اَکُّو پیر کی درویشی
کہانی کار: سید حبدار قائم
کسی گاؤں میں ایک غریب لکڑ ہارا رہتا تھا۔ اس کا ایک ہی بیٹا تھا۔ جو سکول جانے کا نام تک نہیں لیتا تھا۔ لکڑ ہارے نے اپنے بیٹے کو دینی تعلیم حاصل کرنے کے لیے گاؤں کے مدرسے میں بھیجا۔ جہاں پر وہ کامیاب نہ ہو سکا اور مولانا صاحب سے بہت زیادہ مار کھانے کے بعد صرف کلمہ طیبہ ہی یاد کر سکا۔
لکڑ ہارے کے بیٹے کا نام اکرم تھا ۔ جسے سارے گاؤں کے لوگ اکو اکو کہہ کر پکارتے تھے۔
لکڑ ہارا اپنے اکلوتے بیٹے اکو کے لیے بہت پریشان رہتا تھا۔ وہ اسے اکثر تعلیم حاصل کرنے کے لیے کہتا تھا تاکہ بڑا ہو کر اچھا انسان بننے کے ساتھ اسے اچھا روز گار بھی ملے۔ جب لکڑ ہارا اسے بار بار سمجھاتا تو اکو یہ بات کہ کر اپنے والد کو چپ کرا دیتا تھا۔
کہ اللہ مجھے چھپر پھاڑ کر رزق دے گا۔ دن یونہی تیزی سے گزر رہے تھے۔ اکو کی لاپرواہیاں جاری تھیں ۔ کہ ایک دن کھیتوں میں لکڑی کاٹتے ہوئے اکو کے والد کے پاوں پر کلہاڑی لگی جس کی وجہ سے اس کا پاؤں کٹ گیا۔ گھر کے سارے کام کا بوجھ اکو پر پڑ گیا تھا۔ اکو نے مزدوری پر جانا شروع کردیا جو اس کے لیے بہت مشکل کام تھا۔ اکو کے ماں باپ بوڑھے ہو چکے تھے وہ صرف اکو کے لیے دعا کر سکتے تھے۔ اکو کی ماں نے اپنی برادری کی ایک لڑکی سیمو کا رشتہ پوچھ کر اکو کی شادی کر دی۔ گھر میں ایک فرد کے اضافے سے اکو کے حالات مزید تنگ ہوگئے۔ اور نوبت فاقوں پر آگئی۔ ایک دن اکو نے سیمو سے کہا کہ اگر تم میرا ساتھ دو تو ہماری غریبی دور ہو سکتی ہے۔ سیمو نے اسے حیرت سے دیکھا اور اسے کہا میں ہر قدم پر آپ کی مدد کروں گی۔ مگر پہلے یہ تو بتایئں کہ کام کیا کرنا ہے؟
اکو نے اسے کہا کہ میں آئندہ سبز رنگ کا لباس پہنوں گا اور تو نے گاؤں کی عورتوں میں یہ مشہور کر دینا ہے کہ میرے شوہر نے چلہ کاٹا ہے۔ جس کی وجہ سے اس نے جنات کو قابو کر لیا ہے اپنی قسمت کا حال جاننے کے لیے اکو سے رابطہ کریں ۔ چناں چہ سارے گاؤں میں یہ بات مشہور ہو گئی کہ اکو پیر ہے ۔ اور وہ قسمت کے متعلق بتا سکتا ہے۔
جب یہ بات سارے گاؤں میں مشہور ہوگئی تو اکو نے ایک رات اپنی بیوی سیمو سے کہا کہ آج رات وہ دونوں مل کر شرفو کے گھر چوری کریں گے جس کے سب گھر والے دوسرے گاؤں میں گۓ ہوئے تھے۔ چناں چہ جب گاؤں والے لوگ عشاء کی نماز پڑھنے کے بعد سو گۓ۔ تو اکو اور اس کی بیوی سیمو نے شرفو کے گھرکی چھوٹی سی دیوار پھلانگ کر سارا قیمتی سامان نکال کر ایک گٹھڑی میں ڈالا اور سر پر اٹھا کر گاؤں کے باہر گھنے سرکنڈوں میں چھپا دیا۔ اور گاؤں واپس آکر اپنے گھر میں سو گۓ ۔
