ادب کا تابندہ ستارہ …محمد یوسف وحید

مدیر:شعوروادراک ، محمد یوسف وحید کی تازہ تحقیقی پیش رفت ’’خان پور کا ادب ‘‘
ادب کا تابندہ ستارہ …محمد یوسف وحید
تبصرہ : پروفیسر سراج احمد قریشی (خان پور )

چند سال قبل محترم محمد یوسف وحیدمیرے گھر آئے ، اپنا تعارف کرایا اور آنے کا مقصد بتا یا کہ وہ خان پور سے تعلق رکھنے والے اہلِ علم و ادب کے بارے میں ایک کتاب لکھنا چاہتے ہیں اور اس سلسلے میں اُنہیں میرے بارے میں بھی کچھ معلومات درکا ر ہیں ۔
میں نے اُنہیں مطلوبہ معلومات دیں ۔ اپنی مطبوعہ اور غیر مطبوعہ کتابوں کے نام بتائے ۔ محمد یوسف وحید کچھ دیر بیٹھے اور اُس کے بعد چلے گئے ۔ یہ ان کے ساتھ میری پہلی ملاقات تھی ۔ میں حیران و پریشان تھا کہ یہ نو جوان اتنا مشکل کام کیسے کر پائے گا؟
خیر بات آئی گئی ہوگئی اورمیں اس بات کو بھول گیا ۔ پھر کوئی تقریباً چار سال کے بعد حالیہ ماہِ رمضا ن میں محمد یوسف وحید کا فون آیا ، انہوں نے گذشتہ ملاقات کا حوالہ دیا ۔ پہلے تو مجھے یاد نہیں آیا ۔ پھر ذہن پر زور دیا تو دھندلا سا خیال آیا کہ ہاں ایک صاحب ماضی قریب میں میرے پاس تشریف لائے تھے ۔

Khanpur Ka Adab


محمد یوسف وحید میرے گھر آئے اور اپنی تازہ تحقیق کتاب خان پور کی ۱۲۰ سالہ علمی و ادبی تحقیق بعنوان ’’ خان پو رکا اَدب‘‘ مجھے تحفتاً دی ۔ مجھے خوش گوارحیرت ہوئی ۔ کتاب کی اشاعت پر اُنہیں مبارک باد دی ۔ اس ملاقات میں معلوم ہوا کہ موصوف کافی عرصے سے مختلف علمی و ادبی سرگرمیوں اور زبان و ادب کی ترویج و اشاعت کے لیے سرگرمِ عمل ہیں ۔
بہر کیف اپنی نئی کتاب ’’ خان پور کا اَدب ‘‘ کے حوالے سے فرمائش کی کہ کتاب پڑھ کر اپنے تاثرات عنایت فرمائیں ۔ چنانچہ عید الفطر کے بعد کتاب کا مطالعہ کیا ۔ مطالعہ کے آغاز سے ہی جو پہلی بات مجھے بالخصوص محسوس ہوئی کہ فاضل مؤلفکی اپنے شہر خان پور سے چاہت و محبت ہے ۔
ہر غیور اور باحمیت شخص کو اس جگہ سے پیار ہوتا ہے ۔ جہاں وہ پیدا ہوا ۔ جن فضائوں میں وہ پھلا پھولا ۔ جن گلیوں اور کوچوں میں وہ کھیلا کودا ۔ اُموی دور کا مشہور شاعر ابو تمام اسی حقیقت کو یوں بیان کرتا ہے ۔
نقلِ فؤ ادکَ حَیثُ شِٔتَ مِنَ الھَوی
ٰ ما الحبُّ للحبیب اَلُاوّل
کَم منزِلاً فِی الارضِ یَا لِفُہُ الفتَی
وَحَنِینُہ اَبداً لِاَوَّلَ منزل
ترجمہ: اے انسان تو اپنے قلبی میلان کو جہاں چاہے ۔ (۱) منتقل کرتا رہ مگر تیر ی اصل محبت پہلے محبوب سے جد ا نہیں ہوسکتی ۔ آدمی دنیا میں نجانے کہاں کہاں پھرتا ہے مگر اس کا دل ہمیشہ سے اصلی وطن کیلئے تڑپتا رہتا ہے ۔
سو فاضل مؤلف نے اسی فطری محبت کے زیرِ اثر اپنے شہر کی ادبی داستان لکھی ہے ۔ کتاب کا ایک ایک صفحہ گواہی دے رہا ہے کہ محمد یوسف وحید کو اپنی دھرتی سے پیار ہے ۔ یہاں کے باسیوں سے پیار ہے ۔ یہاں کے ہمعصر علم دوستوں سے پیار ہے اور علم وا دب کے ان ستاروں سے پیار ہے ۔ جو اپنی شب عمر گزار کر ڈھل گئے ۔ مگر آسمانِ حیات پر اپنے آثار چھوڑ گئے ۔ محمد یوسف وحید نے عرق محنت اور نورِ محبت سے ان دھندلے اور پھیکے آثار کو نمایاں اور منور کیا ہے ۔
اپنے ہم عصر احباب کے احوال جمع کرنا ہی کم مشکل نہیں چہ جائیکہ اُن لوگوں کے حالات و واقعات کو جمع کرنا جواب دینا میں نہیں رہے ۔ اور وہ بھی کوئی دو چار کی تعداد میں نہیں بلکہ ان کی تعداد سینکڑوں تک پہنچے مگر
ارادے جن کے پختہ ہوں ، نظر جن کی خدا پر ہو
طلاطم خیز موجوں میں وہ گھبرایا نہیں کرتے
آفرین ہے فاضل مؤلف پر کہ انہوں نے یقینِ محکم اور عملِ پیہم کی دولت خداداد کے سہارے اس کام کا بیڑا اُٹھایا اور اسے کامیابی سے ہمکنا رکیا ۔ ہم شاید اندازہ نہ لگا سکیں کہ اپنے مقصد کے حصول کیلئے اُنہوں نے کیا کیا پاپڑ بیلنے ہوں گے ، کہاں کہاں کی خاک چھانی ہوگی ، ایک ایک در کے کتنے کتنے چکر لگائے ہوں گے اور کیا کیا سُننا پڑی ہوگی ۔ مگر وہ جانتے تھے کہ منزل پر پہنچنے کیلئے ان دشوار گھا ٹیوں سے گزرنا شرط ہے ۔
سُرخرو ہوتا ہے انسان ٹھوکریں کھانے کے بعد
رنگ لاتی ہے حِنا پتھر پہ گھِس جانے کے بعد
کتاب ’’ خان پور کا اَدب ‘‘ کا اُسلوبِ بیان سادہ و شیریں ہے ۔ ماہرین نے میعاری ادب کی ایک خوبی یہ بتلائی ہے کہ وہ سادہ اور فہم ہوتا ہے ۔ تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ اس سے مستفید ہوسکیں ۔
کتاب ہذا خان پور کی کوئی باقاعدہ ادبی تاریخ نہیں ہے ۔ بلکہ یہ ایک سو بیس سال کے شاعروں اور نثر نگاروں کے تعارف اور مختصر احوال پر مشتمل ہے ۔ مگر جو کچھ ہے یہ حال اور مستقبل کے لکھاریوں کیلئے مستند حوالہ ہے ۔ اور آئندہ کی تحقیق کیلئے عمارت کا بنیادی پتھر ہے ۔

