زراعت پیشہ، غیر زراعت پیشہ اور ساہوکار

زراعت پیشہ، غیر زراعت پیشہ اور ساہوکار

 ہندو ساہوکار سود مرکب پر قرض دیتے تھے ۔سود کی شرح ایک آنہ فی روپیہ فی مہینہ تک ہوتی تھی ۔یہ پچھتر فی صد سالانہ بنتے ہیں ابا جی ساہوکاروں کا طریقہ واردات بتاتے ہوئے کہتے تھے ۔ جب کسی زمیندار کے ہاں شادی ہوتی تو لالا جی پہنچ جاتے ۔چودھری صاحب دل کے ارمان نکالو ۔جتنا پیسہ ضرورت ہو بندہ حاضر ہے۔واپسی کی فکر مت کرو ،جب دل کرے دے دینا۔ اس کو دل کھول کر قرضہ دیتے ۔ کھاتہ ہندی میں لکھتے اور چودھری صاحب کا انگوٹھا لگوا لیتے۔ ساہوکار دوبارہ پانچ چھ سال بعد شکل دکھاتا اور عرض کرتا چودھری صاحب کچھ حساب کتاب دیکھ لیتے ہیں .اس وقت تک رقم اچھی خاصی بن چکی ہوتی تھی۔ چودھری صاحب اس کو ادا کرنے کی طاقت نہ رکھتے تو ان کی زمین پر ساہوکار کا قبضہ ہو جاتا تھا ۔

  زمین داروں کو ساہوکاروں کے استحصال سے بچانے کے لئے سن 1900 میں برٹش گورنمنٹ نے قانون بنایا.اس کا نام تھا(Land Alienation Act)اس قانون کے مطابق لوگوں کو زراعت پیشہ اور غیر زراعت پیشہ ذاتوں میں تقسیم کر دیا گیا۔ ساہوکار اور گاؤں کی خدمت کرنے والے غیر زراعت پیشہ قرار پائے۔زراعت پیشہ ذاتوں کا سرکاری گزٹ میں اعلان کر دیا گیا ۔غیر زراعت پیشہ لوگ کسی صورت میں زراعت پیشہ لوگوں کی زمین کے مالک  نہیں بن سکتے تھے ۔ نہ خرید کر نہ قرضہ کی  غیر وصولی پر ۔ اس طرح سے زمینداروں کی زمینیں ساہوکاروں کے ہاتھوں میں بکنی اور سود میں ضبط بند ہو گئیں۔غیر زراعت پیشہ کی زمین زراعت پیشہ بھی خرید سکتا تھا اور غیر زراعت پیشہ بھی۔

  ” 1904 میں حکومت نے زراعت پیشہ اقوام کی فہرست شائع کی اس میں راولپنڈی ڈسٹرکٹ گیزیٹئیر 1907 کے مطابق  راولپنڈی اور اٹک کی یہ اقوام شامل ہیں ۔ آوان ، ڈھنڈ عباسی ،گکھڑ، گوجر ،جٹ،جودڑا،کھٹڑ،قریشی ، ملیار، مغل ، پٹھان، راجپوت ،ستی اور سیّد ۔ ہمارے گائوں ملھوالہ اٹک کی اسی فیصد آبادی ملیار اور جودڑا  ہونے کی وجہ سے زراعت پیشہ شمار ہوئی ۔ہماری فیملی کاشتکار تھی لیکن عرف عام میں  میال  کہلاتی تھی اور ہمارے نانکے بھی کاشتکار تھے لیکن   کھوکھر  کہلاتے تھے ۔اب میال اور کھوکھر اس سرکاری فہرست میں شامل نہیں تھےاس وجہ سے دونوں خاندان غیر زراعت پیشہ قرار پائے۔