دوسرے دن جب شرفو گاؤں میں واپس آیا تو گھر میں بکھرے ہوئے کپڑے اور برتن دیکھ کر زور زور سے چلانے لگا۔ میں لُٹ گیا میں لٹ گیا۔ محلے کے سارے لوگ اکھٹے ہوۓ تو یہ دیکھ کر حیران رہ گۓ کہ شرفو کا قیمتی سامان لٹ چکا تھا ۔ شرفو کو مختلف لوگ مختلف راۓ دینے لگے کوئی کہنے لگا کہ پولیس میں رپٹ درج کرواو کوئی کہنے لگا کہ کھوجی کو بلا کر چور کے کُھرے دیکھے جائیں ۔ سب لوگوں کی باتیں ماسی بھاگاں سن رہی تھی۔ جس نے زور سے کہا کہ ٹھہرو میں تمھیں اس کا حل بتاتی ہوں۔ جب سب بندے خاموش ہو گۓ تو ماسی بھاگاں نے کہا کہ سب کو چھوڑ کر اکو پِیر سے حساب کروایا جاۓ۔ وہ پہنچا ہوا بندہ ہے اس کا حل ضرور نکالے گا۔ چناں چہ شرفو گاؤں کے چند بندے ساتھ لے کر اکو پیر کے پاس پہنچا ۔ جو گھر میں سبز لباس پہن کر بیٹھا ہوا تھا۔ چناں چہ اکو پیر نے انہیں گھر میں بٹھا کر حساب کرنا شروع کیا اور دو چار دفعہ اونچی زبان میں حق حق حق کہا سارے لوگ اکو پیر کے چہرے پر جلال دیکھ رہے تھے۔ اکو پیر نے انہیں کہا کہ مجھے جنات نے کہا ہے کہ شرفو کا سامان گاؤں کے شمال کی طرف سرکنڈوں میں پڑا ہوا ہے جس کو آج رات چور اٹھا کر لے جائیں گے اور جنات نے یہ بھی کہا ہے کہ چور کا نام بھی نہیں بتانا کیونکہ چور نے مجبوری سے چوری کی ہے۔ شرفو نے اکو پیر سے کہا ہمیں اپنا قیمتی سامان چاہیے نہ کہ چور کا نام ۔ اگر اکو پیر کی بات سچ ثابت ہوئی تو ہم اسے خطیر رقم دیں گے۔ اکو پیر نے شرفو اور اس کے ساتھیوں کو ساتھ لیا اور گاؤں سے باہر سرکنڈوں میں جہاں اس نے سامان چھپایا تھا وہاں پہنچ گئے جہاں پورا سامان موجود تھا۔ انہوں نے وہاں سے سامان اٹھایا اور اکو پیر زندہ باد کے نعرے لگاتے ہوئے گاؤں میں آگۓ۔ سار ے گاؤں میں اکو پیر کے نعرے لگ گئے۔ چوری کا سامان ملنے پر شرفو نے بہت سارا کھانے کا سامان اکو پیر کے گھر بھجوایا اور گاؤں میں اس کا پہلا مرید بن گیا ۔ اکو کی بیوی بہت خوش تھی ۔ کیونکہ مہینے بھر کا راشن اور کچھ نقدی شرفو نے ان کو شرینی کے طور پر دی تھی۔ گاؤں کی عورتیں اکو پیر کے پاس آتیں اور دم کرواتیں اکو کا چرچہ گاؤں کے علاوہ دوسرے گاؤں تک پہنچ چکا تھا ۔
