احمد شاملو:تعارفی مطالعہ
فرہاد احمد فگار
اسکالر ۔پی ۔ایچ ۔ڈی اردو، نمل
پتا: نثار جنرل اسٹور لوئر چھتر مظفرآباد آزاد کشمیر
رابطہ: 03334949227
فارسی دنیا کی ترقی یافتہ اور اہم زبان کے طور پر جانی جاتی ہے۔ اس زبا کا تعلق آریائی قبیلے سے ہے ۔ آج جو فارسی زبان رائج ہے یہ قریب تیسری صدی ہجری میں اختیار کردہ صورت ہے ۔ جدید تحقیقات کے مطابق ایران میں مقیم دو آریائی قبائل کا تذکرہ پہلی دفعہ آشوری بادشاہ شمل نصر کے ایک کنبے ۸۴۶قبل مسیح کے لگ بگھ ملتا ہے ۔ یہ دو قبیلے ماد اور پارس تھے۔ ماد پہلا خاندان ہے جس نے ۷۰۰قبل از مسیح میں ایران کے اندر ایک آریائی سلطنت کی بنیاد رکھی۔ ایران کی قدیم ترین زبان اوستائی کہلاتی ہے ۔ اس زبان کا خط دنیا کا مکمل ترین خط تسلیم کیا جاتا ہے ۔ یہی وہ خط ہے جس میں زرتشت عہد کی مذہبی کتاب "اوستا” لکھی گئی۔ سکندر اعظم کے حملے کے بعد یہ کتاب جو قریب چار سو بیلو کی کھالوں پر رقم تھی ضائع ہوگئی۔ بعد ازاں اشکانی عہد ۱۹۱ء۔۱۶۸ء میں اس کتاب کی جمع و تدوین کا کام شروع ہو ا جو ساسانی عہد میں جا کر مکمل ہوتا ہے ۔ ساسانیوں نے ایران پر قریب ۴۶۶سال تک حکومت کی ۔ اس عہد میں ایران کی عظمت رفتہ پھر سے نظر آنے لگی اور مذہب زرتشتی کا پرچار ہونے لگا۔ اس عہد میں "پہلوی زبان” کی ترقی برقرار رہی اس میں کچھ تبدیلیاں بھی رونما ہوئیں۔
موجودہ فارسی زبان کا ارتقا اسی زبان سے ہوتا ہے ۔ فارسی جتنی بھی ترقی ہوئی اس میں پہلوی زبان کی اہمیت سے کسی طور انکار نہیں کیا جا سکتا۔ ڈاکٹر محمد ریاض کے مطابق:
فارسی اور پہلوی ایک دوسرے سے اتنی متشابہ ہیں کہ اگر فارسی عربی کے انحطاط نکال دیے جائیں تو وہ دہلوی زبان کے بہت قریب پہنچ جاتی ہے۔(۱)
پہلوی زبان دائیں سے بائیں جانب لکھی جانے والی ایک مشکل رسم الخط کی حامل زبان ہے ۔ جب عربو ں کی آمد ہوئی تو ان کی آمد کے بعد فارسی کے لیے پہلوی رسم الخط رفتہ رفتہ متروک ہوگیا۔ ایران میں اسلام کا پرچم بلند ہونے لگا اور پہلوی خط سے ان کی وابستگی ختم ہوتی گئی۔ ایرانیوں نے عربی رسم الخط سے وابستگی اختیار کر لی عربی رسم الخط میں لکھی جا رہی ہے۔
کسی زبان میں ادب کا آغاز اس وقت ہوتا ہے جب وہ زبان ثروت مند ہوتی ہے ۔ علاوہ ازیں کوئی بھی اپنے ادب کے تناظر میں جانچ کر اس کی ثروت مندی کا اندازہ لگایا جا تا ہے ۔ فارسی زبان بھی گوناگوں صلاحیتوں کے باعث ادب کے حوالے سے ثروت مند تسلیم کی جاتی ہے ۔ جب ایران عملاً عربوں کے قبضے میں آگیا تو عباسی عہد میں ایران والوں کو بڑی اہمیت حاصل ہوئی۔ ایران میں اسلام کی اشاعت اور عربوں کی حکومت کے بعد عربی زبان کو بھی اہمیت حاصل ہوئی۔ ایران میں اسلام کی اشاعت اور عربوں کی حکومت کے بعد عربی زبان کو بھی اہمیت حاصل ہوئی۔ جیسا کے اوپر بیان کیا گیا ہے کہ پہلوی کی پیچیدگی کی جگہ عربی کے آسان رسم الخط نے لے لی۔ یہی وہ عہد تھا جس میں ایران کے مشرقی علاقوں خراسان اور ماورا الہز کی زبان نے ادبی زبان نے ادبی زبان کا درجہ حاصل کیا۔ یہی ادبی زبان پارسی یا پارسی دری کہلائی جانے لگی۔ پہلوی میں "در” سے مراد بارگاہ یا دربارشاہی ہے۔ اسی لحاظ سے دری سے مراد وہ زبان جس کا تعلق بارگاہ شاہی یا دربار شاہی سے ہے ۔ دری چوں کہ ایک وقت تک شاہی زبان کے طور پر رائج رہی اس لیے اسے فارسی دری کہا جانے لگا۔ تیسری اور چوتھی صدی ہجری میں ایران کے انہی مشرقی علاقوں میں خود مختار ایرانی ریاستیں قائم ہوئیں اور انھی ریاستوں کی سرپرستی میں فارسی شعرو ادب کی ابتداہوئی۔ دنیا کی بیشتر زبانوں کی طرح فارسی ادب کا آغاز بھی شاعری سے ہوتا ہے بعد ازاں نثری ادب بھی تخلیق ہوا۔
فارسی ادب کے اولین شعرا میں محمد بن وصیف اور خنطلہ دو اہم نام ہیں۔ یوں تیسری صدی ہجری کا نصف اول فارسی شاعری کا نقطۂ آغاز مانا جاتا ہے ۔ جب کہ بعد میں طاہری و صٖاری ادوار کو فارسی شاعری کا دور اول قرار دیا جاتا ہے ۔
چوں کہ ہمارا موضوع جدید فارسی شاعری سے متعلق ہے اس لیے ہم جدید فارسی شاعری اور بعد ازاں احمد شاہ ملو ہر بات کریں گے۔ جدید فارسی شاعری کی تحریک ۱۹۳۵ء کے لگ بھگ شروع ہوئی۔ جب جدید فارسی شاعری کے بان نیما پوشبع نے اپنی پہلی آزاد نظم ایک ادبی رسالے "موسیقی” میں شائع کی۔ یاد رہے اس وقت "موسیقی” کی ادارت بھی نیما پوشبع کے پاس تھی۔ یہ بات یہاں قابل ذکر ہوگی کہ فارسی کی جدید شاعری بھی جدید اردو شاعری کی طرح مغربی شاعری سے متاثرہوئی یہ اثرات فقت انگریزی یا فرانسیسی شاعری کے تھے۔ ان اثرات میں وہ سیایس ، سماجی اور اقتصادی حالات بھی کارفرما تھے۔ جو اس وقت موجود تھے۔ جیسا کہ ن۔ م راشد رقم طراز ہیں:
"میرے خیال میں محض انگریزی یا فرانسیسی شاعری کا اثر نہ تھا۔ بل کہ اس سے کہیں زیادہ ان سیاسی، اقتصادی اور اجتماعی حالات کا نتیجہ تھا جو اس وقت رونام ہو رہے تھے "(۲)