ڈھڈھمبر کا ایک ہندو        رام داس ولد کالو شاہ    کھتری ملہووالا میں دکان چلاتا تھا ۔اس کی دکان قاضی دیدار بخش لوگوں کے پرانے گھر کے پاس تھی ۔ میاں معز اللہ ملیار نے اس سے سود پر قرض لیا ہوا تھا۔ ایک دن لالا جی کہنے لگے  میاں معز اللہ ڈھڈھمبر میں میری زمین ہے۔مہربانی کر کے اس میں ہل چلا دو ۔میاں معز اللہ حکم بجا لایا۔ہل چلا کر رخصت ہونے کی اجازت مانگی ۔ ارشاد ہوا!بیلوں کی جوڑی یہیں چھوڑ جاؤ ۔بس تمہارے قرض کا  ویاج  (سُود) وصول ہو گیا۔ اصل زر کے بارے میں پھر کسی مناسب موقعہ پر بات کریں گے۔   میاں معز اللہ نے بادل ناخواستہ بیل چھوڑے ۔ہل کندھے پر رکھا اور واپس چل دیے ۔   یہ سارا  ظلم ( Land Alienation Act) کےباوجود تھا۔ بس اتنا فرق تھا کہ زمین بچ جاتی تھی۔

زراعت پیشہ، غیر زراعت پیشہ اور ساہوکار

  ہم لوگوں نے 1967 میں پرائمری سکول ملھوالہ اٹک سے پانچویں جماعت پاس کی ۔حاضری رجسٹر پر ایک کالم بنا ہوا تھا ۔ زراعت پیشہ یا غیر زراعت پیشہ ۔ اس کی حکمت کبھی سمجھ نہیں آئی کہ سکول میں اس تقسیم کا کیا مطلب ھے ۔عاشق حسین بٹالوی صاحب نے اقبال کے آخری دو سال کے نام سے کتاب لکھی ھے ۔اس  میں علامہ کے صوبائی اسمبلی کے ممبر کی حیثیت سے سیاسی کام کا احاطہ کیا گیا ہے۔اس کتاب کے صفحہ نمبر 183 پر زراعت پیشہ طالب علموں سے آدھی فیس کا ذکر تھا حکومت کے اس حکم کی غرض یہ تھی کہ تعلیمی اعتبار سے پسماندہ زراعت پیشہ لوگ کچھ پڑھ لکھ لیں۔

دو واقعات پرانے کاغذات دیکھنے سے میرے علم میں آئے جن میں غیر زراعت پیشہ کی زمین غیر زراعت پیشہ نے خریدی۔ہمارے نانا جی عبد الحق  صاحب پٹواری تھے اور ان کے بھائی عبد الجلیل صاحب ٹیچر تھے۔ دونوں کے مالی حالات بہتر ہوئے تو انہوں نے زمین خریدنے کا سوچا۔ بہاول پور ریاست پنجاب سے الگ تھی ۔وہاں لینڈ ایلینیشن ایکٹ والا رولا نہیں تھا ۔عبدالجلیل صاحب نے بغیر دقت کے وہاں زمین خرید لی۔  ملہووالا میں غیر زراعت پیشہ ہونا زمین خریدنے کی راہ میں رکاوٹ بن گیا۔عبدالجلیل صاحب نے1916 میں  ہرنیانوالا تحصیل راولپنڈی میں ایک میراثی  سے پندرہ کنال چاہی زمین خرید لی۔ قانون کے مطابق غیر زراعت پیشہ آپس میں زمین کا لین دین کرسکتے تھے.یہ زمین اب ہمارے ہم زلف آفتابِ قاضی کی ملکیت ہے۔

1916  کا اشٹام برائے رجسٹری ایک  اور دو بجے کے درمیان بعد دوپہر بمقام کچہری تحصیل فتح جنگ پیش ہوا ۔اس کے مطابق ہرنیانوالا تحصیل فتح جنگ کا رقبہ حیدر ولد سلطان ذات مراثی پیشہ گداگری سکنہ ڈھلیاں کا ہے اس نے محمد قاسم ولد فضل احمد قوم میال چوہان پیشہ امامت و زمینداری اور عبدالجلیل ولد خورشید ساکن ملھوالہ کو بیچا۔محمد قاسم صاحب   عبدالجلیل صاحب کے چچا تھے ۔

