طوفان ٹل جانے کے بعد

طوفان ٹل جانے کے بعد

تحریر
شاندار بخاری – مقیم مسقط

طوفان جسے زبان عام میں تیز بارشوں، ہواؤں کا سلسلہ کہتے ہیں لغت میں اس کے درج ذیل معانی بھی ہیں؛ (شور و غوغا، باد و باراں کی زیادتی، آندھی، سیلاب، بہتان، تہمت، طغیانی، آفت، قہر، گھپ اندھیرا، مرگ عام وبا، ناگہانی موت، قتل، ظلم) غرض کے باد و باراں کے علاؤہ طوفان کو ان مصطلحات میں بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر فلاں صاحب نے تو طوفان برپا کر دیا، اس طرح یہ امر ربانی سے معرض وجود میں آیا قدرتی آفات کا مرکب انسانی حوالوں میں بھی ضرب الامثال کے طور استعمال ہوتا ہے۔طوفان یوں سمجھیے کہ ایک بے وطن ، سٹیٹ لیس ، بنجارہ بادشاہ ہے جو کہ ازل سے ابد تک سفر میں ہے اس کا کوئی مستقل ٹھکانہ نہیں خواہ وہ ہزاروں سال قبل طوفان نوح کےوقت کا واقع ہو، فرعون کے دریا میں غرق ہونے سے لیکر موجودہ ادوار کے گونُو، کترینہ وغیرہ بھی اسی کی نسل سے چلے آ رہے ہیں اور جب یہ صدیوں کا آوارہ مزاج اپنے قافلے سمیت آسمانوں کی سیر کرتے ہوئے زمین پر اترتا ہے تو اپنے محور میں جہاں وہ تخت نشیں ہوتا ہے ایسے ساتھیوں کو اتارتا ہے جو ہر سمت خوف و ہراس برپا کردیتے ہیں، یہ ساتھی وہ گمنام سپاہی ہیں جو توڑ پھوڑ، قتل و غارت اور لوٹ مار کا بازار سجاتے ہیں ان سپاہیوں کیوجہ سے جتنا خوف پھیلتا ہے طوفان بادشاہ اس کی خوشی میں پھولتا پھلتا ہے اور تقویت پاتا ہے۔کچھ دن زمیں کی سیر کر کے نظام قدرت میں مخل ہو کر افراتفری اور نقصان پہنچا کر اپنے مقصد میں کامیاب ہو کر طوفان بادشاہ اپنے قافلے اور قبیل کے ہمراہ کسی اور منزل کیطرف اڑان بھرتا ہے اور رخت سفر باندھ لیتا ہے۔ جسے عرف عام میں ہم یوں کہتے ہیں کہ طوفان تھم گیا ہے یا ٹل گیا ہے۔

طوفان تھم جانے کے بعد جب اگلے دن سورج کی پَو پھوٹنا شروع ہوتی ہے، گرد بیٹھنے لگتی یے، دھندلائے سے منظر نظر میں بیٹھنے لگتے ہیں، کھلے اور دور تک دکھتے صاف آسمان پر قوس قزح کے پار پرندے اڑتے دکھائی دیتے ہیں تو آسمان کے اس حَسِین منظر کے بر عکس زمیں پر دو طرح کے سینیریو پیش ہوتے ہیں؛

نمبر 1۔ امیر شہر یا صاحب ثروت کو اپنے دریچوں سے لہلہاتے درخت نکھرے ہوئے دالان اس میں رنگ برنگ پھول، چڑیوں کی چہچہاہٹ سنائی دیتی اور یہ دلفریب مناظر دکھائی دیتے ہیں۔

نمبر2۔ فقیر شہر کو اپنی جھوپڑی کی اُڑی ہوئی چھت، مویشیوں کی لاشیں، گدلے پانی کے بہتے نالے اور مال و اسبابِ زندگی لُٹ جانے، بہہ جانے پر بین کرتے نالے سنائی دیتے ہیں۔ جو متائے حیات تھی لُٹ جانے کا صدمہ انہیں بھی لقمہ اجل بنا دیتا ہے لوگ یہ صدمہ برداشت نہیں کر پاتے اور زہنی دباؤ برین سٹروک، فالج یا جان سے بھی گزر جاتے ہیں۔

چند روز قبل یہاں رونما ہونے والے مسجد میں دہشتگردی کے ناخوشگوار واقعے کو بھی سینیریو نمبر دو سے مماثلت کے بناء پر طوفان سے تشبیہ دے رہا ہوں اور یہ کیسا طوفان تھا جو جا کر بھی نہیں گیا اور اب آنے والے کئی دنوں، مہینوں اور سالوں تک اس کا اثر ہماری زندگیوں میں شامل رہے گا۔ جو ہمارے محبی اس اندوہناک واقعے میں شہادت کے رتبے پر فائز ہوئے وہ کبھی زندگی سے بھرپور ہوا کرتے تھے، ان کے بھی سپنے تھے، وعدے تھے جو پورا کرنے تھے، خواہشیں تھیں جو کے دل میں لئیے وہ محنت کرتے تھے ان کے پیاروں کے دلاسے تھے جو انہیں تقویت بخشتے تھے، ان کے والدین، بیوی بچے، بہن بھائی اور دوستوں کی راہ تکتی اکھیاں اب پتھرا جائیں گی لیکن وہ اب کبھی نہیں مل پائیں گے، وہ اپنے پیاروں کو عید پر گلے نہیں لگا پائیں گے، ان کا ہاتھ تھام نہیں سکیں گے، گھر والے ان سے فون پر آخری بات کو یاد کریں گے وہ گلے شکوے انہیں یاد آئیں گے لیکن جانے والے واپس نہیں آئیں گے۔ سب سے بڑھ کو جو دُکھ ہے وہ یہ کہ یہ سب شہید محنت کش افراد تھے اپنے گھر کے واحد کفیل تھے لیکن اب وہ سلسلہ روزگار بھی ان کیساتھ راہیِ مُلکِ عَدَم ہوا۔جو زخمی ہوئے کچھ ان میں سے اب بھی ہسپتالوں میں زیر علاج ہیں اور جو گھر آگئے ہیں ڈسچارج ہو کر وہ کم سے کم تین ماہ کیلئے بستر پر ہیں یعنی ان کو معاون کی ضرورت ہے دیکھ بھال کیلئے پٹیوں کی تبدیلی، بروقت دوا دینا، ان کی صفائی ستھرائی نیز کے واشروم تک خود نہیں جاسکتے تو ایک بیمار کیساتھ ایک معاون پابند ہے اگر تیس زخمی ہیں تو معاون ملا کر ساٹھ لوگ اس صورتحال سے متاثر ہیں اور سب سے بڑھ کر اب جبکہ یہ مریض تین سے چار ماہ کیلئے بستر پر ہیں تو کام پر بھی نہیں جا سکتے سلسلہ روزگار بھی ان کا منقطع ہے تو اداروں سے اپیل ہے کہ علاج کیساتھ کچھ بیسک سٹائیپنڈ / سیلری / ماہانہ خرچ انہیں دیا جائے جس سے ان کے پیچھے گھروں میں بیٹھے والدین یا بیوی بچے اپنا گزر بسر کر سکیں کیونکہ یہ سب محنت کش طبقے سے ہیں تو روزانہ کی بنیادوں پر ان کی زندگیوں کا سٹرکچر کچھ ایسی گاڑی جیسا ہے کہ جس میں پیچھے والے پہیے روزگار کے زور پر گھومتے ہیں تو جب ان کے کام کا پہیہ گھومتا ہے تو آگے والے جو زندگی کا پہیے ہیں وہ تب ہی گھومتے ہیں اور اس گاڑی کو آگے بڑھاتے ہیں۔