جدید فارسی شعریات میں رموز کنایات کے نت نئے تصورات، نئے نئے تجربات انفرادیت کے ساتھ تاثرات، موضوعات میں جدید عناصر کی تلاش ، نئے علوم کی روشنی میں نئی تعبیر کی مساعی بڑی حد تک پائی جاتی ہیں۔ جدید فارسی شاعری میں قدیم شاعری پر تو اور قدیم شاعری کی طرح غربت کا سراغ خاصا کم ملتا ہے ۔ قدیم شاعری کی طرح جدید شاعری میں خود غرض اور ستم رسیدہ عشق کی داستانوں کی بجائے محض زندگی کی اکتاہٹ نہیں پائی جاتی بل کہ مجموعی بے اطمینانی کا عکس نظر آتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ جدید فارسی شاعری میں شاعر اپنے ذاتی وصال کا متمنی کم دکھائی دیتا ہے اور زندگی کی فرسودہ روایات سے نجات دلانے کا فکر مند زیادہ نظر آتا ہے۔ جدید فارسی شاعری میں ایسے عناصر کی تلاش ملتی ہے جہاں حسن عشق اور محبت کے مفاہیج جدید اور نئے ہوں۔ جہاں زندگی کی حقیقتیں مکمل تر سادگی اور دکھاوے سے پاک نظر آتیں۔ فارسی کی جدید شاعری میں باالتزام کوشش کی گئی ہے کہ اس میں انسانی روح مکمل طور پر آزاد نظر آئے۔ یہی وجہ ہے کہ جدید فارسی شاعری میں بھی اردو کی جدید شاعری کی طرح "ابہام” پایا جاتا ہے ۔ یہ شاعری ان لوگوں کی سمجھ اور شعور سے بالاتر ہے جو پرانے احساس کے حامل ہوں یا پھر جو زندگی کے جدید اور نئے مظاہر سے کچھ حاصل کرنے سے قاصر ہوں۔ بہرحال یہ بات بھی مسلمہ حقیقت ہے کہ گئے اور فارسی کی جدید شاعری پرانی روایات سے نکل کر اپنی ایک الگ شناخت بنانے میں کامیاب ہو چکی ہے۔
جدیدفارسی شاعری کے حوالے سے اس مختصر تمہید کے بعد ہم اپنے اصل موضوع کی طرف آتے ہیں۔ ہمارا موضوع جدید فارسی شاعری کا ایک اہم نام احمد شاملو ہے ۔ احمد شاملو جدید فارسی شعراء میں نہایت معتبر نام ہے ۔ احمد شاملو نے "بامداد” نام کے قلمی نام سے بھی شہرت سمیٹی۔ شاملو کی ولادت ۱۲دسمبر ۱۹۲۵ء کو ایران کے دارلحکومت تہران میں ہوئی۔ شاملو کے والد افغانستان کے شہر کابل سے تھے۔ بعدزاں ہجرت کر کے تہران میں مقیم ہوئے۔ احمد شاملو کے والد اس وقت فوجی افسر تھے۔ اسی وجہ سے ان کو مختلف جگہ تباددلہ ہو کر جانا پڑتا جس کی وجہ سے احمدشاملو کی تعلیم بھی خاطر خواہ متاثر ہوئی جیسا کہ ن۔ م راشد رقم طراز ہیں:
"والد فوجی افسر تھے۔ ان کے پے در پے تبدیلیوں کی وجہ سے تعلیم بے قاعدہ رہی اور بمشکل دسویں جماعت پاس کر سکے”۔(۳)
احمد شاملو نے گو کہ رسمی تعلیم زیادہ حاصل نہیں کی تاہم اپنی خداداد صلاحیتیوں کی بدولت وہ کارہائے نمایاں سرانجام دیے جن کی بدولت وہ اپنے وقت میں متحرک سیاسی کارکن، صحافی اور قاموس دان کہلائے۔ بعدازاں سیاسی وجوہات کی بنا پر قریباً تین مرتبہ جیل بھی گئے ۔ لیکن جیل کی زندگی نے بھی کئی دیگر بڑے شعرا کی طرح آپ کی شاعری پر بجائے منفی اثرات مرتب کرنے کے مثبت اثرڈالا۔ شاملو کی سیاست سے بڑی حد تک دل چسپی تھی۔ اس دل چسپی ہی کی بدولت آپ نے صحافت کی دنیا میں بھی اپنا نام بنایا۔ شاملو نے ایران سے شائع ہونے والیے کئی ہفت روزہ اخبارات کے ساتھ ساتھ کچھ ماہ نامہ رسائل کی ادارت بھی خوش اسلوبی سے کی۔ احمد شاملو نے تدریس کے شعبے کو بھی اپنایا اور کچھ عرصے تک بہ حیثیت پروفیسر بھی خدمات سر انجام دیں۔ علاوہ ازیں شاملو کی خدمات بہ طور مترجم بھی یاد رکھی جائیں گی۔ ایران کی دہی زندگی اور اس کے مسائل کے بارے میں ٹیلی ویژن کے لیے فلمیں بھی تیار کیں۔ احمد شاملو کی تحریر میں حافظ شیرازی، عمر خیام، نیما پوشیع، رلکے، مایا وسکی، آرگن، روگسن ہوز اور لور کاے گہرے اثرات نظر آتے ہیں۔ شاملو نے زندگی کا کچھ عرصہ امریکی ریاست ہوجرسی میں بھی قیام کیا۔
احمد شاملوکے خاندان ، ماں باپ، ماحول، بچپن، تعلیم و تربیت، بجی زندگی وغیرہ کے بارے میں مبصرین اور ناقدین خوموش ہیں۔ احمد شاملو نے خود اپنی زندگی کے بارے میں جو مختصراً لکھا ہے اس سے پتا چلتا ہے کہ وہ ایک بجھی ہوئی طبعیت کے حامل انسان تھے۔ وہ اپنے گردو پیش کی کی تباہیوں بے جہتیوں اور بد حالی کو سمجھنے میں کوشاں ۔ ایک چھوٹے سے شہر "کش” میں نہایت مشکل اور تنگ و تاریک رہایش گاہ ۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ ان کی پوری زندگی بڑی تنگی ترشی میں گزری ، کبھی فراغت نصیب نہیں ہوئی۔ وہ ایک مفلس و نادار گھرانے سے چشم و چراغ تھے۔ بہت کم عمری میں ہی حصول روزگار کے لیے انھوں نے اخبارات میں لکھنا شروع کر دیا اور پوری زندگی یہی ان کا پیشہ رہا۔ شاملو اپنی ایمان داری ، انصاف دوستی ، فرض شناسی، سچائی اور خدمت خلق کی وجہ سے ہمیشہ آفتوں کا سامان کرنا پڑا۔ ابتدائی عمر سے موسیقی کا دیوانہ اور شوق رکھتے تھے۔ مگر غربت اور تنگ دستی نے ان کے اس شوق کو پروان نہ چڑھنے دیا۔ غالباً یہی حیثیت سے سامنے آئے ۔ جب ان کے لیے موسیقی سکیھنا ممکن نہ ہوا تو وہ شعرو ادب کی دنیا کی طرف راغب ہوئے۔ ان کے کلام کے مطالعے سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ ان کو ابتدائی عمر سے ہی مطالعے کی بھی عادت تھی جو کچھ جہاں سے بھی ملتا پڑھ ڈآلتے تھے۔ جیسا کہ ڈاکٹر رضیہ اکبر لکھتی ہیں:
"خود شاملو کے ذکر سے ہی یہ معلوم ہوتا ہے کہ مطالعے کا بھی اسے بچپن سے دیوانہ وار شوق تھا اور جو کچھ جہاں کہیں سے ہاتھ لگنا پڑھ ڈالتا تھا۔ اسی شوق میں اسکول کی بے مقصد پڑھائی بھی چھوڑی۔(۴)
شاملو انصاف کی تلاش اور مظلوموں کی حمایت میں پہلی بار ۴۴ ۱۹ء میں گرفتار ہوئے جس پر والد نے بڑی منت سماجت اور تگ و دو کے بعد زنداں سے رہائی دلوائی۔ مگر ہمت و عزم اور پختہ ارادہ کے مالک شاملو کی سرشت میں جو بغاوت کا بیچ پھوٹا تھا وہ پروان چڑھتا رہا۔ ۴۴ ۱۹ءمیں اپنے جذبات و احساسات کے اظہاریے کے طور پر "منظوم نامہ” رقم کیا۔ دوسری بار ۵۳ ۱۹ء میں شاہی زنداں میں کچھ عرصہ تک قید رہے۔ صعوبتیں جھیلیں لیکن ہمت نہ ٹوٹی اور ان کی آزاد روح نہایت منیز آزاد فضاؤں میں اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتی رہی۔ شاملو نے زندگی کے اسکول سے جو تجربات حاصل کیے ۔ اپنی ان اتھک محنت اور شوق سے جو علم حاصل کیا وہ کسی بھی اسکول یا کالج کی تعلیم سے کہیں بڑھ کر تھا۔ کئی دیگر زبانوں جیسے فرانسیسی، جرمن اور روسی میں بھی شاملو نے اپنے شوق اور محنت سے مہارت حاصل کی اور اپنے کلاسیکی ادب سے زیادہ انھوں نے ان زبانوں کے شعرو ادب کا مطالعہ کیا تھا۔ بالخصوص شاملو نے فرانسیسی اور اسپینش کے شعرا کو بہت زیادہ پڑھا تھا۔ وہ وخود بھی اعتراف کرتے ہیں کہ نیما کو پڑھنے سے قبل انھوں نے اپنی کلاسیکی شاعری کی طرف بہت کم توجہ دی تھی۔ احمد شاملو حسن و زیبائی کا شیدا تھے۔ ایک آزاد ، پرسکون ، پرذوق زندگی گزارنا چاہتے تھے لیکن حالات نے اس کا موقع نہ دیا۔
احمد شاملو کی ازداوجی زندگی بھی بہترین تھی ۔ تین کامیاب شادیاں کر رکھی تھیں ۔ ایران کی کمیونسٹ پارٹی کے سرگرم رکن کی حیثیت سے ایک سال سے زائد عرصہ پابندِ سلاسل رہے۔ زیابیطس کے مرض میں مبتلا ہونے کی وجہ سے خاصے مشکلات میں گھرے رہے۔ اسی وجہ سے ان کے دائیں پاؤں کا آپریشن بھی ہوا۔ شوگر جیسے موزی مرض کی وجہ سے ایرانی شاعری کا یہ نام ۲۳جولائی ۲۰۰۰ء کو اتوار کے روز ابدی نیند سوگیا۔ بعد از مرگ ایران کے شہر خراج میں تدفین ہوئی۔انھوں نے زندگی کو مار کر موت کو امر کر دیا۔
مجھے برہنہ دفن کیا جائے
سراپا برہنہ
یوں، جیسے ہم نماز عشق پڑھتے ہیں
کہ میں مٹی کے ساتھ
بغیر کسی حجاب کے
عاشقانہ انداز میں شیرو شکر ہونا چاہتا ہوں
احمد شاملو کہنے کو تو ۲۰۰۰ءمیں وفات پاگیا لیکن اپنے کام کے اندر وہ زندہ رہے گا ۔ اس کی تصانیف کی تعداد ۱۲بارہ ہے جو شائع ہو چکی ہیں۔ اس کے مشہور شعری مجموعوں میں "آھن پااحساس”ھوائے تازہ، یاغِ آئینہ ، آہدا در آئینہ، لحظ و ہمیشہ، آیدا، درختت، خنجرو خاطرہ، تفنوس درباداں، مرثیہ ہائے خاک، اور ازہوا و آئینہ شامل ہیں۔
ان مجموعوں کی مقبولیت کا اندازہ اس امر سے بہ خوبی لگایا جا سکتا ہے کہ ان مجموعوں کے کئی کئی ایڈیشنز شائع ہو چکے ہیں۔ علاوہ ازیں منظومات کے دو انتخاب اور مترجمہ نظموں کا ایک مجموعہ "خورشید در مرداب” بھی شائع ہو کر داد تحسین پا چکے ہیں۔ شاعری کے علاوہ احمد شاملو نے نثر میں بھی طبع آزمائی کی ان کے مختصر افسانوں کے تین مجموعے بھی شائع ہو چکے ہیں۔ شاعری کے علاوہ شاملو کی دیگر اہم کتب میں آہنگ ائی فراموش شدہ، زن پشت در مقری، او ر قطعنامہ شامل ہیں۔ شاملو کی ادبی زندگی میں دیگر زبانوں سے ترجمہ کیے گئے اٹھارہ ناول بھی شامل ہیں ۔ جب کہ بعض قدیم ایرانی شعرا کے دواوین بھی مرتب کر چکے ہیں۔
احمد شاملو کے ہاں ایک مزاحمتی رنگ عیاں ہے۔ وہ ایک ایسے شاعر تھے جو ایران میں انقلاب آنے سے قبل بادشاہت کے خلاف علم و بغاوت بلند کیے ہوئے تھے۔ وہ ایرانی عوام کے ساتھ شانہ بہ شانہ کھڑے نظر آتے ہیں۔ جس عہد میں شاملو ایران میں مزاحمتی ادب کے حوالےسے بڑا نام تھا اسی وقت اردو میں فیض احمد فیضؔ ، اسرار الحق مجاز، ساحر لدھیانوی اور کیفی اعظمی وغیرہ بڑے نام تھے۔ جیسا کہ افتخارعارف بناتے ہیں:
"جس وقت پاکستان میں فیض احمد فیض مزاحمتی ادب کے حوالے سے اہم اور بڑے شاعر تھے اسی وقت سرحد کے اس پار ساحر لدھیانوی اور کیفی اعظمی کا نام تھا۔ یہی وہ عہد تھا جب ایران میں احمد شاملو اپنے مزاحمتی رنگ کے باعث بڑا نام تھا”۔(۵)
یہ وہ عہد تھا جب احمد شاملو جیشے شعرا اور ادبا کو ایرانی ادب کے اندر ایسے رجحانات کا سامنا تھا جوادب اور شاعری میں سیاست کے ساتھ ساتھ سماج یا یوں کو لیں کہ عام لوگوں کی نمائندگی سے بالکل مفر تھے۔ ان کی جمالیات ادب فقط قافیے اور اوزان کی حامل تھی۔ اسی دور میں جہاں ایرانی ادب جدت کے راستے پر چل رہا تھاایسے میں کچھ ایسے شعرا بھی موجود تھے جو روایت سے روگردانی کرنا بابت گناہ تصور کرتے تھے۔ ان شعراکے ہاں فقط شاہ کی وفاداری اور قصیدہ گوئی اہم تھی۔ کئی ایسے نام تھے جو شعوری اور لاشعوری ہر دو اعتبار سے حکمرانوں کا دم بھرنے میں مصروف تھے۔ ایسے حالات میں احمد شاملو جیسے شعرا کے لیے اپنی بقا کی جنگ لڑنا لازمی امر تھا۔ ایسے شعرا کلاسیک سے انحراف کرنے والے اور حکم رانوں کے خلاف لکھنے والے ہوں ان کے لیے ہر عہدمیں مشکلات رہی ہیں،
ہندستان میں جیسے "انگارے” نے ایک معاشرے کو جنجھوڑنے کا کام کیا اور ترقی پسندی کی خشت اول کہلایا۔ اسی طرح ایران میں احمد شاملو کا مجموعہ کلام "ہوائے تازہ” اہمیت کا حامل ہے ۔ ایرانی شاعری میں”ہوائے تازہ” کی وہی اہمیت و افادیت ہے جو اردو ادب میں "انگارے” کی ہے ۔ مجموعہ "ہوائے تازہ” ہے۔ جس کی ایک نظم میں وہ اپنے ایمان اور یقین کی پختگی کی بات کرتا ہے ۔ شاملو کے مطابق:
