پنجاب میں زرعی انقلاب وقت کی ضرورت
پیکیجز گروپ آف کمپنیز کے مالک سید بابر علی شاہ صاحب کی عمر 98 سال ہے. اس عمر میں بھی ان کی جسمانی اور دماغی صحت نوجوانوں والی ہے۔ وہ ایک ٹی وی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے فرما رہے تھے کہ اچھی صحت اور کامیابی کا راز یہ ہے کہ آپ دوسروں کو معاف کرنا سیکھیں، کسی کو آگے بڑھتے ہوئے دیکھ کر خوش ہوں، کبھی حسد کے نزدیک نہ جائیں اور ایمانداری کے معاملے میں تو کسی بھی قیمت پر کوئی کمپرومائز نہ کریں۔
اسی کی دہائی میں لاہور میں واقع پیکیجز فیکٹری کا نام پہلی بار سنا تھا جو سینکڑوں ہزاروں نوجوانوں کے لیئے روزگار کا ذریعہ تھی۔ اس عہد میں پنجاب بھر سے لوگ آ کر وہاں کام کرتے تھے۔ یہ گروپ آج بھی پاکستان کے چند بڑے کاروباری گروپس میں سرفہرست ہے اور پہلے سے بھی زیادہ ترقی کی منازل طے کر رہا ہے۔ اس گروپ کے پروان چڑھنے اور ترقی کرنے کے شائد یہی پائیدار اصول ہوں گے جنہیں بابر علی شاہ صاحب نے اپنے انٹرویو میں بیان کیا۔ جب کوئی کاروبار شروع کیا جائے تو سب سے پہلے ہوم ورک اور منصوبہ بندی کی جاتی ہے، جبکہ محنت اور ایمانداری کا نمبر بعد میں آتا ہے۔ کاروبار میں محنت نتائج پیدا کرتی یے اور ایمانداری مارکیٹ میں آپ کے نام کی دھاک بٹھاتی ہے۔
ہمارے ملک میں نئے کاروبار کا آغاز ہی میں ناکام ہونے کی شرح اسی لیئے زیادہ ہے، جو 80 فیصد تک ہے، کہ لوگ کاروبار کی قبل از وقت منصوبہ بندی نہیں کرتے، مارکیٹ کا جائزہ نہیں لیتے کہ کونسا کاروبار شروع کیا جائے اور کس انداز اور طریقے سے کیا جائے کہ مقابلے کے باوجود کامیابی حاصل ہو جائے۔ حالانکہ پاکستان میں کاروبار کی کامیابی کے دیگر ممالک کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ مواقع موجود ہیں۔ پاکستان بنیادی طور پر ایک زرعی ملک ہے اس کے باوجود ساٹھ اور ستر کی دہائی تک صنعت کو بھی عروج حاصل تھا۔ لیکن زراعت کے حوالے سے بھی کاروبار کو مجموعی عروج حاصل ہو سکتا ہے۔ لیکن حکومت کو زراعت کی ترقی میں زیادہ فعال کردار ادا کرنا ہو گا، خصوصی طور پر پنجاب حکومت کو، کیونکہ پنجاب پاکستان کا سب سے زیادہ وسائل رکھنے والا صوبہ ہے۔
ہالینڈ رقبے کے لحاظ سے پاکستان تو کیا پنجاب سے 16گنا چھوٹا ملک ہے۔ یہ ملک سالانہ تقریبا 8کروڑ ٹن دودھ پیدا کر کے دنیا کا سب سے بڑا ڈیری برآمد کنندہ ہے، جو 50 ملین سے زائد مویشیوں کے ساتھ دنیا کا چوتھا بڑا دودھ پیدا کرنے والا ملک ہے، یہ اپنی 65کروڑ ٹن سالانہ دودھ کی پیداوار کے باوجود عالمی مارکیٹ میں نمایاں مقام نہیں رکھتا ہے۔
پنجاب حکومت اگر جدید ڈیری فارم ٹیکنالوجی متعارف کروائے جیسا کہ خود کار ملکنگ سسٹم، جینیاتی بہتری اور سمارٹ فیڈنگ ٹیکنیکس، تو دودھ کی پیداوار میں تیس سے چالیس فیصد تک اضافہ کیا جا سکتا ہے۔ اس مد میں فیصل آباد کی زرعی یونیورسٹی بھی اپنا نمایاں کردار ادا کر سکتی ہے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ حکومت ڈیری فارم بنانے کے لیئے بلا سود قرضہ جات بھی دیتی ہے مگر وہاں کرپشن اور سفارشات کے ذریعے قرضہ دیا جاتا ہے جسے ان مقاصد کے لیئے استعمال نہیں کیا جاتا جس کے لیئے قرضہ دیا جاتا ہے۔ اگر کسانوں کے لیئے قرضوں کا حصول آسان بنایا جائے، کولڈ سٹوریج نیٹ ورک قائم کیا جائے اور ڈیری پروسیسنگ یونٹس بنائے جائیں، تو پاکستان نہ صرف 3 ارب ڈالر سالانہ دودھ کی درآمدات کم کر سکتا ہے بلکہ 5 سے 7 ارب ڈالر کی ڈیری برآمدات سے قیمتی زرمبادلہ بھی حاصل کر سکتا ہے۔ یہ اصلاحات لاکھوں کسانوں کو غربت سے نکال کر پاکستان کو ایک "ڈیری پاور ہاؤس” میں بدل سکتی ہیں۔
زراعت کو باقاعدہ ایک صنعت بنانے کے لیئے پنجاب کے پاس خصوصی طور پر وافر مقدار میں ذرائع اور وسائل موجود ہیں جس سے پیکجیز جیسا کاروباری اور صنعتی انقلاب لایا جا سکتا ہے۔ پنجاب کی وزیراعلٰی محترمہ مریم نواز جس سرعت سے کام کر رہی ہیں اب وقت آ گیا ہے کہ وہ اس شعبے کی طرف بھی توجہ دیں کہ پنجاب اپنی زراعت سے جڑے شعبوں کو عالمی معیار پر لے جا کر خود کفالت اور برآمدات میں انقلاب لائے۔ پنجاب بنیادی طور پر زرعی اور صنعتی صوبہ ہے۔ پنجاب کے پاکستان کا بہترین انفراسٹرکچر اور نقل و حرکت کے لیئے روڈ سسٹم بھی موجود ہے اور سب سے بڑھ کر اس کے پاس دنیا کا اعلی اور سب سے بڑا نہری نظام بھی موجود ہے۔
پنجاب کی نومنتخب پہلی خاتون وزیر اعلی محترمہ مریم نواز صاحبہ کا بیک گراؤنڈ بھی کاروبار اور صنعت و حرفت سے ہے۔ جس طرح وہ پنجاب کے ہر شعبے میں بہتری لانے کی کوششوں میں مصروف ہیں، اگر وہ زراعت اور ڈیری فارمز کی طرف بھی توجہ دیں، اصلاحات نافذ کریں اور اس مد میں آسان شرائط پر قرضہ جات جاری کرنا شروع کریں تو کوئی وجہ نہیں کہ پنجاب ہالینڈ جیسے چھوٹے ملک سے کئی گنا زیادہ ڈیری برآمدات کر سکتا ہے، امید ہے محترم المقام وزیراعلٰی پنجاب تک یہ گزارشات پہنچ گئیں تو وہ جتنی متحرک نظر آ رہی ہیں، دیگر شعبوں کی طرح اس طرف بھی ضرور توجہ دیں گی۔
Title Image by JackieLou DL from Pixabay

میں نے اردو زبان میں ایف سی کالج سے ماسٹر کیا، پاکستان میں 90 کی دہائی تک روزنامہ "خبریں: اور "نوائے وقت” میں فری لانس کالم لکھتا رہا۔ 1998 میں جب انگلینڈ گیا تو روزنامہ "اوصاف” میں سب ایڈیٹر تھا۔
روزنامہ "جنگ”، لندن ایڈیشن میں بھی لکھتا رہا، میری انگریزی زبان میں لندن سے موٹیویشنل اور فلاسفیکل مضامین کی ایک کتاب شائع ہوئی جس کی ہاؤس آف پارلیمنٹ، لندن میں 2001 میں افتتاحی تقریب ہوئی جس کی صدارت ایم پی چوہدری محمد سرور نے کی اور مہمان خصوصی پاکستان کی سفیر ڈاکٹر ملیحہ لودھی تھی۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
کیا آپ بھی لکھاری ہیں؟اپنی تحریریں ہمیں بھیجیں، ہم نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ |