افسانہ "عذابِ زندگی”
ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی*
اسد بلال احمد نے اپنے افسانہ "عذابِ زندگی” میں انسانی زندگی کے ایک ایسے پہلو کو اجاگر کرنے کی کوشش کی ہے جسے اکثر لکھاری نظرانداز کردیتے ہیں۔اس کہانی میں مصنف نے ایک ایسے بوڑھے شخص کی تصویر کشی کی ہے جس کی زندگی کا سفر اب ایک ناقابلِ برداشت عذاب میں تبدیل ہو چکا ہے۔ یہ کہانی نہ صرف جذباتی گہرائی رکھتی ہے بلکہ زندگی اور موت کے فلسفے پر غور و فکر کی دعوت بھی دیتی ہے۔
کہانی کا مرکزی موضوع بڑھاپے کی بے بسی اور انسانی زندگی کے آخری مرحلے کی تلخیوں کو بیان کرنا ہے۔ مصنف نے ایک ضعیف شخص کی حالت کو نہایت تفصیل اور حساسیت کے ساتھ بیان کیا ہے جو زندگی کی بے رحمی اور موت کی کشش کے درمیان معلق ہے۔ افسانہ انسانی زندگی کے اس پہلو کو نمایاں کرتی ہے جہاں لمبی عمر کا خواب ایک عذاب بن جاتا ہے۔
اسد بلال احمد کا اسلوب منظرنگاری اور جذباتی اظہار پر مبنی ہے۔ مصنف نے افسانے میں ایسی منظرکشی کی ہے کہ قاری خود کو کہانی کے ماحول میں موجود محسوس کرتا ہے۔ مثال کے طور پر، بوڑھے شخص کی آنکھوں، جھریوں اور بے بسی کا ذکر اس قدر باریکی سے کیا گیا ہے کہ قاری اس کی کیفیت کو محسوس کر سکتا ہے۔ مصنف نے سادہ لیکن مؤثر زبان استعمال کی ہے جو قاری کے دل پر گہرا اثر چھوڑتی ہے۔
افسانے میں زندگی اور موت کے فلسفے پر سوال اٹھایا گیا ہے۔ کیا لمبی عمر واقعی ایک نعمت ہے؟ یا یہ ایک عذاب بن سکتی ہے؟ مصنف نے یہ واضح کرنے کی کوشش کی ہے کہ زندگی کی خوبصورتی اس کے اختتام کی مناسبت سے ہے۔ بڑھاپے کی بے بسی کو موت کے سکون سے تشبیہ دینا انسانی زندگی کی ایک تلخ حقیقت کی عکاسی کرتا ہے۔
افسانے میں مرکزی کردار ایک گمنام بوڑھا شخص ہے، لیکن اس کی حالت اور کیفیت کو اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ وہ قاری کے ذہن میں ایک زندہ حقیقت بن جاتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اس کے اردگرد موجود افراد، جیسے علاج کرنے والے اور اس کا دولت مند خاندان، صرف پس منظر میں موجود ہیں لیکن ان کا ذکر کہانی کے مکمل منظرنامے کو واضح کرنے میں مدد دیتا ہے۔
افسانہ میں مصنف نے معاشرتی حقیقتوں کو بھی اجاگر کرنے کی کوشش کی ہے۔ دولت اور سہولیات کے باوجود، بڑھاپے میں انسان کی بے بسی اور تنہائی کو کوئی ختم نہیں کر سکتا۔ یہ افسانہ ہمیں یاد دلاتی ہے کہ زندگی کی اصل خوشی صحت اور سکون میں ہے، نہ کہ صرف دولت اور لمبی عمر میں ہے۔
اگرچہ افسانہ جذباتی گہرائی اور فلسفیانہ سوالات سے بھرپور ہے، لیکن بعض مقامات پر منظرنگاری طول پکڑ لیتی ہے جو قاری کی توجہ کو منتشر کر سکتی ہے۔ مزید برآں افسانہ میں متبادل نقطہ نظر یا امید کی جھلک کی کمی محسوس ہوتی ہے، جو کہانی کو مزید متوازن بنا سکتی تھی۔
ان چھوٹی سی خامیوں کے باوجود بھی افسانہ "عذابِ زندگی” ایک فکر انگیز اور دل کو چھو لینے والی کہانی ہے جو زندگی کے عارضی ہونے اور بڑھاپے کی بے بسی پر روشنی ڈالتی ہے۔ اسد بلال احمد نے نہایت مہارت سے انسانی جذبات اور زندگی کی حقیقتوں کو پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ یہ تحریر قاری کو نہ صرف سوچنے پر مجبور کرتی ہے بلکہ زندگی کی نعمتوں کی قدر کرنے کی ترغیب بھی دیتی ہے۔ میں مصنف کو اتنی اچھی کہانی تخلیق کرنے پر مبارکباد پیش کرتا ہوں۔
رحمت عزیز خان چترالی کا تعلق چترال خیبرپختونخوا سے ہے، اردو، کھوار اور انگریزی میں لکھتے ہیں۔ آپ کا اردو ناول ”کافرستان”، اردو سفرنامہ ”ہندوکش سے ہمالیہ تک”، افسانہ ”تلاش” خودنوشت سوانح عمری ”چترال کہانی”، پھوپھوکان اقبال (بچوں کا اقبال) اور فکر اقبال (کھوار) شمالی پاکستان کے اردو منظر نامے میں بڑی اہمیت رکھتے ہیں، کھوار ویکیپیڈیا کے بانی اور منتظم ہیں، آپ پاکستانی اخبارارت، رسائل و جرائد میں حالات حاضرہ، ادب، ثقافت، اقبالیات، قانون، جرائم، انسانی حقوق، نقد و تبصرہ اور بچوں کے ادب پر پر تواتر سے لکھ رہے ہیں، آپ کی شاندار خدمات کے اعتراف میں آپ کو بے شمار ملکی و بین الاقوامی اعزازات، طلائی تمغوں اور اسناد سے نوازا جا چکا ہے۔کھوار زبان سمیت پاکستان کی چالیس سے زائد زبانوں کے لیے ہفت پلیٹ فارمی کلیدی تختیوں کا کیبورڈ سافٹویئر بنا کر عالمی ریکارڈ قائم کرکے پاکستان کا نام عالمی سطح پر روشن کرنے والے پہلے پاکستانی ہیں۔ آپ کی کھوار زبان میں شاعری کا اردو، انگریزی اور گوجری زبان میں تراجم کیے گئے ہیں ۔
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
کیا آپ بھی لکھاری ہیں؟اپنی تحریریں ہمیں بھیجیں، ہم نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ |