللہ آباد سے شکار پور بلوا لیا۔دریں اثناء قتل کی ایک اہم واردات ہوئی جو اللہ آباد پر تیسرے حملے کی وجہ بنی۔وہ یوں ہوا کہ امیر صادق محمد خان عباسی کے دست راست شیخ صادق جو امیر کی طرف سے نادر شاہ درانی کے دربار میں وکالت کے فرائض انجام دیتے تھےاپنی صلاحیتوں کی بدولت نادر شاہ درانی سے سندھ کے تاریخی شہر سکھر کے نزدیک دریائے سندھ میں واقع ” بکھر ” نام کا ایک جزیرہ نما علاقہ حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے۔جہاں آج بھی ہندوؤں کا ایک بڑا مندر موجود ہے۔جبکہ اکثریتی آبادی بھی ہندوؤں ہی کی ہے۔بکھر کا حاکم بن جانے کے بعد شیخ صادق نے امیر صادق محمد خان عباسی (اول) اور اس کی رعایا کو طرح طرح کے نقصانات پہنچانا شروع کر دیے۔جب وہ حد سے بڑھنے لگا تو امیر کے آدمیوں نے شیخ صادق اور اس کے بیٹے شیخ عاقل کو قتل کر دیا۔قتل کے واقعے کے بعد شیخ صادق کے دوسرے بیٹے شیخ فاضل نے اپنے والد اور بھائی کے قتل کی اطلاع نادر شاہ درانی کے پاس بھجوائی یہ اطلاع جب امیر صادق محمد خان عباسی تک پہنچی تو وہ ایران کے لیے روانہ ہوئے۔ تاکہ قتل کے معاملے کو سلجھایا جا سکے۔ادھر نادر شاہ درانی نے امیر صادق محمد خان عباسی سے ہلاکتوں کا بدلہ لینے کے لیے سردار طہماسپ قلی خان افشار کو مقرر کیا اور انہیں بدلہ لینے کا حکم دیا۔سردار طہماسپ خان جب شکار پور (سندھ) کے لیے روانہ ہوئے تو ولی عہد شہزادہ محمد بہاول خان عباسی(اول) جو کہ شکار پور میں تھے۔سردار طہماسپ خان کی آمد کی خبر سن کر اپنی مستورات اور مخدارات کے ہمراہ شکار پور سے اللہ آباد کے لیے روانہ ہو گئے۔جب سردار طہماسپ خان شکار پور پہنچے تو نور محمد کلہوڑا نے اپنے بیٹے عطر خان کلہوڑا کے ذریعے سردار طہماسپ خان کو پیغام بھجوایا کہ امیر صادق محمد خان عباسی خود تو ایران چلے گئے ہیں۔جبکہ ان کا ولی عہد شہزادہ محمد بہاول خان عباسی اللہ آباد میں ہے اور قلعہ ڈیراور بھی ان کے قبضہ میں ہے۔بہتر ہے کہ ان پر حملہ کرکے فتح حاصل کی جائے۔چنانچہ سردار طہماسپ خان اللہ آباد پر حملہ آور ہوئےمگر شہزادہ بہاول خان عباسی حالات کو بھانپتے ہوئے اللہ آباد آنے کی بجائے سندھ کے علاقہ اباڑو میں ہی ٹھہر گئے۔ یوں سردار طہماسپ خان شہزادہ بہاول خان عباسی کو تو قتل نہ کر سکے۔البتہ اللہ آباد کا نقصان کرکے قلعہ دراوڑ جا پہنچے اور قلعے کا محاصرہ کرلیا۔حتیٰ کہ قلعے کی چابیاں سردار طہماسپ خان کے حوالے کر دی گئیں۔طہماسپ خان کے حکم پر قلعے کی اندرونی دیواریں اور برج مسمار کر دیے گئے اور پھر سردار طہماسپ خان قلعے کی حفاظت کے لیے اپنے فوجی تعینات کرکے روانہ ہو گئے۔سردار طہماسپ خان کی روانگی کے بعد شہزادہ بہاول خان عباسی اپنی مستورات و مخدارات کے ہمراہ اباڑو سے اللہ آباد چلے آئے۔ادھر امیر صادق محمد خان عباسی نادر شاہ درانی کے دربار میں پہنچے تو انہیں اپنی ذہانت سے مطمئن کرنے میں کامیاب ہو گئے۔نادر شاہ درانی نے امیر صادق محمد خان عباسی کو غزنی کا علاقہ عطا کر کے انہیں غزنی پر حکومت کرنے کا حکم دیا۔جبکہ اپنے ایک معتبر سردار ” عسکر علی خان ” کو بھی امیر کے ہمراہ کر دیا تاکہ وہ حکومت کے انتظام و انصرام میں امیر صادق محمد خان عباسی کی معاونت کر سکے۔جب امیر صادق محمد خان عباسی و سردار عسکر علی خان شکار پور پہنچے تو کلہوڑوں نے سردار عسکر علی خان کے کان بھرے اور انہیں امیر صادق محمد خان عباسی کےخلاف جنگ پر اکسایا۔آخر کار 1746ء میں سردار عسکر علی خان کلہوڑوں کی باتوں میں آ کر امیر کے خلاف جنگ پر آمادہ ہو گئے اور کلہوڑوں کے ساتھ مل کرجنگ شروع کر دی۔لڑائی شروع ہوئی تو بہت سے لوگ مارے گئے۔جنگ کی اس ہنگامہ آرائی میں اتفاقاً بندوق کی گولی امیر صادق محمد خان عباسی کو جا لگی۔جس سے وہ شہید ہو گئے۔شہادت کے بعد امیر صادق محمد خان عباسی (اول) شکار پور کے ایک محلے میں سپردِ خاک کر دیے گئے۔

ریاست اللہ آباد


امیر صادق محمد خان عباسی (اول) کی شہادت کے بعد ولی عہد شہزادہ محمد بہاول خان عباسی ریاست اللہ آباد کے فرمانروا بن گئے اور انہوں نے بھی دو سال اللہ آباد پر حکومت کی تاہم اس تمام عرصے میں ریاست اللہ آباد طول و عرض میں دور دور تک پھیل چکی تھی۔لہٰذا ریاست کے جغرافیے کو دیکھتے ہوئے اور مخالفین کے حملوں سے بچاؤ کی تدابیر پر قابو پانے کے لئے امیر محمد بہاول خان عباسی(اول) نے سن 1748ء میں اللہ آباد سے 100 کلومیٹر دور شمال مشرق میں دریائے ستلج سے چند کلومیٹر کے فاصلے پر ” سوڈھا دی جھوک ” نامی بستی جہاں آج ” دارالسرور بہاولپور ” واقع ہے کے مقام پر ایک نیا شہر ” بہاولپور ” آباد کرکے دارالحکومت اللہ آباد سے بہاولپور منتقل کر لیا۔جبکہ 20 سالہ (1728ءتا 1748ء) ” ریاست اللہ آباد ” کو بھی ” ریاست بہاولپور ” کا نام دے دیا۔

تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

streamyard

Next Post

احمد رضا انصاری کی نئی تصنیف شائع ہو گئی

جمعہ ستمبر 22 , 2023
اردو زبان کی ترویج اور ادب کے فروغ کےلیے کاوشیں جاری رہیں گی۔ پروفیسر فلک نا ز
احمد رضا انصاری کی نئی تصنیف شائع ہو گئی

مزید دلچسپ تحریریں