الایثار بلڈ بینک اینڈ تھیلیسیمیا سوسائٹی اٹک
جس نے ایک انسان کی جان بچائی گویا اس نے پوری انسانیت کی جان ںچائی۔
خون دینا اللہ واسطے کی گئی نیکیںوں کی معراج ہے کہ آپ کسی دوسرے انسان کی جان بچانے کی خاطر اپنے خون کا عطیہ پیش کرتے ہیں۔ بلڈ ڈونیشن پوری دنیا کی طرح ہمارے پاکستان کا ایک اہم ترین مسئلہ ہے جسے تمام ممالک میں سرکاری سطح کے ویلفیئر آرگنائزیشنز کی سطح پر حل کرنے کی کوششیں کی جاتی ہیں۔ چونکہ دیگر ترقی یافتہ ممالک اس مسئلے پر بھی اپنی بہترین حکمت عملی رکھتے ہیں مگر ہمارے جیسے ترقی پذیر یا پھر زوال پذیر ملک میں یہ مسئلہ سنجیدہ نوعیت کا بھی ہے اس کی کئی وجوہات کے ساتھ آبادی کا بے پناہ اضافہ بھی ہے کہ وسائل محدود ہوتے جار رہے ہیں اور اللہ کے نام کی خدائی فوج دن بہ دن بڑھتی جارہی ہے۔
بلڈ ڈونیشن کی ابتدا کے بارے حاصل معلومات سے پتا چلتا ہیےکہ پہلی بار فرانس میں ڈاکٹر ڈینس نے کامیابی سے خون کی منتقلی تجربہ 1667 میں کیا گیا جس کے بعد انتہائی محدود پیمانے پہ یہ سلسلہ چلتا رہا اور 1901 میں آسٹریا کے سائنسٹسٹ کارل لینڈ سٹائنر نے خون کے مختلف گروپس(A, B, O) دریافت کیے جو خون کی کسی دوسرے انسان کی منتقلی میں انتہائی اہم اور مددگار ثابت ہوے۔ اس کام پہ مختلف ممالک کے سائنٹسٹ محنت کرتے رہے اور 1914 تک خون محفوظ کرنے کے لیے کیمیکلز کا کامیاب تجربہ کیا گیا جو بلڈ بینکس کی ابتدا کا سبب بنا۔
دنیا کا پہلا باقاعدہ بلڈ بینک 1937 میں ڈاکٹر برناڈ فینٹس نے شکاگو(امریکہ) میں Cook County Hospital میں قائم کیا۔ اس کے بعد بلڈ بینکس کا نظام دنیا بھر میں پھیل گیا اور صحت کے نظام کا اہم حصہ بن گیا جبکہ پاکستان کا پہلا سرکاری بلڈ بینک 1950 کی دہائی میں کراچی میں قائم ہوا۔ یہ ایک سرکاری بلڈ بینک تھا جو خون کی منتقلی کے نظام کو منظم کرنے کے لیے بنایا گیا تھا۔
پاکستان کا پہلا فلاحی بلڈ بینک 1957 میں ایدھی فاؤنڈیشن کے تحت کراچی میں قائم کیا گیا۔ عظیم عبد الستار ایدھی صاحب نے اسے انسانی خدمت کے جذبے کے تحت شروع کیا تا کہ غریب اور ضرورت مند افراد کو مفت خون کی فراہمی ممکن ہو سکے۔ پاکستان میں سینکڑوں چھوٹی بڑی رفاہی تنظیمیں اس نیک کام کو سر انجام دے رہی ہیں اور اس سے تھیلیسیمیا اور دیگر بیماریوں بالخصوص آپریشنز کے مریضوں کے لیے مدد ممکن ہوتی ہے۔
ہمارے ضلع اٹک میں ایک ایسی بلڈ سوسائٹی موجود ہے جو ایک انتہائی معروف ڈاکٹر صاحب کی سرپرستی میں یہ عظیم کام سر انجام دے رہی ہے۔ الایثار بلڈ بینک کے روحِ رواں اور ایڈمنسٹریٹر برادر امجد محمود صاحب سال 2013 سے الایثار بلڈ بینک کے نام سے کارِ خیر کر رہے ہیں اور ماشااللہ سے گزشتہ گیارہ سالوں میں ہزاروں مریضوں اور ضرورتمندوں کو تھیلیسمیا، ڈایلائسز، ایکسیڈنٹل، کینسر کیسز اور ایمرجینسی ڈلیوری کیسز کی مد میں خون مہیا کرنے کی ذمہ داری نبھا چکے ہیں۔
امجد محمود صاحب کی اس کاوش کی وجہ سے انہیں محکمہ سوشل ویلفیئر نے اٹک میں گزشتہ پانچ سال سے ایک ممبر کے طور پر متعین کیا ہوا ہے اور وہ مختلف مقامات پر بلڈ ڈونیشنز کیمپس میں بھرپور حصہ لیتے ہیں۔
الایثار ویلفیئر چونکہ پہلے باقاعدہ طور پر رجسٹرڈ اداراہ/تنظیم نہیں تھی مگر سال 2024 سے یہ نام اب گورنمنٹ آف پنجاب سے بوساطت محکمہ سوشل ویلفیئر رجسٹرڈ ہوچکا ہے۔
الایثار ویلفیئر کے تحت رجسٹرڈ و ویریفائڈ کینسر اور شوگر کے مریضوں کو بھی ادویات کی مد میں ممکن مدد کی جاتی ہے اور جو مریضان یہاں سے راولپنڈی/اسلام آباد شفٹ کیے جاتے ہیں انکے بھی بلڈ ڈونرز جوانان کی مدد سے وہاں تک بلڈ ڈونیشن کی مدد ہر ممکن فراہم کی جاتی ہے۔
الایثار ویلفیئر کے ریکارڈ کے مطابق قریب 400 تھیلیسمیا کے بچوں کے لواحقین ان سے رابطے میں ہیں جبکہ الایثار کے پینل پہ اب تک 41 تھیلیسیمیا کے مریض بچوں کو رجسٹرڈ کیا گیا جن میں سے 15 بچوں کو مستقل طور ماہانہ کل 30 خون کی بوتلوں کی فراہمی جاری ہے۔ علاوہ ازیں کینسر اور ڈایلاسز کے کچھ کیسز بھی مستقل طور پر الایثار کے مستقل ڈونرز کی مہربانی سے مستفید ہو رہے ہیں۔
سوشل میڈیا کے توسط سے الایثار بلڈ بینک اٹک کی مختلف تحصیلوں سمیت ضلع اٹک کے مریضوں کو راولپنڈی/اسلام آباد میں بھی بلڈ ڈونرز کی مدد سے ہر ممکن مدد کی فراہمی کرتی ہے بہرحال یہ سب کارِ خیر اٹک کے بلڈ ڈونرز فرشتوں کی مدد اور جذبے سے ہی ممکن ہے۔
دنیا بھر میں ویلفیئر کے کام مخیر حضرات کی عملی اور مالی معاونت کے بغیر چلنا مشکل ہوتے ہیں۔ میں سوشل میڈیا کے توسط سے ضلع اٹک کے مخیر حضرات سے ضرور گزارش کروں گا کہ وہ الایثار بلڈ بینک اینڈ ویلفیئر سوسائٹی کو اپروچ کریں تا کہ یہ کارِ خیر اس سے زیادہ پھیلے اور پورے ضلع اٹک میں کم از کم بلڈ ایمرجینسی کے کسی بھی قسم کے کیس کو اس پینل کے تحت فوری مدد مل سکے۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