علمی و سیاسی یاسیت پسندی

علمی و سیاسی یاسیت پسندی

Dubai Naama

علمی و سیاسی یاسیت پسندی

امریکی مورخ اور فلاسفر ول ڈیورانٹ اپنی کتاب “دی فالن لیوز” میں لکھتے ہیں کہ جو اپنے علم کو بڑھاتا ہے وہ اپنے دکھوں میں اضافہ کرتا ہے:

“He ‏that increaseth knowledge increaseth sorrow”.

یہ ایک فی الوقتی قنوطی سوچ کا اظہار ہے کہ کیفیت کے ایک خاص پیرائے میں علم ہمارے دکھوں میں اضافہ کرتا ہے اور ہمارے اندر غم کی مقدار کو بڑھاتا ہے۔ یہ بات قدرے سچی بھی ہے کہ زندگی کی جن تلخ حقیقتوں، واقعات اور تجربات سے ہم عمومی طور پر منہ موڑے رکھتے ہیں جب علم بڑھتا ہے اور ان چیزوں سے پردہ اٹھتا ہے جن سے ہم گھبراتے ہیں تو اس سے انتہائی زہنی تکلیف ہوتی ہے۔ اگر ان تکلیف دہ چیزوں کو درخور اعتناء نہ سمجھا جائے تو اس سے بے شک لمحاتی خوشی ضرور ملتی ہے۔ لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے، جو کچھ اس طرح سے ہے کہ ہمارے علم میں جوں جوں اضافہ ہوتا ہے ہم اتنے ہی حقیقت پسند ہوتے چلے جاتے ہیں۔ یہ ایک الگ بات ہے کہ کچھ افراد پر علم کا کوئی اثر نہیں پڑتا، ان کی سوچ بدلتی ہے اور نہ ہی وہ حقائق کا سامنا کرنے کا حوصلہ رکھتے ہیں۔ لیکن سچ یہی ہے کہ علم میں اضافہ انسان کی شخصیت و کردار اور اس کی ذات کے جوہر میں نکھار پیدا کرتا ہے۔

دنیا میں بہت سے افراد زندگی کی مشکلات، دکھوں اور غم و آلام سے یا تو سمجھوتا کر لیتے ہیں اور انہی کے ساتھ جینا سیکھ لیتے ہیں اور یا پھر ان میں اتنی عقل اور فہم و شعور ہی نہیں ہوتا ہے کہ وہ علم اور جہالت کے فرق کو محسوس کر سکتے ہیں۔ ایسے افراد، معاشرے یا ایسی اقوام کا ایک ایسا ذہنی پیرایہ بن جاتا ہے یعنی وہ ایسا مائنڈ سیٹ قائم رکھنے کے عادی ہو جاتے ہیں کہ دنیا جتنی مرضی ترقی کر لے یا دنیا میں کوئی قیامت ہی کیوں نہ ٹوٹے پڑے ان کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑتا ہے۔

ہمارے سماج کے اندر بھی ایک ایسی ہی ڈھیٹ، مایوس کن اور یاسیت پر مبنی سوچ قدم جما چکی ہے اور گہری سے گہری تر ہوتی چلی جا رہی ہے کہ ہم ہر چیز میں برا پہلو ڈھونڈتے ہیں، بہت جلد مایوس اور ناامید ہو جاتے ہیں، اچھے کاموں میں بھی سو سو کیڑے نکالتے ہیں اور ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے میں تو اتنی مہارت حاصل کر چکے ہیں کہ بہتری کے دور دور تک کوئی آثار نظر نہیں آتے ہیں۔ اس کے بدترین اثرات نے ہماری عوام کی اکثریت میں حسد، تعصب اور نفرت و منافقت جیسی تباہ کن معاشرتی برائیوں کو جنم دیا ہے۔
ہمارے ہاں اب ایسا مذہبی اور سیاسی ماحول بن چکا ہے کہ مذہبی اور سیاسی لیڈران بھی اس کے خلاف جانے کو تیار نہیں ہیں کیونکہ اسی ماحول کو پروان چڑھانے ہی میں وہ اپنی بقا سمجھتے ہیں۔

علم کا درجہ و مقام معاشرے کے کردار و فکر اور بحیثیت مجموعی انسانیت کی معراج ہے، جب لوگ علم ہی کو اپنی معصومیت اور خوشی کو تباہ کرنے کا ذریعہ سمجھتے ہوں یا جہالت ان کے لئے سکون بخش اور جوش و ولولہ کی حامل ہو تو وہاں صرف واہمے اور جہالت در جہالت ہی پروان چڑھتی ہے۔ ایک محاورہ ہے کہ “بلی کو دیکھ کر کبوتر کے آنکھیں بند کرنے سے خطرہ نہیں ٹلتا ہے۔” ہمارے سیاسی لیڈران نے خاص طور پر قنوطیت کے اس جمود کو مضبوط کرنے میں ایک بنیادی کردار ادا کیا ہے جو اس منحوس خطرے سے ہرگز آگاہ نہیں ہیں اور جسے وہ گزشتہ تقریبا 40 سالوں سے تسلسل کے ساتھ قائم رکھے ہوئے ہیں۔ وہ یہ سب کچھ جان بوجھ کر رہے ہیں تاکہ “سٹیٹس کو” تبدیل نہ ہو اور عوام کو بے وقوف بنانے اور ملک کو لوٹنے کے یہ اللے تلے یونہی چلتے رہیں۔ لوگوں میں شعور اور آگاہی پیدا ہو گی تو ظاہر ہے کہ وہ ان کا رستہ روکیں گے۔ ملک کو اس یاسیت پسندی کے ماحول کو توڑنے میں چاہے وہ پیپلز پارٹی ہو، نون لیگ ہو یا تحریک انصاف ہو، کسی نے بھی کوئی اہم کردار ادا نہیں کیا ہے۔ ان تینوں سیاسی جماعتوں نے اپنا انداز سیاست بدلا ہے اور نہ ہی کبھی قنوطی نظام تعلیم کو روشن خیالی پر مبنی نظام تعلیم میں بدلنے کے لئے بجٹ بڑھانے یا نصاب کو بدلنے کی کوشش کی ہے۔ ہمارا تعلیمی نظام اور نصاب دنیا کا گھٹیا ترین علمی ادارہ ہے جس کو چلانے، لکھنے اور بنانے والے جدید دور کی الف ب سے بھی آشنا نہیں ہیں۔ جو خود جاہل ہوں وہ جہالت ہی تعلیم سمجھتے ہیں۔ ہم مایوس لوگ ہیں یعنی سیڈسٹ ہیں ناکہ پرامید اور آپٹیمسٹک ہیں کہ اس سارے عرصے ہی میں محض روایتی اور انتقامی سیاست ہوتی رہی ہے۔

گزشتہ چند دنوں میں ایٹمی طاقت کے حامل معاشرے کو یوں برباد کرنے کے لیئے انتقامی سیاست کی جڑیں مضبوط کرنے میں بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی گئی ہے۔ ایک طرف نون لیگ کی مشترکہ حکومت نے پی ٹی آئی پر پابندی لگانے کی تیاری کی تو دوسری طرف پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان نے دھمکی آمیز بیان داغا کہ 1971 کو ڈھاکہ آپریشن کے نتائج اچھے نہیں نکلے تھے اب بھی لوگوں کو دہشت گرد کہا جائے گا تو نتائج اچھے نہیں نکلیں گے۔

ہمارا معاشرہ جہاں جوہری قوت ہے وہاں ول ڈیورنٹ کے گرتے پتوں کا نمونہ بھی پیش کر رہا ہے۔ مایوسی کو اسلام میں اسی لیئے کفر کے مترادف کہا گیا ہے کہ یہ افراد اور معاشرے کے زوال کو ختم کرنے کے راستوں کو بند کر دیتی یے۔ ہمیں چایئے کہ ہم اپنی سوچ کو بدلیں اور ان سیاست دانوں کا محاسبہ کریں جنہیں معاشرے کو بدلنے کی قطعی ضرورت نہیں ہے۔

Title Image by pavlelederer2 from Pixabay

سینئیر کالم نگار | [email protected] | تحریریں

میں نے اردو زبان میں ایف سی کالج سے ماسٹر کیا، پاکستان میں 90 کی دہائی تک روزنامہ "خبریں: اور "نوائے وقت" میں فری لانس کالم لکھتا رہا۔ 1998 میں جب انگلینڈ گیا تو روزنامہ "اوصاف" میں سب ایڈیٹر تھا۔

روزنامہ "جنگ"، لندن ایڈیشن میں بھی لکھتا رہا، میری انگریزی زبان میں لندن سے موٹیویشنل اور فلاسفیکل مضامین کی ایک کتاب شائع ہوئی جس کی ہاؤس آف پارلیمنٹ، لندن میں 2001 میں افتتاحی تقریب ہوئی جس کی صدارت ایم پی چوہدری محمد سرور نے کی اور مہمان خصوصی پاکستان کی سفیر ڈاکٹر ملیحہ لودھی تھی۔

تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

streamyard

Next Post

تبصرہ کتاب "منتخب افسانے"

ہفتہ جولائی 27 , 2024
پریس فار پیس پبلیکیشنز کی طرف سے شائع ہونے والا شاہکار “منتخب افسانے” کی اعزازیہ کاپی مجھے قطر موصول ہوگئی۔
تبصرہ کتاب “منتخب افسانے”

مزید دلچسپ تحریریں