جو آج ہے وہ ضرور بدلے گا
یہ اندھیرے دائمی نہیں ہیں
وہ روشنی کی تلاش میں جو سرگرداں ہیں اکثر فارسی کے جدید شعرا کی طرح شاملو کو موت سے کوئی انہماک نہیں وہ موت کو نہ ہی پسند کرتے ہیں اور نہ ہی اس سے خوف زردہ دکھائی دیتے ہیں۔
احمد شاملو موت کا زندگی کا دوسرا چہرا نہیں مانتے ان کے عقیدے کے مطابق موت بس زندگی کا آخر ہے ۔ موت ایک ایسا انجام ہے جس سے انکار ممکن نہیں۔ ان کے نزدیک جسمانی موت سے زیادہ پریشان کن معنوی موت ہے اور یہی موت شاملو کے لیے باعث تشویش ہے ۔ جب وہ سوچتے ہیں کہ اپنے ساتھی انسانوں کے لیے ان کی نیک تمنائیں اور پرخلوص مساعی رائیگاں ہو جائیں گی تویہ خیال ان کے لے دل آزاری کا باعث بنتا ہے ۔ بادمخالف کے سامنے اپنے کوششوں کی لاحاصل کا غم احمد شاملو کو پریشان کرتا ہے ۔ بادِ مخالف کے سامنے اپنے کوششوں کی لاحاصل کا غم احمد شاملو کو پریشان کرتا ہے تاہم وہ اپنے عزائم اور حوصلوں کو پست نہیں ہونے دیتے۔ البتہ انسانی اقدار کی موت احمد شاملو کو مجروح کرتی ہے:
دیر گاہی ست بہت دیر ہوگئی
تاخورشید سورج تک
بر جامن نتا بندہ است میر آنکھیں روشن ہیں
احمد شاملو کی نظموں میں جبراور ظلم کے خلاف جو مزاحمتی رنگ دکھائی دیتا ہے۔ وہ بہت مضبوط اور طاقت ور ہے ۔ ان کے ہاں اپنے معاصر ین کے مقابلے میں یہ رجحان زیادہ نمایاں طور پر سامنے آتا ہے عامر حسینی کے مطابق:
"احمد شاملو جبر کے خلاف بہت طاقت ور امیجری کے ساتھ تشکیل پانے والی مزاحمتی شاعری کے ساتھ سامنے آئے۔ ویسے یہ امیجری اور تمتال نگاری احمد شاملو کی ساری شاعری کا جوہر ہے جوان کو اپنے ہم عصر شاعرو ں سے ممتاز کرتی ہے۔ ایسے میں شاملو کو ایسے زمانے گنگنانا ہی جرم ٹھہر گیا”۔(۶)
"جبر” نامی ایک طرح کا احساس ان کی روح میں اترجاتا ہے۔وہ خود اس بات کا اعتراف کرتے دکھائی دیتے ہیں کہ خواہی نہ خواہی ان دونوں میں ایک طرح کے جبر کا قائل ہوگیا ہوں مگر وہ مذہبی معنی کا جبر نہیں۔
وہ ایک طرح سے اپنے عشق اور سچائی کا کفارہ سمجھتے ہیں کہ انسان کے لیے باوجود اپنی بے گناہی ، معصومیت اور نیکی کے کافکائی محکومیت کی وحشت سے مضر نہیں بد نصیبی یہ ہے کہ کوئی را گریز بھی نہیں ہے ۔ انسان کی اس سے زیادہ شرم ناک تو ہیں کیا ہوسکتی ہے۔ احمد شاملو اس جبر کے خلاف ہیں۔ جیسا کہ اوپر ذکر کیا گیا ہے ان کے کلام میں موت کا ذکر موجود ہے لیکن ان کے ہاں موت کا تصور کچھ الگ ہے جیسا کہ ن۔ م راشد رقم طراز ہیں:
"شاملو کی نظموں میں موت کا ذکر بار بار اور مختلف رنگوں میں آتا ہے ۔ صحیح بات یہ ہے کہ جدید فارسی ہی شاعری میں قدیم فارسی ہی کی طرح شاعروں کی موت سے انہماک خاصاہے”۔ (۷)
احمد شاملو اس حوالے سے اہم شاعر ہیں جن کے ہاں موت کے تصورات غم کی طرح پاے جاتے ہیں۔ فارسی کے جدید شعرا میں غالب کی طرح موت اور غم کو مترادف قرار دے دیا گیا ہے ۔ موت نے اس کے لیے اپنی ظاہری واقفیت سے کہیں بڑھ کر وسیع اور بڑا مفہوم پیدا کر لیا ہے جب کہ ان کے ہاں معنوی اور اجتماعی موت زوال کی علامت کے طور پر سامنے آئی ہے ۔ احمد شاملو کے ہاں زبان وبیان کے حوالے سے بھی اگر بات کی جائے تو وہ زباں و بیان کی بے پنا ہ قدرت کے مالک نظر آتے ہیں۔ ان کی نظموں میں اس طرح کی فکر بھی بڑی وسعت کی حامل دکھائی دیتی ہے۔ اکثر جگہوں ہر زبان کی ریزہ کاری جو قبل اس کے بھی موجود تھی وسعت کی آخری حد تک پہنچتی ہوئی معلوم ہوتی ہے ۔ یہی چیز قاری کے لیے خط کی ایک نئی سمت پیدا کرنی ہوئی ملتی ہے ۔ اس حوالے سے احمد شاملو کی یہ نظم "شعر زندگی است” ملاحظہ ہو:
شاعری تو زندگی ہے
گزرے شاعر کا موضوع شاعری
زندگی نہ تھا
اس کا آسمان خیال خشک و بنجر تھا
شراب و یار کے سوا اس کی اور گفت گو نہ تھی
وہ شب و روز اپنے خیال میں
محبوبہ کی مضحکہ خیز زلفوں کا رہین تھا
دوسروں کی نظر میں اس کا حال
ایک ہاتھ میں جام بادہ اور دوسرے ہاتھ میں زلف یار لیے
زمیں خدا میں مستانہ وار نعرے مارنے والے کا تھا
موضوع شع شاعر
اس زندگی کا غیر تھا
اس کے شعر کا تاثیر تھی
بہت کم تھی
اس کی شاعری کو ایک کدال کی طرح
اس راہ جدوجہد میں استعمال نہیں کیا جاسکتا تھا
اس کے ہنر شاعری سے
تم مشکلات کے اس دیو کا خاتمہ نہیں کر سکتے تھے
جس کا خلق کو سامنا تھا
اس کے وجود کا اثر نہیں تھا
اس کا ہونا، نہ ہونا برابر تھا
تم اس کی شاعری کو پھانسی کے پھندے کی طرح استعمال نہیں کر سکتے تھے
میرا ذاتی حال یہ ہے
کہ میں وہ شخص ہوں
جو اپنے زمانے میں
اپنے شعروں کے ساتھ
جنوبی کورین شن چوئی کے ہمراہ
لڑا ہوں
یہاں تک کہ ایک مقام پہ
کئی سال پہلے
میں نے شاعر حمیدی کو اپنے شعروں کو پھانسی پہ چڑھا ڈالا
شعر کا موضوع
آج اور ہے
آج کی شاعری
خلق کا ہتھیار ہے
جب کہ یہاں شاعر
شاخیں ہیں خلق کے جنگل کی
نہ کہ یاسمین و سنبل ہیں
فلاں فلاں کے گل خانہ کے
بے گانہ نہیں ہے
آج کا شاعر
خلق کے مشترکہ درد سے
لوگوں کے لبوں سے
وہ مسکراتا ہے
لوگوں کے دروامید کو
وہ اپنی ہڈیوں کے ڈھانچے پہ چڑھاتا ہے
آج
شاعر کو
خوب صورت باس پہننا چاہیے
اسے خوب پالش کیے جوتے پہننے ضروری ہیں
شہر کے مصروف ترین گوشوں میں
ایک ایک کر کے موضوع ووزن و قافیہ کو
اپنے پیدائشی وصف کے ساتھ
اپنے پاس سے گزرنے والوں کے سامنے چننے چاہیں
اے یاترا کرنے والو!میری پیروی کرو
ان تین دنوں میں
در بدر
میں نے تمھیں تلاش کیا
مجھے تلاش کیا؟
عجیب بات ہے
آقا میرے
لگتا ہے آپ کو غلط فہمی ہوئی ہے
آپ مجھے کوئی اور سمجھ رہے ہیں
نہیں میر ی جان یہ محال ہے
میں شعر تازہ کے وزن کو خود
دور سے ہی پہچان لیتا ہوں
کیا کہا؟
وز ن شعر؟
میرے دوست ، ذرا صبر کرو
وزن و لغات و قافیہ کی تلاش میں
میں نے ہمیشہ ان کوچوں کی خاک چھانی ہے
میرے شعروں کی اکائی لوگ ہیں
زندگی سے لے کر(میرے اکثر شعروں کا موضوع زندگی) لفظ وزن و قافیہ شر تک
میں ان سب کو لوگوں میں تلاش کرتا ہوں
یہ شعر کو بہتر کرتی اور ان کو زندگانی روح دیتی ہے
اب
وہ وقت آن پہنچا ہے
جب شاعر کو
شعری منطق بروئے کار لاتے ہوئے
پاس سے گزرنے والے کو ایسے رام کرنا ہے
کہ وہ بارضواورغبت اس کے ساتھ متفق ہوجائے
ورنہ اس کا تمام تر تکلیف اٹھان شاعری کے لیے غارت چلا جائے گا
خوب
اب جب کہ وزن دریافت ہوچکا
تو اب ہنگام جستجو لفظوں کے لیے ہونا چاہیے
ہر لغت
جیسا کہ نام سے پتا چلتا ہے
دوشیزہ شوخ و دل وآرام ہے
وزن کی جستجو کرنے والے
شاعر کو الفاظ کی جستجو دوگنا کر دینی چاہیے
اگرچہ یہ کام مشکل اور صبر کو جلادینے والا ہے
لیکن
اس سے گریزاں نہ ہو
آقائے وزن اور خانم لغت اگر
ہم رنگ و ہم طرز نہ ہوں تو لازم ہے کہ
زندگی کا حاصل دل پذیر نہ ہوگا
جیسے
میں اور میری بیوی کے لیے
میں وزن تھا اور میری بیو الفاظ
اور ہماری نظم کا موضوع تھا
بوسہ ہائے محبت کا ہمیشہ پیوند
ہماری نظم میں شادمانی کے ساتھ ظاہر ہوا کرتی
ہمارے بچوں کے لبوں پر کھیلتی مسکراہٹ
ایک خوشی کی نبوبت کی طرح
لیکن کچھ سیاہ سر الفاظ
ان اشعار کو مرثیہ کا احساس دے ڈالتے
اس کے توازن کو شکست دیتے
اور شادمانی کی نوبت کو تباہ کر ڈالتے
آخر میں
شعر بے ثمر و مہمل ہوجاتا
اور بے مقصدیت استاد کا تھکا دیتی
بارسخن دراز ہوگیا
اور اسے دردناک زخم بنا گیا
اور ایک رگ خون پھوٹ نکلی ہے
آج کے شاعر کا ماڈل
میں کہتا ہوں
زندگی ہے
زندگی کے تجربے سے شاعر
رنگ و آب شعر سے
پہلے سے موجود نقش زندگی پہ
ایک اور نقش چڑھاتا ہے
وہ شعر لکھا ہے
یعنی
وہ پرانے شہر کے زخموں کو چھو کر انھیں اور طرح سے پیش کرتا ہے
یعنی
وہ قصہ شب کو
صبح دل پذیر کے ساتھ بیان کرتا ہے
وہ شاعری لکھتا ہے
یعنی
وہ شعر اور شعروالوں کے درد
بیان کرتا
یعنی
وہ اپنے گیت کے ساتھ
خستہ روخوں کو پھر سے زندہ کرتا ہے
وہ شاعری لکھتا ہے
یعنی
وہ قلوب سرد و ماندہ کو
شوق/خوشی
سے سرشار کرتا
یعنی وہ طلوع صبح کے ساتھ
خفتہ آنکھوں کو بےدار کرتا ہے
وہ شاعری لکھتا ہے
یعنی
وہ انسان عصرکا افتخار نامے کی
تشریح کرتا ہے
یعنی
وہ اس زمانے کے فتح نامے
کو بیان کرتا ہے
اگر شاعری زندگی ہے
تو
یہ بحث خشک معنی الفاظ خاص
ان کے لیے شاعری درکار نہیں ہے
اس کے نیچے تاریک شعروں میں
ہمیں آفتاب امیدو عشق کی گرمی
کا احساس ہوتا ہے
کیوں ان نے
زندگی کے گیت کو
اپنے خون سے سینچا ہے
ورتان نے
زندگی کے شور کو
سکوت قلب میں ڈھالا ہے
اگرچہ قافیہ زندگی
اس میں
سوائے موت کے لہجے کے کچھ نہ ہو
ہر دو شعر میں
ہر معنی مرگ
معنی زندگی ہے
اس نظم میں شاملو کی شاعری کو زندگی سے تعبیر کرتے ہیں۔ ان کے مطابق شاعری ہی وہ چیز ہے جس کے سہارے وہ موجود ہیں۔ وہ اپنی شاعری کو اپنی طاقت اور جینے کی وجہ بتاتے ہیں۔ احمد شاملو کہتے ہیں کہ شاعری ہی وہ ہتھیار ہے جس کے سہارے وہ لڑتے ہیں۔ ان کے مطابق شاعر کو موجودہ شاعری کے لبادے میں شاعر لوگوں کے درد اور ان کی امید وں کو عیاں کرتا ہے ۔ ان کے اپنے اشعار کی اکائی وہ مخلوق خدا کو بتاتے ہیں۔ شاعر زندگی کے تجربات سے مضامین اخذ کرتا ہے اور ان مضامین کو ایک روشن اور دل کو موہ لینے والی سحر کے ساتھ صفحۃ قرطاس پر لاتا ہے ۔ اپنے ضمیر کو اپنی نظموں کے ذریعے جھنجھوڑتا ہے ۔ اور انھیں جینے کے نئے زاویے سکھاتا ہے ۔
احمد شاملو کی شاعری میں نیما پوشیج کے جیسے مکمل طور پر قافیے کی پابندی نظرنہیں آتی۔ وہ شائد فارسی زبان کے اولین شاعر ہیں جن کے یہاں شاعری بھی انحراف کیا ہے جس کی بنا جدید شاعری کے بانی نیما پوشیج نے رکھی اور مہدی اخوان ثالث نے جس کو پسند کیا۔ لیکن ان تمام باتوں کے باوجود احمد شاملو کے یہاں شعری عناصر بہ کثرت پائے جاتے ہیں۔ شاملو بہت حساس اور پرخلوص لکھنے والے شاعر تھے۔ شاملو کی شاعری میں زبان و بیان کی سلاست اور روانی کے ساتھ ساتھ شگفتگی اور ادبیت کے تمام تر لوازمات بدرجہ اتم پائے جاتے ہیں۔ ان کا اسلوب اپنی مخصوص انفرادیت کے باعث جدید فارسی شعرا میں اہمیت کا حامل سمجھا جاتا ہے ۔ شاملو کو اپنی تہذیب و ثقافت سے بھی گہری دل چسپی تھی یہی وجہ تھی کہ وہ عملی سیاست میں بھی سرگرم رہے اور اسی فطرت کے باعث ان کی تمام تر ہم دردیاں مظلوم طبقے کے ساتھ رہی ہیں۔
