ادب پہلا قرینہ ہے محبت کے قرینوں میں
گلوکارہ ریشماں لوہاروں کی بیٹی تھی۔ اُس کے اجداد راجھستان سے ہجرت کر کے پاکستان آئے تھے۔ انتہائی سادہ عورت تھی ، پڑھی لکھی نہ تھی۔ انڈسٹری میں وارد ہوئی تو چیک وصول کرنے کے لیے دستخط سیکھ لیے اس سے زیادہ اس کا لکھنے پڑھنے سے کام نہ تھا۔
ایک انٹریو یو میں اینکر نے پوچھا پسندیدہ گلوکار کون ہے تو کہنے لگی سب ہی ہیں جی۔ اینکر نے کہا کسی ایک کا نام لیں تو ریشماں کہنے لگی اگر آپ بضد ہیں تو تب میں دو نام لونگی ملکہ ترنم نور جہاں اور لتا منگیشکر۔
میں بالڑی سی تھی جب ملکہ ترنم نورجہاں اور لتا منگیشکر جی کے توے 📀 بجتے تھے میں ان کو سنتی تھی جی۔ اُن دونوں کو سُن سُن کر تو ہی سنگیت سیکھا جی میں نے۔ آپ لوگوں نے مجھے قبول کرلیا۔ اور پھر جی وہ وقت بھی آیا ملکہ ترنم نورجہاں نے میرا ایک گیت میرے ہی سُروں میں گایا اور لتا منگیشکر نے میرا دوسرا گیت میرے ہی سُروں میں گایا۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ میں اُن سے بڑی ہوگئی۔ دراصل چھوٹوں کی حوصلہ افزائی کرنے کے لیے بڑوں کے اپنے ہی طریقے ہوتے ہیں۔
ان پڑھ لڑکی اپنی طاقت بھی بتا رہی ہے۔ لیکن بڑوں کو یاد کرنے کا انداز بھی دیکھیں کہ دامن ادب بھی ہاتھ سے نہ چھوڑا۔ اگر ہم بھی ادب کے یہ قرینے یہ سیکھ لیں تو کتنے قد آور ہوجائیں۔
فطرت مری مانند نسیم سحری ہے
رفتار ہے میری کبھی آہستہ کبھی تیز
پہناتا ہوں اطلس کی قبا لالہ و گل کو
کرتا ہوں سر خار کو سوزن کی طرح تیز
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