پاکستان اور روس کے درمیان معاہدات
ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی٭
(ورلڈ ریکارڈ ہولڈر)
ایک اچھی خبر یہ ہے کہ پاکستان اور روس کے مابین دوطرفہ تعلقات کا حالیہ احوال 9ویں بین الحکومتی کمیشن کے اجلاس میں سامنے آیا ہے جہاں ماسکو میں مختلف اہم معاہدوں پر دستخط کیے گئے۔ ان معاہدات میں تجارتی و معاشی تعاون، صنعتی شعبے میں تعاون، اور تعلیمی میدان میں اشتراک شامل ہیں۔
پاکستان اور روس کے تعلقات کا آغاز سرد جنگ کے دور میں اس وقت ہوا تھا جب دونوں ممالک عالمی سیاست کے مختلف کیمپوں میں تھے۔ 1965 میں پاکستان کے سابق صدر ایوب خان اور سوویت یونین کے رہنما لیونیڈ بریژنیف کے درمیان ملاقات ہوئی، جس کے بعد تعلقات میں کچھ حد تک بہتری آئی۔ 1970 کی دہائی میں بھٹو دور حکومت میں تعلقات مزید مضبوط ہوئے۔ اس کے بعد کئی دہائیوں تک تعلقات میں سرد مہری رہی، جو نائن الیون کے بعد عالمی سیاست میں تبدیلیوں کے سبب دوبارہ گرمجوشی میں بدل گئی۔
دونوں ممالک کے لیے حالیہ اجلاس کی بڑی اہمیت ہے، 9ویں بین الحکومتی کمیشن کے اجلاس نے دونوں ممالک کے تعلقات کو ایک نئی جہت دی۔ پاکستان کے وزیر توانائی سردار اویس احمد لغاری کی قیادت میں وفد کی ماسکو میں موجودگی سے ظاہر ہوتا ہے کہ دونوں ممالک دوطرفہ تعلقات کو فروغ دینے کے لیے سنجیدہ ہیں۔جن معاہدات پر دستخط کیے گئے ان میں سے چند اہم معاہدات درج ذیل ہیں:
پاکستان اور روس کے درمیان صنعتی شعبے میں تعاون کے لیے کئی معاہدے طے پائے ہیں۔ جن میں سے صنعتی معاہدہ پاکستان میں صنعتی ترقی کی رفتار تیز کرنے میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔
کامسیٹس اور پشاور یونیورسٹی نے روسی تعلیمی اداروں کے ساتھ معاہدے کیے ہیں، جو دونوں ممالک کے تعلیمی میدان میں باہمی تعاون کو فروغ دیں گے۔
انسولین کی مشترکہ تیاری کے معاہدے سے صحت کے شعبے میں بڑی تبدیلی آسکتی ہے، خصوصاً ذیابیطس کے مریضوں کو کم لاگت پر انسولین کی فراہمی ممکن ہوگی۔
نیشنل وکیشنل ٹیکنیکل انسٹیٹیوٹ کا اشتراک بھی معاہدے کا حصہ ہے۔ روس کی یونیورسٹی کے ساتھ ایم او یو پر دستخط نے تکنیکی تعلیم کے شعبے میں ایک نئے باب کا آغاز کیا ہے۔
مستقبل میں تجارتی معاملات اور خام تیل کی خریداری میں بھی معاہدات پر دستخط کیے جائیں گے۔ روس کے ساتھ خام تیل کے معاملے پر جاری بات چیت ظاہر کرتی ہے کہ مستقبل میں یہ معاہدہ ملکی معیشت کے لیے ایک اہم موڑ ثابت ہوسکتا ہے۔
ان معاہدات کے اثرات نہ صرف پاکستان کی صنعتی اور تعلیمی ترقی پر مرتب ہوں گے بلکہ دوطرفہ تجارت میں اضافے کا بھی سبب بھی بنیں گے۔ روس کے ساتھ تعلقات کی مضبوطی چین کے بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو کے تناظر میں پاکستان کو خطے میں ایک اہم تجارتی مرکز بنا سکتی ہے۔ گو کہ یہ معاہدات پاکستان کی ترقی کے لیے بہت اہم ہیں لیکن کچھ چیلنجز بھی ہیں جن میں معاہدوں پر عمل درآمد میں بیوروکریسی کی روایتی رکاوٹیں اور روس پر عائد بین الاقوامی پابندیاں اور ان کا ممکنہ اثر شامل ہیں۔ان معاہدات کی وجہ سے پاکستان کی ترقی میں ایک نئی سنگ میل کو عبور کیا جائے گا ان معاہدات سے تکنیکی مہارت کے تبادلے سے صنعتی ترقی میں پیش رفت ہوگی اور تعلیمی میدان میں تحقیق و ترقی کے امکانات روشن ہونگے۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ پاکستان اور روس کے مابین یہ معاہدات دونوں ممالک کے باہمی تعلقات کو مزید مستحکم کرنے کی جانب ایک اہم قدم ہیں۔ اگر ان معاہدات پر مؤثر عمل درآمد کیا جائے تو دونوں ممالک کی معیشتوں کو کافی فائدہ ہوگا، اور خطے میں پاکستان کی ساکھ بھی بہتر ہوگی۔ تاریخی پس منظر سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ دوطرفہ تعلقات کی مضبوطی نہ صرف وقت کی ضرورت ہے بلکہ عالمی سیاست کے بدلتے ہوئے حالات کے لیے بھی اشد ضروری ہے۔
دونوں ممالک کے درمیاں یہ معاہدے اس بات کا ثبوت ہیں کہ پاکستان اور روس مشترکہ مفادات کی بنیاد پر ایک دوسرے کے قریب آ رہے ہیں، اور یہ پیش رفت مستقبل میں بھی دونوں ممالک کے لیے فائدہ مند ثابت ہونگے ان شا اللہ۔
رحمت عزیز خان چترالی کا تعلق چترال خیبرپختونخوا سے ہے، اردو، کھوار اور انگریزی میں لکھتے ہیں۔ آپ کا اردو ناول ”کافرستان”، اردو سفرنامہ ”ہندوکش سے ہمالیہ تک”، افسانہ ”تلاش” خودنوشت سوانح عمری ”چترال کہانی”، پھوپھوکان اقبال (بچوں کا اقبال) اور فکر اقبال (کھوار) شمالی پاکستان کے اردو منظر نامے میں بڑی اہمیت رکھتے ہیں، کھوار ویکیپیڈیا کے بانی اور منتظم ہیں، آپ پاکستانی اخبارارت، رسائل و جرائد میں حالات حاضرہ، ادب، ثقافت، اقبالیات، قانون، جرائم، انسانی حقوق، نقد و تبصرہ اور بچوں کے ادب پر پر تواتر سے لکھ رہے ہیں، آپ کی شاندار خدمات کے اعتراف میں آپ کو بے شمار ملکی و بین الاقوامی اعزازات، طلائی تمغوں اور اسناد سے نوازا جا چکا ہے۔کھوار زبان سمیت پاکستان کی چالیس سے زائد زبانوں کے لیے ہفت پلیٹ فارمی کلیدی تختیوں کا کیبورڈ سافٹویئر بنا کر عالمی ریکارڈ قائم کرکے پاکستان کا نام عالمی سطح پر روشن کرنے والے پہلے پاکستانی ہیں۔ آپ کی کھوار زبان میں شاعری کا اردو، انگریزی اور گوجری زبان میں تراجم کیے گئے ہیں ۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