احمد شاملو کی منظومات میں "پرپا””ماہی’ برنگ فرش، دختر مائے نند دریا اور مثنوی شب گپو وغیرہ بحور اور وزن کے معاملے میں مکمل طور پر آزاد ہونے کے باوجود زبان زد خاص و عام ہو چکی ہیں۔شاملو کی شاعری بہ ظاہر نثر نما ہے اس میں رسمی آہنگ بھی موجود نہیں لیکن ان کی شاعری میں ایک شخصی آہنگ کا نادر شعوری نمامونہ بہر طور پایا جاتا ہے ۔ گویا یہ آہنگ باطنی ہے جو الفاظ کی نسبت خیالات پر انحصار کرتا ہے ۔ شاملو نے اپنے اس منفرد آہنگ سے اپنی منظومات میں ہئیت اور مضمون آفرینی کی آمیزش کے لیے خاطر خواہ کام لیا ہے ۔ اسی ہئیت کی وجہ سے اکثر اس شاعر پر ہئیت پرستی کا الزام بھی لگایا جاتا ہے ۔ ان پر لگایا جانے والا یہ الزام کسی حد تک یوں بھی درست ہے کہ وہ ہئیت میں کسی تنوع کے قائل نظر نہیں آتے۔ ان کی تما م تر شاعری یکساں طور پر آزاد ہے ۔ وہ اپنے کسی نئے مضمون کے لیے کوئی نیا قالب ایجاد کرنے کی بہ جائے اپنے خاص پہلے سے موجود قلاب کا ہی سہارا لیتے ہیں۔ شاملو بھی بعض دگیر جدید فارسی شعرا کی مانند فرانسیسی شعرا سے بے حد متاثر نظر آتے ہیں۔ شاملو کی شاعری میں جدید فارسی شعرا نیما پوشیج ، فریدون توللی اور پروفیسر ناتل خانلری کے اثرات بھی دکھائی دیتے ہیں۔ نیما کی طرح شاملو کے اشعار میں بھی نثر سے قریب تر لگتے ہیں مگر ان کی تہوں میں فکر و احساس کی بڑی وسعت پائی جایت ہے ۔ ان کے استعرات ، تشبہیات اور رمز و کنایہ سب میں ان کی ندرت خیال کے ساتھ ایک فکر مند ی کے تاثرات و حالات کے عناصر بھی موجود ہیں۔ اس حوالے سے ان کی نظم سود ابرہایم در آتش، یعنی آگ میں ابراہیم کا گیت، دیکھیں۔ اس نظم کے تاریخی تناظر پر بات کریں تو ۱۹۵۱ء میں شاہ ایران کی جانب سے مہدی رضائی کو ایران کے مشہور تیر چتگیر چوک میں تختہ دار پر لٹکا دیا گیا۔ احمد شاملو نے اپنی حساس طبیعت کے باعث اس واقعے کو نظم کی صورت میں کاس خوب صورتی سے بیان کیا ہے ملاحظہ ہو:
آگ میں ابراہیم کا گیت
بھیڑیے کی خون خوار غراہٹ کے سامنے
ایک اور ہی طرح کا مرد کھڑا تھا
جو دھرتی کو سرسبز و شاداب دیکھنا چاہتا تھا
اور سب سے حسین ترین عورت کے عشق کا سزوار تھا
اور یہ کوئی آسان کام نہیں ہوتا
اس کے لیے بے قدر کام نہ تھا
خاک و سنگ ہوجانا
کیا مرد تھا کیا مرد تھا
اس نے کہا
دل کے لیے سب سے خوب صورت با ت ہوتی ہے
کہ ہفت شمشیر عشق سے
خون میں بھیگ جائے
اور لبوں کے لیے بہترین بات ہے
ان سے خوب صورت ترین نام
ادا ہو
اور ایک شیر آہن کوہ اس عشق میں
خون آشام میدان تقدیر کو عبور کرجائے
کہ اس کی ایڑیاں اشیل جیسی ہوں
اس نے لکھی خود اپنی تقدیر
اس کا تن ناقابل شکست تھا
اس کی موت کا راز
اندوہ عشق اور
غم تنہائی تھا
آہ اسفند یار مغموم
تمھاری بند آنکھیں
اس خون آشامی سے آنکھیں پھیرنے کی طرح تھا
این نہ تھی
بس ایک نہیں
جو کافی تھی میر تقدیر کا تعین کرنے کے لئے
میں
اور تنہا میں ہی چلایا
نہیں
اور میں نے ڈوبنے سے انکار کر دیا
تو میر صدا ہوگئی
اشکال کے درمیان ایک شکل
اور اس طرح میں نے معنی کو پالیا
میں تھا
اور پھر ہوگیا
ایسا نہیں کہ پھولوں میں غنچہ
نہ جڑ کہ بڑھ کر ہو درخت
نہ بیچ کہ بڑھ کر جنگل ہوگیا ہوں
بل کہ ایک عام مرد
جو شہید ہوگیا
جس کی نماز
آسمان پہ پڑھی گئ
میں کوئی عاجز غلام نہ تھا
اور بہشت کی طرف میرا سفر
سفر طاعت و خاکساری نہ تھا
میں تو ایک اور ہ طرح کے خدا کا حق دار تھا
جو مخلوق کے قابل ہوتا
جو نوالہ ناگزیر کے لیے
گرند نہ جھکائی ہو
اور ایک خدا
ایک اور ہی طرح کا
میں نے پیدا کیا
آہ! ایک پہاڑ کی طرح سورما
جو کہ تم تھے
پہاڑ کی طرح تم کھڑے رہے
اور خاک پہ گرنے سے پہلے ہی
تم مر گئے
اور نہ خدا نے اور نہ ہی شیطان نے
تمہاری سرنوشت رقم کی
بل کہ ایک بت نے لکھی تمھاری سر نوشت
وہ بت جن کی دوسرے لوگ پوجا کرتے
وہ بت کہ جن کی دوسرے لوگ پوجا کرتے
احمد شاملو قید و بند اور زندگی کی دیگر ناہم واریوں کے بیچ میں بھی امید و آرزو کی شمعوں کو رودشن رکھتے ہیں۔ ان کے ہاتھ سے ضبط و تحمل کا دامن کبھی بھی چھوٹنے نہیں پایا۔ ان کا مجموعہ کلام ہوائے تازہ، ان کی اسی رجا کی ایک خوب صورت دلیل کے طور پر نظر آتا ہے ۔ ان کا حوصلہ اور ان کی ہمت اندھیروں سے جنگ کرنے کے لیے ایک یقین اور اعتما کے ساتھ فتح و نصرت کے لیے آگے بڑھتی ہی چلی جایت ہے ۔ شاملو حزن و یاس کے لمحات کو بھی اپنی شاعری میں ایک نئے انداز کے ساتھ نبھاتے ہیں۔ وہ ناکامی و نامرادی کو اپنے شعری اظہار کی زنجیر بناتے ہیں۔ شاملو ایک ایسے شاعر کے طور پر سامنے آتے ہیں جو اپنے عشق اور سچائی کا کفارہ سمجھتے ہوئے انسان کے لیے ہی سوچتے اور انسان کے لیے ہی بقا کی جنگ لڑتے ہیں:
ان کے ایام آخر کے شاعری میں یہ احساس اکثر غالب آجاتا ہے ۔ ایسا لگتا ہے جیسے جینے کے ناہم وار سفر میں وہ بہت تھک سے گئے ہیں زمانے کی ناحق بے حسی اور مردومان ناسپاس کی ناشکری سے وہ دل برداشتہ نظر آٹے ہیں۔ چار عاچار وہ خود کو یار یگانہ کے کیف صحبت میں کھودینا چاہتے ہیں اور اسی میں عافیت جانتے ہیں۔ ایسے یں وہ اپنے ہم دم دیرینہ سے مطالبہ کرتے ہیں کہ اے دوست میرا ہاتھ تھام کہ ہم کہیں اور جا بسیں۔ احمد شاملو کی عشقیہ شاعری بھی ان کی اپنی زندگی کی پہچان میں آہنگ و نظم پیدا کرتی ہے ۔ جہاں ان کی شاعری میں عشقیہ مناظر ہیں وہاں محبت ان کی واحد رہبر کےت طور پر سامنے آتی ہے احمد شاملو کی عشقیہ شاعری کے حوالے سے ڈاکٹر رضیہ اکبر رقم طراز ہیں:
