آہ۔۔۔ تاجروں کے دلوں کی دھڑکن، چوہدری جمشید اختر
چلو مسافر! جلدی کریں اپنے اپنے راستوں اور منزلوں کی جانب رواں ہو جائیں کیونکہ جب گھر مکینوں کو پناہ دینے میں ناکام ہو جائیں ، دل جھوٹی تسلیوں کی صلاحیت سے محروم ہو جائے، امید اور کرم تسلسل اور تواتر سے منقطع ہو جائیں، روح برف میں جمی محسوس ہو، آنکھ میں کرب کی تہہ اتنی بیٹھ جائے کہ آنسوئوں کو راستہ نہ دیتی ہو، جمود ذہنی اور روحانی اتنا بڑھ جائے کہ پتھروں کا گمان ہونے لگے ۔۔۔تو ایسے میں گھر چھوڑ دینا اور ہجرت کر جانا ہی آخری سہارا ہوتا ہے۔ مقیم سے مسافر بننے تک ذہن کے فیصلوں کو عقل نہ بھی تحفظ دے اور ان فیصلوں کی مساعد نہ بھی ہو تو تب بھی مسافر کا ساتھ نہیں چھوڑتی اس لئے یہ اس کی فطرت ہے اور اس حقیقت کو جھٹلایا نہیں جا سکتا ۔ میاں محمد بخشؔ فرما گئے ہیں:
لے او یار حوالے رب سے
میلے چار دناں دے ۔۔۔۔
چوہدری جمشید اختر حسن ابدال میں میرے ابتدائی ہم راز اور بہترین دوستوں میں شامل تھے تین دہائیوں پر مشتمل یہ تعلق باہمی عزت و احترام کے رشتوں پر استوار رہا اگرچہ کچھ عرصہ ان تعلقات میں سرد مہری بھی آئی مگر باہمی احترام کا رشتہ بدستور قائم و دائم رہا، عمر میں چھوٹا ہونے کے ناطے ہمیشہ کوشش رہی کہ میری جانب سے کوئی کمی نہ آئے مگر انہوں نے بھی بڑے ہونے کا حق خوب نبھایا۔ حسن ابدال میں فقیر کی دوستی ہمیشہ اپنی عمر سے بڑوں کے ساتھ رہی ان مرحومین و مغفورین میں سب سے پہلے ڈاکٹر سلطان خان، بھاپا خاکسار عالم جدون، سید ارشاد حسین شاہ، نذر دیوان، بابا غلام فرید، محمد مسکین مغل، صاحبزادہ افتخار الدین، چوہدری شیر اعظم، چاچا محبت خان، بابو خورشید احمد، علامہ غلام محبوب سبحانی، مولانا حامد علی رحمانی، قاری عبدالرحمٰن، محمد زمان صراف، بھاپا ظفر، بھاپا بنیامین اور ایسی کئی بزرگ ہستیاں مجھ ایسے نووارد کے لئے ہمیشہ سایۂ عافیت بنی رہیں۔ جب چوہدری جمشید اختر سے تعلق کی راہیں کھلیں ان دنوں وہ روزانہ راولپنڈی جایا کرتے تھے کبھی کبھار ملاقات ہو جاتی پھر یہ ملاقاتیں بڑھنے لگیں اور پھر وہ وقت بھی آیا کہ جس روز ہم نہ ملتے ایک تشنگی سی ضرور محسوس ہوتی تھی۔ 92ء میں جب روزنامہ خبریں کی اشاعت کا آغاز ہوا تو بندہ ناچیز کو اس علاقہ سے نمائندگی ملی جس کے بعد ہماری دوستی میں مزید گرمجوشی پیدا ہوئی اور 94ء میں جب چوہدری صاحب نے تاجر برادری کے ساتھ اپنے سفر کی ابتدا کی توبندہ فقیر نے نہ جانے یہ فقرہ ان کی ذات کے لئے کیوں لکھا ’’تاجروں کے دلوں کی دھڑکن‘‘ اور اللہ نے میرے اس لکھے کو اس قدر جلا بخشی کہ وہ واقعی آخری دم تک تاجروں کے دلوں کی دھڑکن بنے رہے ۔ مجھے یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ تاجر نمائندہ نہ ہوتے ہوئے بھی انجمن تاجران حسن ابدال کا پہلا اور دوسرا الیکشن کرانے میں پہلی صفوں میں موجود رہا، انجمن تاجران کے ابتدائی دنوں کے کاروائی رجسٹر اس بات کے گواہ ہیں کہ تمام مراحل میرے ہاتھوں انجام پائے۔ چوہدری جمشید بڑی صلاحیتوں کے مالک تھے ان میں قیادت کی خداداد صلاحیتیں موجود تھیں مردِ میدان آدمی تھے اور میدان میں ڈٹ جانا انہی کا خاصا تھا، جب ممتاز عالم دین ہمارے محترم بھائی قاری عبدالرحمٰن مرحوم نے سرزمین حسن ابدال میں قدم رکھا تو ان کی صحبت نے چوہدری صاحب کی زندگی ہی بدل کر رکھ دی۔ وہ جہاں تاجروں کو ان کے حقوق دلانے میں پیش پیش رہتے وہاں قاری صاحب اور مولانا حامد رحمانی کے ساتھ مل کر شہر میں امن و بھائی چارے کی فضا کو ہموار بنانے میں بھی عملی طور پر سرگرم رہتے۔ چوہدری صاحب تادمِ مرگ تاجروں کے قائد تو رہے ساتھ ساتھ ان کا عشقِ رسولؐ سے سرشاری کا یہ عالم تھا کہ ان کے سینے سے ’ صدقے یا رسول اللہؐ ‘ کا بیج کبھی اترا ہوا نہ دیکھا۔ وہ مرکزی سیرت کمیٹی حسن ابدال کے صدر بھی تھے ان سے قبل یہ دونوں عہدے بھاپا خاکسار عالم جدون مرحوم کے پاس ہوا کرتے تھے ۔ چوہدری جمشید اختر کی زندگی جدوجہد سے عبارت تھی انہوں نے صحافت کے میدان میں بھی طبع آزمائی کی اور نیوز ایجنٹ کے ذریعے متعارف ہوئے یہ مرتبہ بابائے صحافت حاجی محمد مسکین مغل مرحوم کے بعد ان کے حصے میں آیا، انہوں نے تاجروں کے کئی نمائندوں کو بھی میدانِ صحافت میں متعارف کرایا اور آج ان میں سے بعض بڑے پائے کے صحافی ہیں۔ تاجروں کے ساتھ ان کے لگاؤ کا یہ عالم تھا کہ انہوں نے اپنا اوڑھنا بچھونا اسی شعبہ کو بنا لیا تھا انہی کی قیادت میں تاجر برادری نے دن رات ایک کر کے ضلع اٹک میں پہلی بار بازاروں میں سیکورٹی سسٹم قائم کر کے ایک نئی مثال قائم کی جس کا اعتراف پولیس کے اعلیٰ افسران نے بھی کیا۔ چوہدری جمشید نے اپنے والد چوہدری شیراعظم مرحوم کے نقش قدم پر چلتے ہوئے تاجروں کے مسائل حل کرنے کے لئے متعدد بار انتظامیہ کے خلاف ہڑتالیں اور احتجاج بھی کیے ۔ چوہدری صاحب خوش خوراک انسان تھے کھانے سے ہاتھ کھینچ لینا ان کے بس میں نہ تھا جب انہیں شوگر کا مرض لاحق ہوا تو فقیر انہیں بعض اشیائے خوردونوش سے باز رکھنے کی جب بھی کوشش کرتا تو کہتے ’’ملک صاحب! موت کا دن مقرر ہے کھانے پینے سے موت نہیں آتی‘‘۔ اس بے احتیاطی نے انہیں مختلف بیماریوں میں مبتلا کر دیا تھا اور آخری ایام میں وہ شدید تکلیف میں تھے۔ وہ اپنے چھوٹے بھائی نسیم اختر سے بہت پیار کرتے تھے اور نسیم بھی بڑے بھائی کو بے پناہ عزت دیا کرتے تھے اور احتراماٌ ان کے سامنے نہیں بیٹھتے تھے، چھوٹے بھائی کی اچانک موت نے چوہدری صاحب کو توڑ دیا تھا اور بالآخر 6ربیع الاول کو وہ اپنے دائمی سفر پر روانہ ہو گئے اور اپنے اکلوتے فرزند وقار علی پر بڑی بھاری ذمہ داریاں ڈال کر دنیا سے رخصت ہو ئے جس کی متانت، شرافت اور سنجیدگی کا ہر شہری معترف ہے ۔ دعاہے کہ اللہ ہمارے عزیز دوست چوہدری جمشید اختر کو اپنے جوارِ رحمت میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے اور وقار اور دیگر خاندان کو صبر جمیل سے نوازے۔
شاہد اعوان
بلاتامل
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