khanpur ka adab


اُردو ادیبوں اور شاعروں کے علاوہ اس میں پنجابی ، سرائیکی ، فارسی اور ہندی لکھاریوں کے تعارف و احوال بھی شامل کیے گئے ہیں ۔ اسی طرح شعر و نثر کے ساتھ مصوّروں ، خطاط ، علمائے دین ، صحافی ، سماجی اور فکر و فن سے وابستہ مرد و خواتین کے مکمل حالات بھی اس کتاب کی زینت ہیں ۔
گویا یہ کتاب مختلف زبانوں اور فنونِ لطیفہ کے مختلف اجزا پر مشتمل ایک علم و ادب کا ایک حسین گلدستہ ہے ۔
کتاب کی دیگر خوبیوں کے ساتھ ایک خوبی یہ ہے کہ اس میں نامور ، جید اُدبا ء و شعرا ء کے اَحوال ہی نہیںسموئے گئے بلکہ مجھ جیسے عامیوں کو بھی جگہ دی گئی ہے ۔ یہ بات عام لکھاریوں کیلئے اور ہمت وحوصلہ کا باعث ہے ۔
اشخاص کو ابجدی حروف کی ترتیب سے پیش کیا گیا ہے ۔ میرے خیال میں انہیں تاریخی ترتیب سے پیش کیا جاتا تو بہتر تھا ۔ کیوں کہ کسی شعبہ یا فن کی تاریخ لکھتے ہوئے یہ اَمر ملحوظ رکھا جاتا ہے کہ ماضی سے حال اور دور سے قریب کی طرف آنے والے اَحوال کو تسلسل کے ساتھ پیش کیا جائے ۔
تقاریظ کی بھر مار ہے ۔ کم و بیش کتاب کا پچیس فیصد حِصّہ ناقدین و ماہرین کے تاثر ات پر مبنی ہے ۔ یہ ضرورت سے زیادہ لگتا ہے ۔ ’’خیر الامور اوسطھا‘‘ کے مطابق ہر کام میں اعتدال اس کے حُسن کو بڑھا دیتا ہے ۔
حُسن جس رنگ میں جہاں ہوتا ہے
اہلِ دل کیلئے سرمایۂ جاں ہوتا ہے
قِصّہ مختصر زیرِ نظر کتاب مجموعی طور پر بہت مفید اور بہت سی خوبیوں سے مالا مال ہے ۔ یہ فاضل مؤلف کی ادب سے محبت و مہارت کا منہ بولتا ثبوت ہے ۔ سچی بات یہ ہے کہ اس قبیل کی کتاب لکھنا اکیلے آدمی کے بس کا روگ نہیں ۔ محمد یوسف وحید نے وہ کام جس کیلئے ایک جماعت اور ٹیم کا ہونا ناگزیر ہوتا تھا ، اکیلے ہی کرڈالا ۔
اس کتاب کے علاوہ بھی علم و ادب کی دنیا میں ان کی بہت سی مختلف جہتوں پر مشتمل خدمات قابلِ تعریف ہیں ۔ مختلف ادبی تنظیموں الوحید ادبی اکیڈمی میں بطور جنرل سیکرٹری ، بزمِ ادراک کے فعال اور بانی ممبر او ربزمِ رازو دیگرکے وابستگی ۔ قومی اور علاقائی سطح پر جرائد میں سینکڑوں کی تعداد میں مضامین اور مختلف تحریروں کی اشاعت ، گزشتہ چودہ سال سے جنوبی پنجاب میں ادبِ اطفال کی نمائندگی کرنے والا بچوں اور بڑوں میں مقبول مجلہ ’’ بچے من کے سچے ‘‘ اور سنجیدہ علمی ادبی اور ثقافتی سرگرمیوں کا ترجمان ادبی مجلہ سلسلہ وار ’’ شعوروادراک ‘‘جیسے رسائل کے ادارتی اُمور کو سر انجام دینا ان تمام کامیاب علمی وا دبی کاوشوں کی بنیاد محمد یوسف وحید گویا ڈنکے کی چوٹ پر کہہ رہے ہیں ۔
دکھائوں گا تماشا دی اگر فرصت زمانے دی
میرا ہر داغِ دل اک تخم ہے سر و چراغاں کا
٭٭٭
(بشکریہ مجلہ شعوروادراک ، شمارہ نمبر ۵ ، جنوری تا مارچ ۲۰۲۱ء ، ناشر: الوحید ادبی اکیڈمی خان پور)

تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

streamyard

Next Post

اُردو نظم کا باوقار حوالہ ...ثمینہؔ راجہ

ہفتہ دسمبر 11 , 2021
ثمینہ راجہ نے بیک وقت بطور شاعرہ، مصنفہ، ایڈیٹر، مترجم، ماہر تعلیم اور براڈکاسٹرخود کو منوایا۔ نیشنل لینگویج اتھارٹی میں بطور سبجیکٹ اسپیشلسٹ بھی کام کرتی ر ہیں
اُردو نظم کا باوقار حوالہ …ثمینہؔ راجہ

مزید دلچسپ تحریریں