"احمد شاملو کی عشقیہ شاعری کا سرمایہ بھی بہت وافر ہے اور اس میں بھی اکثر و بیشتر فکری عنصر نمایاں نظر آتا ہے ۔ دردجاناں سے گزر کر عشق کی گہرائی اس کے درد انسانیت کو اور گہرا ننا دیتی ہے ۔ ساتھ انسان کے لیے جو صدیوں کے درد فلاحٰ خو گر ہوگیا ہے۔ اس کے رنجو افسوس میں اور زیادہ تاثری پیدا ہوجاتی ہے "۔(۸)
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ احمد شاملو کی عشقیہ شاعری میں بھی انسانیت کی بات کی گئ ہے ۔ ان کی جتنی بھی توقعات ہیں وہ سب کی سب اس وقت ماند پڑ تی ہیں جب کہ وہ چہار سواندھرا ہی نظر آتا ہے ۔ اس اندھیرے اور تیرہ سبنی میں بھی روشنی کیتلاش میں سرگرداں ہیں۔ قومی تحریک کی مایوس کن فضا اور سیاسی حب شاملو کی قوت برداشت سے باہر ہوگئی۔ جن پر اعتقاد تھا جب وہاں سے ہی مایوسی ہوئی۔ جن پتوہر تکیہ تھا وہی ہوا دینے لگے تو شاملو نے اپنے شہر تہران سے ہجرت کی اور امریکا کی طرف رخ کیا۔ امریکا جانے کے بعد شاملو نے بالکل بھی شاعری نہیں کی۔
جدید فارسی ادب کے منظر نامے میں جب احمد شاملو کا ظہور ہوا تو اس وقت فارسی شاعری انیس ویں صدی کی حدود سے بہت آگے نکل چکی تھی۔ ۱۹۰۶ء کے انقلاب سے ایرانی سماج میں جو بنیادی تبدیلی آئی تھی مائش وردوں کے نظریات اور خیالات نے جو نئی راہیں اختیار کی تھیں ایران کی سماجی ادبی زندگی پر اس کے اثرات کا دائرہ اب بہت وسیع ہوگیا تھا۔ نیما پوشیج کی تخلیقی ذہانت نے فارسی شعر کی جو نئی طرح قائم کی تھی اس سے فارسی شعر کا رنگ اور اس کا آہنگ ہی بدل گیا۔ فارسی شاعری نیما کی شاعری کے بعد ایک نئے دور میں داخل ہو چکی تھی۔ جنگ اور انقلاب کے بعد ایک پوری نسل کو نیما پوشیج کے نئے تجربات اور اس کے نقطہ نظر سے متاثر نظر آتی ہے۔ اسی اعتبار سے اگر دیکھا جائے تو جہاں دیگر جدید فارسی شعرا مہدی اخوان ثالث، فروغ فرخ زادہ اگر دیکھا جائے تو جہاں دیگر جدید فارسی شعرا مہدی اخوان ثالث،فروغ فرخ زادہ، سہراب سہیری، نادر نادر پورہ وغیرہ متاثر کیا وہیں احمد شاملو بھی اس سے متاثر ہوئے بنا نہ رہے سکے۔احمد شاہ ملو نیما کو اپنے استاد کا درجہ دیتے ہیں۔ وہ نیا کی بہت عزت کرتے تھے اور بڑے فخر کے ساتھ اس بات کا اعتراف کرتے تھے کہ نیما پوشیج ہی وہ شاعر ہیں جنھوں نے ان کو شعر کے نئے راستے اور نئے آہنگ سے روشناس کروایا۔ احمد شاملو کے معروف ترین شعری مجموعے ہوائے تازہ کی زبان اخیال، تعبیرات سبھی کا بہ نظر غائرجائزہ لیں اس کے ایک ایک لفط میں نیما کا پر تو نظر آتا ہے ۔
شاملو کی شاعری میں ابدیت معنوی زندگی ، محبت، انسانی اقدار اور انسانیت سے بھرپور عناصر کو جس انداز میں پیش کیا گیا ہے وہ بلا شبہ خاصبے کی چیز ہ ۔ ان کی اس نظم کا مطالع قاری کو سوچنے پر ضرور مجبور کر تی ہے کہ ان کی شاعری میں فقط لفظی باری گری یا زباں و بیان نہیں بل کہ ان سے ماوارا ہے :
میں عقیق ، سبزہ اور آفینہ لیے
نئے چاند کو خوش آمدید کہتے چھت پر گیا
آسماں پر ایک یخ بستہ درانتی چمکی
کہ کبوتر کی اڑان ممنوع ہے
صوبروں نے سرگوشیوں میں کچھ کہا
اور سپاہیوں نے چلا چلا کر پرندوں پر تلواریں چلا دیں
چاند
نہیں
کھلا!
اس لیے یہ کہنا بھی بے جا نہ ہوگا کہ جدید فارسی شعرا میں نیما کے بعد احمد شاملو نے ہی جدید فارسی شاعری کو مزید بنیادی تبدیلیوں سے آشنا کیا اور آنے والی نوجوان نسل پر نیما سے زیادہ اثر انداز ہوئے۔ احسان یار شاطر نے لکھا کہ:
Bamdad has been one the major and one of its more productive and searching representative(9)
یوں تو فارسی میں جدید شاعری کا بانی نیما پوشیج کو تسلیم کیا جاتا ہے تاہم نثری نظم کی صیح معنوں میں بنیاد احمد شاملونے ہی رکھی۔ شاملو نے اپنی شاعری کے لیے جو اصول و ضوابط وضح کیے وہ ان کی اپنی تخلیقی ایچ کے تابع ہوتے ہیں انھوں نے ایک ہی نظم میں مختلف طرح کے اوزان کا سہارا بھی لیا ہے وہ نظم و نثر کے ملاپ سے فیض یاب ہوئے ہیں۔ لیکن یہ بات بھی یاد رکھنے کے قابل ہے کہ شاملو کی شاعری فکر کے ان کلیوں سے پاک ہے جو دسروں سے اخذ کیے گئے ہوں ۔ ان کی نظموں میں وطن پرستی کے احسانات و جذبات کے علاوہ فیض احمد فیض کی طرح قید خانے کے تاثرات بھی موجود ہیں۔ جدید ایرانی شاعری میں جو تبدیلی رونما ہوتی وہ جدید شعری افکار و خیالات کا نتیجہ نہیں بل ک نئے سماجی افکار و خیالات ، ایران میں انقلاب اور تبدیلی کے بعد فارسی شاعری میں جدید رجحانات اور تجدید طلبی کا پیش خیمہ ہے۔ یہاں یہ امر بھی قابل غور ہے کہ کچھ دیگر جدید فارسی شعرا کے جیسے شاملو نے حقائق سے صرف نظر کنے کی بہ جائے ان کا مقابلہ کیا اور ان پر قلم اٹھایا۔ ان کی نظم کنار تیرک را بند ینعی تاریک بند گلی کا نکڑ دیکھیں جس میں وہ ایرانی سماج کو بند راستے سے تشبیہ دیتے ہوئے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہیں:
سیاہ بند گلے کے نکڑ پہ
عجب زمانہ ہے نازنین
وہ تمہارا منہ سونگھتے ہیں
مبادا کہ تم نے مجھے کہہ نہ دیا ہو
میں تم سے پیار کرتی ہوں!
وہ تمہارا دل تک سونگھنا چاہتے ہیں
عجب زمانہ ہے نازنین
اور عشق کو
تاریک بند گلی کے نکڑ پہ
وہ کوڑے مارتے ہیں
عشق کو ہمیں تاریک گوشوں میں چھپانا ہوگا
ان مکار بھول بھلیوں میں
اس پیچدار سرد کونے میں
وہ شعر و سردود کے ایندھن سے
آگ جلاتے ہیں
سوچنا بھی خطرے سے خالی نہیں ہے
عجب زمانہ ہے نازنین
وہ جو آدھی رات کو تمہارے دروازے کھٹکھٹات ہیں
تمہارا چراغ توڑنے کو آتے ہیں
تو ہمیں روشنی کو بھی تاریک گوشوں میں چھپانا ہوگا
پھر وہاں قصاب ہیں
ہر گز رگاہ کے نکڑ پہ ہیں ٹھہرے ہوئے
آہنی گولا اور خون آلود چھرے لے
عجب زمانہ ہے نازنین
لبوں پہ تبسم
زبانوں پہ ترانوں
کو ہو کاٹ دیتے ہیں
تو ہمیں اپنے شوق کو بھی تاریا گوشوں میں چھپانا ہوگا
فاری(ایک پرندہ) کو بھونتے ہیں
آتش سوسن ویاسمین سے
عجب زمانہ ہے نازنین
فتح کے نشے میں بدمست شیطان
ہمارے دسترخوان عزا پہ بیٹھا ہے
ہمیں اپنے خدا کو بھی تاریک گوشوں میں چھپانا ہوگا
عجب زمانہ ہے نازنین
فارسی کی جدید شاعری میں تبدیلی کے حوالے سے منیب الرحمان لکھتے ہیں
"شاعری میں تبدیلی پیدا کرنے کے لیے ضروری تھا کہ اسے ایسی اقدار سے روشناس کر لیا جائے جن میں پرانی اقدار سے مقابلہ کرنے کی طاقت ہو”۔(۱۰)
منیب الرحمان کے اس اقتباس کے تناظر میں جب ہم احمد شاملو کی شاعری کا مطالعہ کرتے ہیں تو پتا چلتا ہے کہ انھوں نے بلا شبہ اپنی شاعرہ کو ایسے اقدار سے روشناس کروایا ہے ۔ ہئیت اور اسلوب کے اعتبار سے شاملو کی شاعری منفرد رنگ کی حامل ہے ۔ انھوں نے شاعری کو صدائے انسان کا نام دیا ہے ۔ ان کی نظر میں شاعری عوام کے لیے اور وعوام کے ہر طبقے کےلیے ہے۔احمد شاملو نے شاعری کو مقصدیقت کے تحت برتا ہے ۔ وہ شاعری میں بے باکی اور مزاحمتی رنگ کو اپناتے ہوئے نظر آتے ہیں:
احمد شاملو نے اپنی شاعری کے ذریعے جدید فارسی شاعری کو ایک نیا آہنگ دینے کی کوشش کی۔ ان کی چند نظموں میں شعری انداز اور فنی شعور کا جو انوکھا پن ملتا ہے وہ انھیں جدید فارسی شاعری کی تاریخ میں ہمیشہ زندہ رکھے گا۔ جیسا کہ ڈاکٹر شریف حسین قاسمی لکھتے ہیں:
"ایران میں شعر نو کی تاریخ میں احمد شاملو کا نام نیما کی مانند ہمیشہ زندہ رہے گا۔ شاملو شاعری میں بے جا تعصب سے مبرا اور شاعری کے میدان میں جستجو کے قائل ہیں نئے نئے مگر کامیاب تجربے کرنے کے حامی ہیں اور اس میدان میں خطرات سے کھیلنا انھیں پسند ہے۔ نیما اور شاملو شعر نو کے پیش اور شاعر ہیں”۔(۱۱)
شاملو کے کلام کی مقبولیت کو دیکھنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ عوام کے شاعر ہیں۔شاعری میں تمتیلی انداز بیان شاملو کی شاعری میں تمثیلی انداز بیان حقیقت پسندی کا روپ اختیار کرتا ہے ۔ ان کے مخاطب عام ایرانی ہیں لیکن جب وہ محسوس کرتے ہیں کہ ان کا مخاطب ان کی شاعری سے بے اعتنائی جرت رہا ہے تووہ فکر مند ہوجاتے ہیں۔شاملو چوں کہ شاعری میں تجربات کرنے کے قائل ہیں اس لیے شاعری میں قالب اور مضمون شعر میں ہمیشہ رد و بدل کیا۔ ان کی زندگانی ان کی شاعر میں ہی پنہاں ہے۔ احمد شاملو کے ابتدائی کلام امید اور جوانی کی سرگرمیاں نظر آتی ہیں لیکن عمر کے ڈھلنے کے ساتھ ساتھ امیدو حرکت اور جوانی کی امنگیں بڑھاپے سکون اور اور ناامید کا میں تبدیل ہو کر رہ جاتی ہیں۔ اس حوالے سے احمد شاملو کی نظم "از مرگ” ملاحظہ ہو:
موت سے
میں ہر گز موت سے ڈرا نہیں
اگر چہ اس کے ہاتھوں ابتذال میرے لیے زیادہ توڑنے والا عمل تھا
میرا دل اس دھرتی پہ مرنے سے ڈرتا ہے
جہاں گوکن کی مزدوری
آدمی کی آزادی کی قیمت سے
زیادہ ہوگئی ہے
میں نے سوچا
(تاکہ)دریافت کرلوں
اور آزادانہ(راہ)اختیار کر لوں
اور اپنے جوہر کو ایک قلعے میں بدل دالوں
موت کی قیمت چاہے کتنی ہی بھاری ہو
لیکن میں اعلان کرتا ہوں کہ میں مرنے سے نہیں ڈروں گا
حوالہ جات:
۱۔ محمد ریاض، فارسی ادب کی مختصر ترین تاریخ، سنگ میل پبلشرز ، لاہور
۲۔ راشد ن۔ م، جدید فارسی شاعری، مجلس ترقی ادب، لاہور، ۱۹۸۷ء ، ص۱
۳۔ ایضاً، ص ۱۱۲
۴۔ رضیہ اکبر، ڈاکٹر، ایران میں جدید فارسی ادب کے پچاس سال، حسن پبلشرز، حیدآباد،اندھیرا پردیش، اگست ۱۹۹۱ء، ص۳۰۲
۵۔ راقم کی گفتگو افتخار عارف، سے ، بہ تاریخ ۲۶ اپریل ۲۰۱۹ء، بہ مقام ادارہ فروغ اردو، اسلام آباد
۶۔ مار حسینی، احمد شاملو کی چار نظمیں اور ہمارا سماج، مشمولہ، قلم کار، ۲۳،دسمبر ۲۰۱۷ء
۷۔ راشد ن۔م، جدید فارسی شاعری، مجلس ترقی ادب، لاہور، ۱۹۸۷، ص ۱۴
۸۔ رضیہ اکبر، ڈآکٹر، ایران میں جدید فارسی ادب کے پاس سال، حسن پبلشرز، حیدر آباد، آندھرا پردیش، اگست ۱۹۹۱، ص۳۰۹
۹۔ Critical perspectives of modern persona literature, Thomos M.Ricks, There continent press washing P.5
۱۰۔ نیب الرحمان، جدید فارسی شاعری، ادارہ علوم اسلامی ، علی گڑھ، ۱۹۵۹ء، ص ۶
۱۱۔ شریف حسین قاسمی، ڈآکٹر، جدید فارسی شاعری ایک مختصر جائزہ، اندوپررشین سوسائٹی، دہلی ، ۱۹۷۷، ص۱۳۷
مضمون نگار فرہاد احمد فگار کا تعلق آزاد کشمیر کے ضلع مظفرآباد سے ہے۔اردو زبان و ادب میں پی ایچ ڈی کر رہے ہیں۔کئی کتب کے مصنف ہیں۔ آپ بہ طور کالم نگار، محقق اور شاعر ادبی حلقوں میں پہچانے جاتے ہیں۔ لسانیات آپ کا خاص میدان ہے۔ آزاد کشمیر کے شعبہ تعلیم میں بہ طور اردو لیکچرر خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔ کالج میگزین بساط کے ایڈیٹر ہیں اور ایک نجی اسکول کے مجلے کاوش کے اعزازی مدیر بھی ہیں۔ اپنی ادبی سرگرمیوں کے اعتراف میں کئی اعزازات اور ایوارڈز حاصل کر چکے ہیں۔آپ کی تحریر سادہ بامعنی ہوتی ہے۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