سوشل میڈیا کا زمانہ

تحریر: سیّدزادہ سخاوت بخاری

زمانہ ، وقت ہی کی ایک مخصوص تاریخی یا واقعاتی حالت اور دورانئیے کو کہتے ہیں ۔ یہ بھی کائنات کے دیگر سیار اور متحرک اجزاء کی طرح مسلسل حرکت میں رھتا ہے ۔ اپنے رنگ اور ڈھنگ تبدیل کرتا رہتا ہے ۔ جو کل تھا ، آج نہیں اور آج والا رنگ کل ناپید ہوگا ۔ مزے کی بات یہ کہ ، فقط خود ہی نہیں ، بلکہ اپنے ساتھ ، انسانوں ، انسانی سوچ ، تہذیب و تمدن ، ضروریات زندگی اور اقدار تک کو بدل کے رکھ دیتا ہے ۔کہنے کو تو انسان اشرف المخلوقات ہے ، ہر شے اس کی تابع ، بحر و بر ، سورج چاند ستارے ، نباتات و جمادات ، بلکہ، کائنات کا ذرہ ذرہ اس کے آگے ھاتھ باندھے کھڑا ہے لیکن وائے مجبوری کہ یہی صاحب عقل ، زمانے کے آگے بند نہیں باندھ سکتا ، اس کے بدلاو اور بہاو کو روک نہیں سکتا بلکہ خس و خاشاک کی طرح اس کے ساتھ ساتھ لڑھکتا ہوا چلا جاتا ہے ۔ماھرین آثارقدیمہ ، زمانہ قبل از تاریخ کو کو کئی ادوار میں تقسیم کرتے ہیں ، پتھر کا زمانہ جب انسان پتھر کے اوزار و ھتھیار استعمال کرتا تھا ، پھر پتھر کا نیا زمانہ ، جب پتھر کے استعمال میں جدیدیت پیدا ہوئی ، اس کے بعد تانبےکا ذمانہ ، پھر کانسی کا زمانہ اور آخر میں لوھے کا زمانہ ، جو ابتک رائج ہے لیکن بدستور اس میں نت نئی تبدیلیاں واقع ہورہی ہیں ۔ مثلا اب گاڑیوں اور مشینوں کے مختلف حصوں ، عمارات ، اوزار اور گھریلو استعمال کے برتنوں سے فرنیچر تک میں ایلومینیم ، پلاسٹک اور فائیبر کا استعمال بھی عام ہوتا چلا جارہا ہے ، جو اس بات کی دلیل ہے کہ زمانہ کروٹ لے رہا ہے ۔بعض اوقات کسی تاریخی واقعے یا نامور ھستی کے نام سے بھی زمانہ منسوب ہوجاتا یے ، مثلاطوفان نوح اور حضرت عیسی ،فرعون اور موسی ، قبل مسیح ، بعد از مسیح ، رام اور رامائن کا زمانہ ، عربوں کا زمانہء جاھلیت اور اسلام کا سنہری دور وغیرہ ۔ذمانے کی اس کہانی کو آگے بڑھاتے جائیں تو بڑی رنگین فلم دیکھنے کو ملتی ہے ، اس میں ڈرامہ ، ایکشن ، رومانویت ، ماردھاڑ ، تعمیر و تخریب اور جنگ و جدل سے لیکر ایجادات تک بھری پڑی ہیں ۔ذمانے کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ الہامی کتابوں تک میں اس کا ذکر موجود ہے ۔ مثلا قرآن حکیم میں العصر ( زمانہ ) کے نام سے ایک مکمل سورة ہے ۔ اللہ فرماتا ہے ، والعصر ان الانسان لفی خسر ۔ زمانے کی قسم انسان خسارے میں ہے ، مگر وہ لوگ جو ایمان لائے ، نیک اعمال کئے ، ایک دوسرے کو نیکی اور صبر کی تلقین کرتے رہے ۔ اس کے علاوہ بھی قرآن نے بنی اسرائیل سے مخاطب ہوکر کہا ، اے بنی اسرائیل یاد کرو وہ زمانہ جب تم فرعون کے غلام تھے اور ہم نے تمہیں اس سے نجات دلائی ۔ غرضیکہ ذمانے کا ذکر قرآن کریم سے لیکر توریت ، ذبور اور انجیل تک میں موجود ہے ۔ذمانے کی اہمیت کے پیش نظر جہاں ماہرین آثار قدیمہ ، زمین کھود کھود کر اسے تلاش کرتے رہے وہیں مورخین نے اس کے ایک ایک پل کا حساب اساطیر ( کتب تاریخ ) کی الماریوں میں اس خوبصورتی ، مہارت ، محبت اور محنت سے سجایا کہ ، ورق گردانی کرنے والا کوئی بھی شخص ہزاروں بلکہ لاکھوں سال پرانی دنیاء کی سیر کرسکتا ہے ۔یہ بات دلچسپی سے خالی نہ ہوگی کہ جہاں ماھرین آثار قدیمہ( Archeologists) زمانے کی تلاش میں کھنڈروں کی خاک چھانتے پھرے ، مورخین ( Historians)نے اس کے حالات و واقعات کو محفوظ کیا ، وہیں معاشرے کے اندر موجود ، تیسری آنکھ ( Third Eye) رکھنے والے طبقے ، یعنی شعراء نے ، اس کی خوبیوں اور خامیوں کو اجاگر کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی ۔ دنیاء بھر کی زبانوں ( Languages )میں ذمانے کو لیکر لاکھوں اشعار کہے گئے ۔ اس کی ساخت و پرداخت( Formation & Patronage )عادات و اطوار ، برتاو اور ردعمل ، مہرو وفاء اور جور و جفاء تک کے فلسفے ہمیں مختلف شعراء کے کلام میں ملتے ہیں

