احمد عطا اللہ کی غزل گوئی

احمد عطا اللہ کی غزل گوئی بہ زبان فرہاد احمد فگار

جب اردو ادب وشاعری لاوارث ہونے لگی تو پروانے اس کی ترویج کےلیے تن من سے میدان عمل میں اترتےرہے اوراترتے رہیں گے۔اندرونی و بیرونی سازشی اپنے وار چلاتی رہیں لیکن دیوانے اپنی ہی دھن میں مگن رہے اور اس کی آبیاری کرتے رہے۔ اردو ادب و شاعری دوسری زبانوں کی طرح ترقی کی منازل طے کرتی جارہی ہے. دنیا کے کسی بھی کونے میں چلے جائیں اس کے دیوانے تن دہی سے اپنے کام میں مگن نظر آئیں گے۔ انھیں نہ تو کسی صلےکی پروا اور نہ ہی ستائش کی تمنا ہے۔ بس اپنے کام میں مگن اس کی ترویج کے لیے کوشاں نظر آتے ہیں۔ اردو کےانھی دیوانوں میں ایک جنونی فرد فرہاد احمد فگار Farhad Ahmed Figar ہے۔جو نہ صرف اس زبان کی ترویج کے لیے کوشاں ہے بلکہ املا کے میدان میں بھی جان کھپا رہا ہے جو جان جوکھم کا کام ہے۔ اس محاذ پر خطۂ بے نظیر کشمیر سے یہ جنونی اس علم کو لے کر بہ جانب منزل ہی رواں دواں ہے۔ بالکل مجروح سلطان پوری کے اس شعر کے مصداق جس میں وہ اپنا مدعا بیان کرتے ہیں کہ:
میں اکیلا ہی چلا تھا جانب منزل مگر
لوگ ساتھ آتے گئے اور کاروں بنتا گیا
اب دیکھنا یہ ہے کب فرہاد احمدفگار کے ساتھ افراد ملتے ہیں اور کارواں بنتا ہے اور اردو املا کی ترویج میں ان کا ہاتھ بٹاتے ہوئے ایک جانثار فوج تیار ہوتی ہے۔

احمد عطا اللہ کی غزل گوئی


میری فرہاد سے بالمشافہ ملاقات تو نہیں لیکن ان کے کام نے مجھے ان کاگرویدہ بنا دیا ہے۔ میرا ان سے رابطہ بہ زریعہ واٹس اپ گروپ ہواجس میں انھوں نے میرے بھیجے گئے میسیج پر املا کی گوشمالی کر ڈالی . یورپ میں رہتے اردو زبان سے انگریزی زبان کی طرف مراجعت ایک قدرتی امر ہے لیکن اپنی قومی زبان اردو کوپسِ پشت ڈالنے کی سزا اور املا کی غلطی کی تصحیح پر زور دارگوشمالی فرہاد جیسا انسان جن کی اس کاز کے ساتھ مکمل وابستگی ہو وہ ہی کر سکتے ہیں۔ان کی اس گو شمالی پر مجھے نہ صرف اچھا لگا بلکہ اپنائیت کا احساس بھی ہوا۔ یہی بات ہماری جان پہچان کا باعث بنی۔میں نے یہ امید باندھ رکھی ہے کہ ان شاءاللہ زندگی میں ان سے بالمشافہ ملاقات کا شرف ضرورحاصل ہوگا۔

figar and MK


اب آگے بڑھتے ہوئے ان کی کتاب "احمدعطااللہ کی غزل گوئی” کے بارے میں اپنے تاثرات نذرِ قارئین کرتا ہوں۔اس کتاب نے مجھے بہت متاثر کیا. کتاب نے مجھے اپنی طرف بے ساختگی سے اردو ادب کی چاشنی کے زریعے راغب کیا اس کے علاوہ وادئ بے نظیر کشمیر کے منتخب شعرا کا تعارف گو کہ احمد عطا اللہ کی شاعری کے توسط سے لکھے ہوئے جملے تھے لیکن ان سب سے غائبانہ تعارف ہوتا چلا گیا۔ اس کے ساتھ ساتھ احمدعطااللہ کی غزل گوئی کے بارے علم میں اضافہ اور ذاتی وجدان بڑھنا شروع ہوا ۔میں فرہاد کا تہِ دل سے احسان مند ہوں کہ انھوں نے انتہائی سلیس اردو کی تمہید باندھتے ہوئے احمد عطا اللہ کی غزل پہ روشنی ڈالی۔ کتاب پڑھتے ہی احمد عطاا للہ کی شاعری کی کئی پرتیں کھلتی چلی گئیں اور ایک ایسا ہیولہ میرے سامنے آن کھڑا ہوا جیسے کہ میری احمد عطا اللہ سے ازلوں سے جان پہچان ہے اور ان کی شعری کو عرصۂ درازسے جانتا ہوں۔یہ صرف فرہاد کی مہارت تھی کہ کیسے لفظوں کےچناؤ سے تمام موتیوں کو ایک لڑی میں پروتے ہوئے ایک مالا تیار کی جس سے مجھ جیسا کم آہنگ انسان بھی لطف اندوز ہو نے پر مجبور ہوا یہ انھی کا خاصا ہے۔دل تو چاہتا ہے کہ ان کی تعریف میں رطب اللسان ہو جاؤں، وقت تھم جائے اور میں اپنی دل کی تمام باتیں سپردِ قلم کرتا چلا جاؤں۔ بس اسی پر اکتفا کرتا ہوں کہ اللہ کرے ذور قلم اور زیادہ۔
احقر
محمود خان
ریٹائرڈ پرنسپل ہاؤسنگ آفیسر
مانچسٹر، انگلینڈ

تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

streamyard

Next Post

جہیز لعنت یا ضرورت

اتوار فروری 12 , 2023
جہیز معاشرے کی ایک ایسی ضرورت یا رسم بن گئی ہے کہ اگر لڑکے والے جہیز لینے سے انکار بھی کریں تو بھی لڑکی والے اپنی عزت کی خاطر
جہیز لعنت یا ضرورت

مزید دلچسپ تحریریں