 دوسری  اس قسم کی فروخت کی تفصیل 1938 کے اشٹام  میں ہے ۔اس کے مطابق   غیر زراعت پیشہ کھتری کی طرف سے غیر زراعت پیشہ ترکھان کے نام زمین کی فروخت کی گئی  ہے ۔جسونت سنگھ ولد جگت سنگھ ذات کھتری سکنہ چکری تحصیل فتح جنگ نے رقبہ واقعہ ملہووالہ مع ہر قسم چوب و چکل و درختان بمقابلہ آٹھ سو روپے  پاس بہادر ولد شرفا قوم کھوکھر  و  عباس  و  نیک پسران امیر قوم ترکھان بیچ دی۔( چوب و چکل کا مطلب کنویں کا ڈھول چکلی سارا سامان ہے )۔

1938 بقلم سیتا رام عرائض نویس

 بہاری لعل سنت سب رجسٹرار پنڈی گھیب

 بشناخت لالہ ٹوریندہ مل ممبر کمیٹی پنڈی گھیب گواہ ہمیراج ولد مہر چند کھتری سکنہ پنڈی گھیب

  جن لوگوں کو غیر زراعت پیشہ قرار دیا گیا ان سے سے اکثریت تو چپ ہو کر بیٹھ گئی ۔ جن لوگوں کے پاس پیسہ تھا اور ثبوت بھی تھا انہوں نے زنجیر عدل ہلائی اور عدالت سے زراعت پیشہ کا فیصلہ اپنے حق میں کرا لیا ۔ اس نوع کے تین واقعات پڑھنے اور سننے میں آئے ہیں۔

تولا رام کامل پور موسیٰ ضلع اٹک کا اروڑا سکھ تھا۔ تولا رام  امیر ٹھیکیدار تھا۔ تولا رام بلڈنگ  کیمبل پور کی عمارت ان کا گھر تھا .1925 میں وہ زمین خریدنا چاہتا تھا۔  لینڈ ایلینیشن ایکٹ  اس کی اجازت نہیں ديتا تھا۔ کیونکہ اروڑہ غیر زراعت پیشہ ذات تھی۔

تولا رام نے قوم کی صحت( درستگی) کا مقدمہ لڑا اور جیت گیا۔ انہیں آگرہ کا جنجیرا راجپوت (زراعت پیشہ) قرار دیا گیا۔ چنانچہ وہ کیمبل پور کے آس پاس  مرزا اور جسیاں کے دیہاتوں  میں زرعی زمین خریدنے کے قابل ہو گیا۔

ہماری ملھوالہ اٹک کی قاضی فیملی نے 1935 میں لاہور ہائی کورٹ میں قوم صحت  درستگی کا مقدمہ لڑا۔عدالت کے فیصلے سے ذات میال سے بدل کر چوہان راجپوت ہو گئی۔ اس طرح  یہ خاندان زراعت پیشہ قرار پایا اور زمین خریدنے کے قابل ہوگیا ۔ ان عدالتی مقدمات میں ۔  میراثی   کی شہادت  گواہی   کی بہت اہمیت تھی۔ میراثی معاشرے کا بہت اہم حصہ تھے۔ وہ  گاؤں کے شجرہ نسب کو یاد رکھتے تھے اور انہیں اپ ڈیٹ کرتے رہتے تھے۔ ایک  میراثی تھا بابا داتا ۔ اس کے پاس ہمارے علاقوں کا پورا ڈیٹا تھا۔ میں اس سے کبھی نہیں ملا۔

 میری بڑی خالہ آپا عجائب صاحبہ  کے بیان کے مطابق ان کا نانکا خاندان کھوکھر سے  قطب شاہی اعوان بننے کے لیے اسی قانونی قوم    صحت کے عمل سے گزرا۔ یہ  حضرات فروری 1947 میں   قاضی عبدالحق صاحب کی وساطت سے پنڈیگھیب عدالت میں پیش ہوئے اور اسی وجہ سے اس مقدمے کے کاغذات عبدالحق صاحب کی فائلوں میں محفوظ ہیں ۔

نانا جی قاضی عبدالحق صاحب کے کاغذات میں 1920 میں بخشا ولد مہرا ساکن گنڈاکس کی کھوکھر کی بجائے  آوان کھوکھر صحت قوم کا ذکر ھے۔ صحت کا مطلب تصحیح (correction) ہے ۔اس پر پٹواری گیان سنگھ کی تصدیق ہے ۔گنڈاکس والے کھوکھروں نے اپنے ڈھڈھمبر کے رشتے داروں کا حوالہ دیا کہ وہ آوان کھوکھر لکھواتے ہیں اور آوان کی وجہ سے زراعت پیشہ قوم میں شمار ہوتے ہیں اس طرح گنڈاکس والے کھوکھر سے ترقی پا کر آوان کھوکھر بن گئے۔ملھوالہ کے کھوکھروں  بھی اپنی قوم ٹھیک کروا کر آوان کھوکھر لکھوانا چاہتے تھے ان کی دلیل یہ تھی کہ ہمارے گنڈاکس اور ڈھڈمبر والے کھوکھر رشتے دار آوان کھوکھر ہیں اس لئے ہمیں بھی آوان کھوکھر لکھا جائے ۔اس سلسلے میں وہ پنڈی گھیب عبدالحق صاحب کے پاس تشریف لائے ۔ ہماری خالہ آپا عجائب نے ان حضرات کی آمد کی تصویر کھینچ کر رکھ دی ان کے بقول نانکے لانگڑاں دھرکینے پنڈی  گھیب ہمارے گھر آئے۔( امیر لوگ ٹخنوں سے کافی نیچے تہبند رکھتے تھے جو چلنے کی صورت میں زمین پر گھسٹتی رہتی تھی )۔  میں نے والد صاحب سے ان کی شان نزول پوچھی تو پتہ چلا  صحت قوم  کا رولا تھا  ۔ اس زمانے میں (Awan) کو اردو میں آوان لکھتے تھے ۔ پھر پتہ نہیں کب اس کے ہجے  أعوان میں بدلے  اور قطب شاہی کا اضافہ پتہ نہیں کب ہوا۔

 کھوکھروں کے دو شجرہ نسبوں کی 1947  کی نقول قاضی عبدالحق صاحب کے کاغذاتِ میں محفوظ ہیں۔ شجرہ نسب کا سرکاری نام  فارم نمبر 36 پٹواری  ہے۔ پہلے شجرہ نسب کا نام شجرہ نسب  مزارعان موروثی موضع ملہووالہ علاقہ سیل تحصیل پنڈی گھیب ضلع راولپنڈی مرتبہ بندوبست ثانی  از دفتر صدر مال کیمبلپور ۔قوم کھوکھر راولپنڈی ضلع کا دوسرا بندوبست 1887 میں ہوا تھا۔اس وقت پنڈی گھیب ضلع راولپنڈی کی تحصیل تھی ۔اس کی نقل فیس دو روپے ہے۔ دوسرے شجرہ دوسرے شجرہ نسب کا  نام  ھے ۔شجرہ نسب موروثیان موضع ملہووالہ تحصیل پنڈی گھیب ضلع اٹک مرتبہ بندوبست سوم از دفتر صدر مال کیمبلپور  قوم کھوکھر۔تیسرا بندوبست 1907 میں ہوا اس وقت تک ضلع اٹک بن چکا تھا۔اس کی نقل فیس تین روپے ہے ۔ ان دونوں شجرہ نسبوں میں قوم  کھوکھر  درج آوان کے سابقے یا لاحقے کے بغیر۔

 عبدالجلیل صاحب نے قوم صحت کے بعد گاؤں میں کافی زمینیں خریدیں ۔ان میں پانچ سو کنال  نلہ بھی شامل تھا۔ 2021 میں عبدالجلیل صاحب کے  پوتوں نے  نلہ حاجی نیاز علی کی فیملی کو بیچ دیا۔  ہماری بیگم صاحبہ کا بھی اس میں حصہ تھا۔  اس ڈیل سے ہمارے زر مبادلہ کے ذخائر میں اچھا بھلا اضافہ ہوا ہے ۔ اس کے لئے ہم۔ آئی ایم ایف(Inlaws Monetary Fund) کے شکر گزار ہیں۔

 جن  حضرات کی قوم غیر زراعت پیشہ شمار ہوتی تھی ان میں سے صاحب حیثیت لوگ اپنے کسی زراعت پیشہ رشتےدار یا دوست کے نام پر زمین خرید لیتے تھے ۔پاکستان بننے کے بعد  غیر زراعت پیشہ کا رولا ختم ہوگیا اور ہر کوئی زمین اپنے نام کرا سکتا تھا ۔۔ اب کچھ رشتے داروں نے اصلی مالکوں کو زمین واپس کرنے سے انکار کردیا۔

 مستری خاندان کے بابا نیک اور عباس کو قانونی طور پر زمین خریدنے کی اجازت نہیں تھی۔ انہوں نے میرے نانا جی کے نام زمین خریدی   ۔ٹکیاں کچھی  اور  ار پڑے پر ان بزرگوں کے ساتھ ساتھ رقبے اس بات کے گواہ ہیں۔ یہ ساری زمینیں 1947  میں مناسب کاغذی کارروائی کے بعد واپس کر دی گئیں۔

 ہماری فیملی میں قوم صحت کا ایک پریشان کن واقعہ پیش آیا۔  ایک صاحب  در محمد صاحب کی قوم کاغذوں میں میال تھی۔ ان کا داماد خورشید انہی کی طرح دیکھنے میں میال نظر آتا تھا لیکن کاغذی کارروائی میں  چوہان راجپوت  تھا۔

سسر صاحب کے پیسوں سے زمین خریدی گئی ۔ لیکن ان کے نام پر نہیں چڑھ سکتی تھی ۔ انہوں نے بلا جھجک داماد کے نام سے خرید لی۔ زمین اپنے نام دیکھ کر داماد کی نیت بدل گئی۔ تیس سال تک جھگڑا اور بدمزگی  چلتی رہی ۔ عدالت میں کیس چل نہیں سکتا تھا ۔  سسر کا انتقال ہو گیا۔ بہت بعد 1991میں داماد بھی چل بسے۔  ان کے بعد ان کے بیٹے نے وہ  چار سو کنال زمین ننّھال کو واپس کر دی۔۔اللہ پاک ہم سب کی غلطیاں معاف کرے۔

آمین

  پاکستان کے قیام کے ساتھ ہی ایلینیشن آف لینڈ ایکٹ کو ختم کر دیا گیا اور ہر ذات کو زمین رکھنے کی اجازت دی گئی۔ ہندوستان میں یہ قانون آج  تک کچھ ریاستوں میں رائج ہے ۔ ہمارے گاؤں میں موچی ، ترکھان ،کمہار اور نائی اب ماشاءاللہ زمینوں کے مالک ہیں اور کاشتکاری کرتے ہیں۔ مصلی حضرات اپنی  انتہائی سستی  کی وجہ سے زمین خرید نہ سکے  اور جولاہوں کو اپنے کام کی جمہ وقتی مصروفیت زمینداری میں مانع ہوئی۔

يا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْناكُمْ

مِنْ ذَكَرٍ وَ أُنْثى‏ وَ جَعَلْناكُمْ

شُعُوباً وَ قَبائِلَ لِتَعارَفُوا إِنَّ أَكْرَمَكُمْ

عِنْدَ اللَّهِ أَتْقاكُمْ إِنَّ اللَّهَ عَليمٌ خَبير

اے لوگو، بیشک ہم نے تمہیں ایک مرد اور عورت سے پیدا کیا اور تمہیں قومیں اور قبیلے بنائے تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچانو۔ بے شک اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو تم میں سب سے زیادہ متقی ہے۔ بے شک اللہ جاننے والا اور باخبر ہے۔‘‘ (49:13)

تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

streamyard

Next Post

خاور مانیکا انٹرویو کے محرکات اور پیپلزپارٹی و نون لیگ کا اخلاقی ظرف

پیر نومبر 27 , 2023
جنرل الیکشن کی آمد آمد ہے تو کسی حد تک سوچا جا سکتا ہے کہ یہ انٹرویو اس اعتبار سے ایک “پلانٹڈ” انٹرویو تھا
خاور مانیکا انٹرویو کے محرکات اور پیپلزپارٹی و نون لیگ کا اخلاقی ظرف

مزید دلچسپ تحریریں