شوکت ہمارے ساتھ بڑاحادثہ ہوا

ہم رہ گئے ہمارا زمانہ چلا گیا ۔

(شوکت واسطی )

apps blur button close up
Photo by Pixabay on Pexels.com

زمانے کی صفات میں ایک صفت یہ بھی کہ ایک مرتبہ گزر جائے تو اسی شکل و صورت سے لوٹ کر نہیں آتا ۔ بہروپئے کی طرح سوانگ بھرتا رہتا ہے ، روپ بدل بدل کر آتا ہے ۔ بیل گاڑی ، گھوڑا گاڑی ، بھاپ سے چلنے والے ریلوے انجن ، چابی سے متحرک ہونے والا گراموفون ( باجا ) ، مٹی کے برتن ، تیل والے چراغ ، کہاں گئے یہ سب ، کون اٹھا کر لے گیا ۔ انسانوں کے آپس میں رابطے کا ایک ذریعہ ایک عرصے تک ٹیلیگرام ( تار ) کو استعمال کیا گیا ۔ پہلے ڈاک خانے جاو ، فارم بھرو ، بابو الفاظ گن کر فیس بتائیگا پھر آپ کا وہ ارجنٹ پیغام بذریعہ ٹیلیگرام آپ کے متعلقہ ڈاک خانے پہنچے گا ، ایک کاغذ پر چھاپا جائیگا اور لفافے میں بند کرکے ، ڈاکیہ اسے متعلقہ شخص تک پہچاتا تھا ، اسے تار کہتے تھے اور یہی سب سے تیز ترین ذریعہ پیغام رسانی تھا مگر وقت اور ذمانہ اسے اپنے ساتھ بہا کر لے گیا ۔ اب آج ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کا زمانہ ہے ، ایک چھوٹا سا آلہ جسے آپ موبائیل فون کے نام سے پہچانتے ہیں ، ہر خورد و کلاں اور امیر و غریب کی بغلی یا اوپر والی جیب میں موجود ، پل پل کی خبر ، کرہ ارض کے اس سرے سے اس سرے تک آنکھ جھپکتے پہنچ جاتی یے ۔ اسی جدید ترین مواصلاتی نظام کے ایک حصے کو ہم سوشل میڈیا کے نام سے جانتے اور استعمال کرتے ہیں ۔ اس میں واٹس ایپ ، فیس بک ، ٹوئیٹر ، انسٹاگرام وغیرہ کے ھینڈل اور پلیٹ فارم ہیں ۔اگرچہ سوشل میڈیا یا سماجی رابطے کے ان ذریعوں کو جنم لئے کوئی زیادہ عرصہ نہیں گزرا یا یوں کہ لیجئے کہ یہ ایجادات ابھی کم سن ہیں ، عھد طفولیت سے گزررہی ہیں لیکن ابھی سے دنیاء بھر کے معاشروں میں ھیجان اور طوفان پیدا کئے ہوئے ہیں ۔ اس ایجاد اور اس کے استعمال کے فوائد اور نقصانات پہ ابھی غور ہونا باقی ہے لیکن بقول شاعر :اس شھر کے قاتل کو دیکھا تو نہیں لیکن مقتل یہ بتاتے ہیں قاتل پہ جوانی ہے ۔ذمانے کی یہ کہانی بہت طویل ہے لکھتا چلوں تو کئی حصوں پہ مشتمل ایک ضخیم کتاب مرتب ہو جائے ۔ آج کا موضوع سوشل میڈیا تھا ۔ میرے ناقص خیال کے مطابق ، یہ اس زمانے کا خطرناک ترین ہتھیار ہے ، اس کے جائز اور ناجائزاستعمال اور مفید یا مہلک ہونے پر آئندہ گفتگو ہوگی 

سیّدزادہ سخاوت بخاری
،سیّدزادہ سخاوت بخاری سرپرست اعلی، اٹک ویب میگزین

تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

streamyard

Next Post

گزشتہ سے پیوستہ ، کچھ مزید

منگل فروری 23 , 2021
یہ بات نہیں ہے کہ اگر بہت بڑی اکثریت اسی ڈگر پر چل رہی ہے اور ظلم زوروں پر ہے تو کوئی بھی اصلاح حال کے لیے کام نہیں کر رہا۔ نہیں بہت سی ایسی تنظیمیں،
گزشتہ سے پیوستہ ، کچھ مزید

مزید دلچسپ تحریریں