دن اسی طرح گزر رہے تھے ۔ اکو اور سیمو بہت خوش تھے ۔ اور لوگوں کی بے وقوفی پر ہنس رہے تھے۔ اکو کے ساتھ والے گاؤں میں ملک کے بادشاہ کا قلعہ تھا ۔ قلعے میں بادشاہ کا محل سونے چاندی اور ہیرے جواہرات سے بھرا ہوا تھا۔ بادشاہ نے اپنی بیٹی کے لیے ہیروں کا ہار بنوایا اور بیٹی کی سالگرہ پر اسے تحفے میں دیا۔ شہزادی ہر روز قیمتی ہار اپنے گلے میں پہنتی جب وہ سونے لگتی تو گلے کا ہار اتار کر رکھ دیتی ۔ ایک دن شہزادی صبح سویرے اٹھی اور گلے میں ہار ڈالنا بھول گئی۔ روزانہ کی طرح وہ صبح سویرے باغ میں سیر کے لیے گئی اور دوستوں کے ساتھ باغ میں سیر کرنے کے بعد محل میں واپس آگئی۔ دن گزر گیا دوسرے روز پھر شہزادی اٹھی اور باغ میں سیر کے لیے جانے لگی تو میز سے ہاراٹھانے کے لیے گئی۔ تو ہار کو وہاں موجود نہ پا کر پریشان ہو گئی۔ محل کے نوکروں سے پوچھا تو انہوں نے بھی یہ کہ دیا کہ قیمتی ہار کا انہیں کچھ پتا نہیں ہے۔ ہار کے گم ہونے کی اطلاع بادشاہ کو مل گئی۔ تو اس نے سب نوکروں کو حکم دیا کہ ہار کو ڈھونڈیں لیکن تلاش کے باوجود ہار کا سراغ نہ ملا۔ بادشاہ نے سب وزیروں کو بلایا اور ان سے مشورہ طلب کیا۔ وزیروں میں ایک وزیر اکو پیر کے گاؤں کا تھا اس نے اکو پیر کے متعلق بادشاہ کو بتایا تو بادشاہ نے کہا کہ یہ سب باتیں جھوٹ ہوتیں ہیں ۔ لیکن وزیر کے اسرار پر بادشاہ نے اکو پیر کو محل میں بلا لیا ۔ جب اکو پیر محل میں آیا تو بادشاہ نے اسے کہا کہ اس کی بیٹی کا ہار گم ہو گیا ہے۔ اگر وہ اسے ڈھونڈ دے تو بادشاہ اسے انعام دے گا ۔ بادشاہ نے کہا کہ اکو پیر اگر تین دن میں قیمتی ہار نہ ڈھونڈ سکا تو اس کا سر تن سے جدا کر دیا جائے گا۔ جب اکو پیر نے بادشاہ کا یہ حکم سنا تو اس کے پاؤں سے زمین نکل گئی۔ اکو پیر نے بادشاہ سے کہا کہ اسے محل میں ایک الگ کمرہ وضو کے لیے کوزا اور نماز کے لیے مصلا دیا جاۓ۔ چناں چہ اسے بادشاہ نے ساری سہولتیں دینے کا حکم دے دیا۔ پورے محل میں اکو پیر کے جنات کی خبر پھیل گئی ۔ اکو پیر نے منہ ہاتھ دھویا اور کمرے کو بند کر کے مصلے پر بیٹھ گیا۔ جب رات گہری ہو گئی تو اکو پیر نے موت کے ڈر سے رونا شروع کر دیا۔ اور زور زور سے یہ کہنا شروع کر دیا کہ ۔
” ہائے ہائے نی جندڑی اے بنڑ پئی آ “
یعنی ہائے ہائے میری زندگی تجھ پر مشکل آ گئی ہے۔ یعنی تجھے قتل کر دیا جائے گا۔ اتفاق سے شہزادی کا ہار جس لڑکی نے چرایا تھا اس کا نام جندڑی تھا۔ جندڑی کو ڈر تھا کہ اگر اکو پیر نے اس کا نام لے لیا تو بادشاہ اسے گاجر مولی کی طرح کاٹ دے گا۔ اور بدنامی الگ ہو گی۔ اس لیے وہ بار بار اکو پیر کے کمرے کے پاس چھپ چھپ کر جاتی اور دروازوں کے سوراخوں کے ساتھ کان لگاتی جب اس نے اکو پیر کے آواز سے ہائے ہائے نی جندڑی اے بنڑ پئی آ۔ سنی تو اس کی ٹانگیں خوف سے کانپنے لگیں۔ اور اس نے کمرے کا دروازہ کھٹکھٹا دیا۔ اکو پیر جو خوف کی وجہ سے جاگ رہا تھا اس نے اٹھ کر دروازہ کھولا تو سامنے ایک لڑکی کو کھڑا پایا ۔ جندڑی نے اکو پیر کے پاؤں میں سر رکھ دیا۔ اور اکو پیر سے کہا کہ اس کا نام جندڑی ہے اور ہار اسی نے چوری کیا ہے اور یہ کہ اکو پیر کا حساب درست ہے اکو پیر دل ہی دل میں خوش ہو گیا۔ اور اس نے لڑکی سے کہا کہ ہار کو اس کے حوالے کر دے لڑکی نے کہا کہ بادشاہ کے سامنے اگر اس کا نام نہ لیا جائے تو وہ ہار اس کے حوالے کردے گی۔ چناں چہ لڑکی نے قیمتی ہار لا کر اکو پیر کے حوالے کر دیا۔ اکو پیر جس کو بادشاہ کےخوف سے نیند نہیں آرہی تھی ۔ ہار ملنے کے بعد ڈٹ کر سویا ۔ صبح سویرے اٹھ کر ہار لیا اور بادشاہ کے پاس پہنچ گیا۔ بادشاہ جو نجومیوں پر یقین نہیں رکھتا تھا۔ ہار دیکھ کر حیران رہ گیا بادشاہ نے اکو پیر سے پوچھا کہ ہار کہاں سے ملا ہے ؟ تو اکو پیر نے بادشاہ سے کہا کہ شہزادی سے باغ میں گر گیا تھا جو میرے جنات ڈھونڈ کر لے آئے ہیں ۔ بادشاہ نے ہار لے کر وزیر کو حکم دیا کہ اکو پیر کو بہت ساری دولت دے کر شاہی سواری پر بٹھا کر اس کے گاؤں تک چھوڑ آئیں ۔ سیمو جو اکو پیر کے غم میں رو رہی تھی۔ اکو کو شاہی سواری پر دیکھ کر حیران رہ گئی۔ اکو کی کامیابی پر سارے گاؤں والے اکو پیر کی درویشی کے معترف ہو گئے۔ سیمو نے اپنے شوہر اکو پیر سے کہا کہ اس کا سر کٹنے سے بچ گیا ہے اس لیے کہ بادشاہ کی دی ہوئی دولت لے کر کسی دوسرے ملک چلے جائیں کیونکہ ان کا جھوٹ بہت جلد پکڑا جائے گا۔ چناں چہ انہوں نے اپنے گھر کا سامان پیک کرنا شروع کر دیا ۔
دوسری طرف بادشاہ نے اکو پیر کو ایک کامل درویش مان لیا تھا۔ اس لیے اس نے سب وزیروں کو حکم دیا کہ سارے گاؤں والوں کو حکم دیا جائے کہ اس بار شہر کی جامع مسجد میں اکو پیرجمعہ پڑھائے گا اور مسجد میں جیسے اکو پیر نماز جمعہ ادا کرے گا سارے لوگ اس کی طرح نماز ادا کریں گے چناں چہ سارے گاؤں میں اعلان کر دیا گیا کہ اس بار اکو پیر کے پیچھے ہر شخص نماز جمعہ ادا کرے گا ۔ بادشاہ کے وزیر جب اکو پیر کو بادشاہ کا حکم سنانے کے لیے گۓ تو وہ گاؤں چھوڑنے کے لیے سارا سامان پیک کر چکا تھا۔ جسے دیکھ کر وزیر حیران رہ گۓ۔ بادشاہ کا حکم ملتے ہی اکو پیر کو یاد آیا کہ کس طرح گاؤں کے مولانا صاحب اسے مار مار کر نماز یاد کرانے کی کوشش کرتے تھے اگر وہ بچپن میں نماز یاد کر لیتا تو اس بار بھی بادشاہ کی تلوار سے بچ سکتا تھا۔ موت کا خوف اسے دل ہی دل میں رلا رہا تھا۔ سیمو کی آنکھوں میں بھی آنسو تھے۔ کہ اس بار بچت کی کوئی راہ نظر نہیں آ رہی ہے۔
آخر کار جمعہ آ گیا۔ بادشاہ نے شاہی سواری اکو پیر کو جامع مسجد تک لے جانے کے لیے بھیج دی اکو پیر امامت کے مصلے پر کھڑا ہو گیا تھا۔ اس نے محراب کے ساتھ ساری کھڑکیاں کھلوا دی تھیں ۔ سارے لوگ صفیں سیدھی کر چکے تھے۔ اکو پیر پیش نمازی کے لیے مصلے پر کھڑا ہو چکا تھا۔ چناں چہ اس نے دائیں دیکھا پھر بائیں دیکھا لوگوں نے بھی ایسے ہی کیا چونکہ بادشاہ کا حکم تھا۔ اکو پیر نے داہنی آستین اور بائیں آستین اوپر چڑھائی لوگوں نے بھی ایسے ہی کیا پھر اکو پیر نے دایاں پانچہ اور پھر بایاں پانچہ اوپر چڑھایا چناں چہ لوگو ں نے بھی ایسے ہی کیا اکو پیر خوف کی وجہ سے کانپ رہا تھا اور دل ہی دل میں سوچ رہا تھا کہ اب کیا کرے کیونکہ اسے نماز تو آتی نہیں تھی آخر کار اس نے سوچا کہ جان بچانے کے لیے وہ بھاگ جائے۔ محراب کے ساتھ کھڑکیاں کھلی ہوئی تھیں چناں چہ اکو پیر نے ایک کھڑکی سے باہر چھلانگ لگائی اور سر پٹ دوڑنے لگا۔ بادشاہ کے حکم کے مطابق سارے لوگوں نے کھڑکی سے چھلانگ لگائی اور اس کے پیچھے دوڑنے لگے۔ اکو پیر کا پاؤں کسی پتھر سے ٹکرایا اور وہ منہ کے بل گرا۔ اور گھبرا کر بیٹھ گیا سارے لوگ مسجد سے نکل کر اس کے پاس آکر بیٹھ گئے ۔ جب مسجد سے آخری بندہ کھڑکی سے کود کر اکو پیر کے پاس پہنچا تو خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ مسجد کی چھت گر گئی۔ ہر طرف گردو غبار اڑنے لگا سب بندوں کے باہر آجانے سے کوئی جانی نقصان نہ ہوا۔ جب بادشاہ کو اس واقعے کا علم ہوا کہ اکو پیر نے بہت سارے لوگوں کی جان بچائی ہے تو اکو پیر کو بہت ساری دولت اور ہیرے جواہرات دے کر رخصت کیا۔ سچ ہے کہ اللہ انسان کے عیبوں پر پردہ ڈالتا ہے اور چھپر پھاڑ کر رزق دیتا ہے۔
” یہ کہانی بچپن میں میں نے اپنے خالہ جان سے سنی تھی کسی دوسرے کہانی کار کی کہانی سے مشابہت اتفاقی ہو گا “
میرا تعلق پنڈیگھیب کے ایک نواحی گاوں غریبوال سے ہے میں نے اپنا ادبی سفر 1985 سے شروع کیا تھا جو عسکری فرائض کی وجہ سے 1989 میں رک گیا جو 2015 میں دوبارہ شروع کیا ہے جس میں نعت نظم سلام اور غزل لکھ رہا ہوں نثر میں میری دو اردو کتابیں جبکہ ایک پنجابی کتاب اشاعت آشنا ہو چکی ہے
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