طوفان بادشاہ تو کب کا جا چکا لیکن اس طوفان کی نسل سے چھوٹے چھوٹے طوفان اب بھی باقی ہیں جو کہ وفات پانے والے اور بچ جانے والے لیکن زخمیوں اور ان کے عون و مددگاروں کی زندگیوں میں مسلسل ہلچل مچائے ہوئے ہیں جس سے ہم سب کو ملکر انہیں نکالنا ہے ان چھوٹے عفریتوں کا مقابلہ کرنا ہے ہمت کیساتھ، یک جہتی کیساتھ، رب العالمین اور اس کے محبوب صلی اللّٰہ علیہ و آلہ وسلم سے دعا کا استغاثہ کے ذریعے سے۔ یہاں دیار غیر میں مقیم ہم سب مختلف بیک گراؤنڈ کے باوجود ایک خاندان ہیں ہمارے دکھ اور سکھ سانجھے ہیں اپنا بازو ٹوٹتا ہے تو اپنے ہی گلے میں آتا ہے آج ان کی آنکھیں ہماری راہ تکتی ہیں تو کل ہمیں بھی کسی کا انتظار ہوگا۔ صلح رحمی کے احکامات کو مد نظر رکھتے ہوئے اور سب سے بڑھ کر انسانیت کیلئے آہیں ہم سب ملکر کر ایک ہو کر جانے والوں اور بچ جانے والوں کے حامی و ناصر بنیں۔ اس زمن میں ہمارے سفارت خانے اور بالخصوص سفیر پاکستان عزت مآب سفیر پاکستان اور یہاں سلطنت عمان کے مقامی قانون نافذ کرنے والوں اداروں نے ہر ممکنہ سہولت فراہم کی جس پر ہم ان کے شکر گزار ہیں لیکن وہ شکریہ کے جواب میں کہتے ہیں یہ ہم پر واجب ہے یہ کہنا کتنا خوبصورت احساس ہے اور عزت افزا ہے۔

تحریر کے آخر میں شہداء اور اس روز وہاں موجود افراد ، غائبانہ طور پر موجود (جو فون پر رابطے میں رہے) اور بالخصوص مسجد کی انتظامیہ و والنٹیئرز کی ٹیم کو خراجِ تحسین پیش کرتا ہوں، زخمی جو کہ اب غازی ہیں ان کے نام بوجوہ درج نہیں کر رہا کیونکہ ہم دیار غیر میں رہتے ہیں اور فی الحال بیشتر کے گھر والوں کو اس سانحہ میں ان کے زخمی ہو نے کا علم نہیں ورنہ وہ غم سے نڈھال اور پریشان ہوں گے اس لئیے آپ سب سے بھی گزارش ہے کے زخمیوں کی حوصلہ افزائی کیلئے آگے آہیں اور یہ بات اپنے تئیں رکھیں تصویر بنائیں تو شئیر نا کریں کیونکہ تصویریں آگے پہنچ جاتی ہیں اور پریشانی کا باعث بنتی ہیں۔

راہِ حق کے شہدائے 15 جولائی کے نام مندرجہ ذیل ہیں
رائل عُمان پولیس ڈپارٹمنٹ کے رقیب – یوسف الندابي (سلطنت عُمان)
باشا جان علي حُسین (ہندوستان)
حسن عباس (پاکستان)
غلام عباس (پاکستان)
سیّد قیصر عباس (پاکستان)
سلمان نواز (پاکستان)

طوفان ٹل جانے کے بعد

Title Image by Myriams-Fotos from Pixabay

مدیر اورسیز | تحریریں

مسقط، سلطنت عمان

تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

streamyard

Next Post

عبدالرحمٰن شاد کی علمی و ادبی خدمات

پیر جولائی 29 , 2024
تلہ گنگ کے معروف ماہر تعلیم سینیئر جرنلسٹ، مصنف و محقق جناب عبد الرحمٰن شاد صاحب یوں تو کسی تعارف کے محتاج نہیں ان کی پانچ کتابیں
عبدالرحمٰن شاد کی علمی و ادبی خدمات

مزید دلچسپ تحریریں