ابلاغِ افکار، متاعِ فن …حفیظ شاہد
تبصرہ نگار: پروفیسر رئیس نذیر احمد
(اسسٹنٹ پروفیسر گورنمنٹ گریجوایٹ کالج آ ف کامر س ، رحیم یار خان )
خان پور (ضلع رحیم یار خان ) کی مردم خیز دھرتی میں سینکڑوں نام ورہستیاں علم و ادب کے میدان میں کارہائے نمایاں سر انجام دے کرخود کو اَمر کر گئی ہیں ۔ میدانِ علم و فضل اور تحقیق و جستجو سے وابستہ بے شماراحباب درخشندہ ستاروں کی کہکشاں میں شامل ہوئے جن میں ایک نمایاں نام ’’حفیظ شاہد ‘‘ کا بھی شامل ہے ۔ اگرچہ میں حفیظ شاہد کے بارے میں زیادہ نہیں جانتا مگرعلمی و ادبی مجلہ ’’شعوروادراک‘‘ (اپریل تا جون 2021) شمارہ نمبر 6،’’حفیظ شاہد نمبر ‘‘ کے توسط سے حفیظ شاہدکی شخصیت اور فنی صلاحیتوں سے کسی قدر واقف ہو سکا ہوں ۔ جس کے لئے مدیر ’’شعوروادراک‘‘ محمد یوسف وحید کا شکریہ ادا کرنا ضروری سمجھتا ہوں اور یہ چند سطور اسی سلسلے کی کڑی ہیں ۔ ’’شعوروادراک‘‘کے حالیہ خاص نمبر کا مقصد دراصل ان کی شخصیت کو بھر پو رخراجِ تحسین پیش کرنا ہے ۔
ادب کا گلِ سر سبز شاعری کو سمجھا جاتا ہے ۔ اگر یہ کہا جائے کہ غزل حفیظ شاہد کی شاعری کا جلی عنوان ہے تو یہ غلط نہ ہوگا ۔حفیظ شاہد نے شعری اصناف میں غزل کو ذریعہ ٔ اظہا ربنایا ۔حفیظ شاہد کے شعری سفرمیں چھ شعری مجموعے ’’ سفر روشنی کا، چراغِ حرف ، مہتابِ غزل ، یہ دریا پار کرنا ہے ، فاصلہ درمیاں وہی ہے ابھی اور سورج بدل رہا ہے ‘‘شامل ہیں ‘جن میں حفیظ شاہد کا شعری سرمایہ محفوظ ہے۔ حفیظ شاہد کے ایوانِ غزل کو اگر خزینہ ٔ افکار کہا جائے تو شاید درست ہوگا ۔حفیظ شاہد نے اپنی شاعری میں جس رنگ و آہنگ کو کشید کیا ہے ‘ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ غزل کے روایتی موضوعات پر مضبوط گرفت اور کامل قدرت رکھتے تھے ۔
غزل فکر و نظر کی اس معراج پر ہوتی ہے جہاں سمندر قطرے میں سمٹ جاتا ہے ۔ اگر سوچ میں سچائی آجائے تو لفظ روشن ہوجاتے ہیں اور اسی سے تغزل نکھرتا ہے ۔ یہ ایک مبنی بر حقیقت صداقت ہے کہ شاعری میں پست خیالی غزل کی رسوائی کا سبب بنی اور اس کے مقابل ارفع خیال قابلِ تحسین اور وقار کی علامت ٹھہرا ۔
حفیظ شاہد کی ‘صنفِ غزل سے اس قدر انہماک اور وابستگی لائقِ رشک ہے ۔ ایک حساس شاعر کی یہ پہچان ہے کہ انسانی حوالوں سے اس کے دُکھ ‘ پریشانی اور خواہش کی ضرور ترجمانی کرتا ہے ۔ بے انصافی ، عدم رواداری ، اخلاقی قدروں کی پامالی ان کا خاص موضوع ہے جس کا عکس ان کی شاعری میں جابجا نظرآتا ہے ۔ بقولِ غالب :
’’ہے آدمی بجائے خود اک محشر خیال ‘‘
اسی مصرعے کے مصداق حفیظ شاہد کا تخلیق ساز ذہن ہمیشہ موافق خیالات کی تلاش میں مصروف رہا ہے ۔ حفیظ شاہد نے وسیع مطالعے کے تناظر میں معاشرتی طبقات کی نمائندگی اور مسائل کی عکاسی کے لئے غزل کو ذریعہ ٔ اظہار بنایا ۔ غم، اَلم ، حزن، ملال چوں کہ انسانی فطرت کا حِصہ ہیں ۔ اس لئے اس کی ہمہ گیری سے انکار ممکن نہیں ہے ۔ لیکن ایک شاعر کو اس سے کوئی سروکار نہیں ہوتا کیوں کہ وہ قلم کے آغوش میں پرورش پانے کا عادی ہوتا ہے ۔ اس لئے اس کی سوچ میں تخلیق کے پوشیدہ جواہر نمایاں ہوتے ہیں ۔
حفیظ شاہد نے اپنے مخصوص رنگِ تغزل سے واقعات کو دل آویز اور یادگار ماضی کا حسین سرمایہ بنا کر پیش کیا ہے ۔ ان کی غزل میں فکر کی گہرائی ، خیال کی وُسعت کے عناصر نمایاں نظر آتے ہیں ۔ ایک اچھے شاعر کا تخصص ہے کہ وہ فطرت کا عکاس بھی ہو ۔ حفیظ شاہد نے عشقیہ غزل کی بجائے شعوری اور مثبت فکر کو پروان چڑھایا ۔ جب ذخیرہ الفاظ وُسعت کا حامل ہو تو فکر پر قدرت خود بخود آجاتی ہے ۔ اسی سبب حفیظ شاہد کی غزل میں جدید و قدیم کا حسین امتزاج قاری کو مسحور کر دیتا ہے ۔
شاعری ‘سُلگتے جذبات کی عکاسی میں بہت اہم کردار ادا کرتی ہے ۔ حفیظ شاہد کتنے بیدار مغز اور عمدہ شاعر تھے ‘یہ جاننے کے لیے بھر پور اور عمدہ تحریروں سے مزین ’’شعوروادراک‘‘ کا تازہ شمارہ ’’حفیظ شاہد نمبر ‘‘معاون وبہترین ثابت ہوسکتا ہے ۔
بڑے ادیبوں اور شاعروں کو تعریف و ستائش کے لئے مجبور کر دینے والے حفیظ شاہد کو جو فنی اعتبار ملا‘ اس نے خان پور کی ادبی سرگرمیوں میں شاعری کی صنف میں غزل کو زندہ و جاوید کرکے جمالیاتی اظہار سے ہم آہنگ کر دیا ۔ حفیظ شاہد کی شاعری میں اُردو کی کلاسیکی روایت بھی موجود ہے ۔ وُسعتِ مطالعہ اور ریاضت کے ساتھ ساتھ ذخیرۂ الفاظ نے ان کی شعری قدر و منزلت میں نمایاں مثال قائم کی ہے ۔
بلاشبہ حفیظ شاہد اُردو زبان و ادب میں صنفِ شاعری کی بنیاد پر خان پور کے ایک یگانہ روزگار اہلِ علم تھے ۔ غزل اُن کی شاعری کی تابندہ ہیئت ہے ۔حفیظ شاہد غزل کے کہنہ مشق شاعر تھے ۔ اہلِ علم کو غزل کے آبگینے دان کرنے کے بعد قدرِنعت کی طرف بھی متوجہ ہوئے کیوں کہ نعتیہ شاعری کو وہ شاعر کی متاعِ فن سمجھتے تھے ۔ حفیظ شاہد نعتیہ کلام میں فنی محاسن کو ہادیٔ برحق ؐ کے خزانہ جو د و سخا سے منسوب کرتے ہیں ۔حفیظ شاہد نعتیہ کلام کو صداقت و حقیقت کی روشنی سے اُجالنے کی سعی ٔ پیہم میں کہاں تک سرخروہو سکے ہیں ‘ اس کا فیصلہ قاری اُن کے نعتیہ کلام کو پڑھ کر آسانی سے کر سکتا ہے ۔کیوں کہ حفیظ شاہد نعت کو اپنے لئے ایمان اور سلامتی قرار دیتے ہیں ۔
حفیظ شاہد کا دامن حمد ، نعت ، منقبت سے خالی نہیں رہا ۔ ایک غزل گو کو جب اللہ کی طرف سے توفیق عطا ہوتی ہے تو اس کے اظہاریے کو نعت کا آہنگ بھی نصیب ہو جاتا ہے ۔ جب شاعر کے دل میں محبوبؐ کی محبت پیدا ہوجائے تو قلم میں تاثیر خود بخود پیدا ہوجاتی ہے ‘ پھر غزل کو نعت کا آہنگ نصیب ہوجانا کچھ مشکل نہیں ہوتا ۔
نعت ایک سرمدی آواز ہے جو نشاطِ روح اور دل کی آسودگی سے ہم کنار کرتی ہے ۔ نعت کو آنسو کی دُعا اور عاشقوں کی صدا بھی کہا گیا ہے ۔ بے شک حفیظ شاہد کی عمرِ عزیز پر غزل کا اَثر زیادہ ہے مگر نعت میں محبوبِ حقیقی کا حُسن اور جمال بدرجہ اُتم لیے ہوئے ہیں اور جوشِ عقیدت کے ایسے پھول کھلاتے چلے گئے ہیں جس کی خوش بُو ہر سُو پھیلتی چلی گئی ہے ۔ ان کی نعت فنی محاسن سے اتنی زرخیز ہے کہ قاری کو مسحور کردیتی ہے ۔ حفیظ شاہد کے نزدیک نعت کہنا دنیا کی دیگر تمام تمنائوں اور خواہشوں سے افضل ترین سرمایہ ٔ حیات ہے ۔ ا ن کا عالمانہ رنگ، عمدہ زبان و بیان پر محیط ہے ۔ ردیف ، قافیہ پر مضبوط گرفت اُن کی صنعت گری کا ثبوت ہے ۔ الفاظ کا دیدہ زیب انتخاب ، تکرارِ لفظی ان کے کلام کے نمایاں فنی محاسن ہیں ۔ نعتیہ اشعار کی رعنائی سے اپنے دامنِ اظہار کو آراستہ رکھا ۔ جذبۂ فکر اور ندرتِ اظہار ‘ہمیشہ قولِ صادق کا متلاشی رہنا ۔ مختصر یہ کہ حفیظ شاہد کی نعتیہ شاعری ہمیں مختلف جہتوں سے روشناس کراتی ہے ۔
’’شعوروادراک‘‘کے مذکورہ شمارے میں لکھنے والوں کی ایک طویل فہرست ہے ۔ ہر ایک نے مختلف انداز میں حفیظ شاہد کی شخصیت وفن کومنفرد اُسلوب میں بیان کیا ہے ‘ جو بہت خوب صورت اور عمدہ کاوش ہے ۔خصوصی شمارہ میں مظہر عباس نے ’’حفیظ شاہد کی تاریخ گوئی کی روایت اور حفیظ شاہد کے قطعات ِ تاریخ گوئی کا تحقیقی و توضیحی مطالعہ ‘‘ بڑے جان دار انداز میں پیش کرکے خوب داد سمیٹی ہے ۔دیگر قلم کاروں کے ساتھ صادق جاوید نے بھی اُچھوتے انداز میں قارئین کو اپنا اَسیر بنایا ہے ۔
مخیر ِ علم و ادب محمد یوسف وحید فروغِ ادب کے لئے بغیر کسی ستائش کے چلہ کشی میں جس انہماک سے مصروف ہیں‘ یکے بعد دیگر ے اس کے ثمرات علمی دبستان کی شکل میں ظہور پذیر ہورہے ہیں ۔ ہم مستقبل میں بہت سی توقعات وابستہ کرکے اسے ادبی میدان میں ایک قیمتی اثاثہ قرار دے سکیں گے ۔ کچھ لوگوں کے وجود معاشرے میں کسی نعمت سے کم نہیں ہوتے جو جہدِ مسلسل کو اپنے اوپر فرض کر لیتے ہیں جن کے جینے کا مقصد صرف اور صرف آرام طلب اور سہل پسند زندگی گزارنے والے لوگوں کو بامقصد خیالات دینا ہوتا ہے ۔
مدیر مجلہ’’شعوروادراک‘‘ محمد یوسف وحید ‘حفیظ شاہد کے قد ر دانوں اور نیاز مندوں میں سے ایک ہیں ۔ حفیظ شاہد کے غیر مطبوعہ کلام کی تلاش کا مرحلہ کس قدر حوصلہ شکن اور صبر آزما تھا ۔ اس سلسلے میں محمد یوسف وحید کی کاوش ، جستجو اور لگن قابلِ تحسین ہے کہ نہ صرف کلام کو بازیافت کیا بلکہ اس کو حُسنِ ترتیب سے شائع کرکے ایک مستحسن روایت کو نہایت عمدگی سے نبھایا ہے جو ان کے عزم و استقلال ، پُر عزم حوصلے اور عمدہ ذوق کی شان دار مثال ہے ۔ اُمید ہے اسی محنت ، خلوص ، دیانت ، ولولے ، ثابت قدمی اور خوش اُسلوبی سے تمام رکاوٹوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اپنے ادبی سفر کو جاری وساری رکھیں گے ۔ان شاء اللہ
٭٭٭
پروفیسر رئیس نذیر احمد
اسسٹنٹ پروفیسر گورنمنٹ گریجوایٹ کالج آ ف کامر س ، رحیم یار خان
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