ابھی کچھ لوگ باقی ہیں

ابھی کچھ لوگ باقی ہیں


آج بہت عرصے بعد قلم کو تحریک ملی ، لوگ مجھے لاکھ کہتے رہیں کہ لکھو،لکھو لیکن میں اس وقت تک نہیں لکھ پاتی جب تک کہ کوئی بات،کوئی منظر یا کوئی شخص میرے دل کو چھو نہ جائے،بناوٹی الفاظ ،قافیہ ردیف کے جھنجھٹ سے آزاد دل کی بات دل سے اور سادگی سے سینہِ قرطاس پر اتارنا ہی مجھے قلم کے ساتھ انصاف لگتا ہے۔میں کوئی باقاعدہ کالم نگار یامنجھی ہوئی تخلیق کار اور شاعرہ تو نہیں ہوں البتہ تخلیقی ادب آداب سے تھوڑی بہت شناسائی ضرور ہے۔میں ایک پاکستانی اسکول میں پڑھاتی ہوں اور دبئی میں مقیم ہوں۔


ہوا کچھ یوں کہ میری پرنسپل صاحبہ نے ایک د ن مجھے آفس بلا کر کہا کہ ایکسپو سنٹر شارجہ بین القوامی کتابی میلے میں اردو کا بھی ایک سٹال لگا ہے جس کے سی ای او سرمد صاحب ہیں ۔ان کو اسٹال کے لیےایک ایسے اسسٹنٹ کی ضرورت ہے جس کی اردو ادب اور کتابوں سے شناسائی ہو۔میں نے تمہارا نام ان کو دیا ہے وہ تم سے رابطہ کریں گے تو تم ان سے تفصیلات پوچھ لینا۔بتاتی چلوں کہ اس اسٹال میں پرنسپل صاحبہ کی والدہ محترمہ نصرت نسیم صاحبہ کی چار کتب بھی موجود تھیں ۔اس لیے یہ میلہ ہمارے لیے کچھ زیادہ دلچسپی کا مرکز بنا ہوا تھا۔
خیر یہ 11 نومبر ،پیر کا دن تھا ۔ شام کو سرمد صاحب کی کال آئی انہوں نے بتایا کہ ہمارا اسسٹنٹ کچھ مصروفیات اور چھٹی نہ ملنے کے باعث نہیں آ پائے گااس کا اچھا خاصا تجربہ ہے ۔آپ کی پرنسپل عائشہ نسیم صاحبہ نے آپ کی کافی تعریف کی ہے آپ براہِ مہربانی کل اردو بُک ورلڈ کے اسٹال پر تشریف لے آئیے وہاں آپ کو میرے چچا ملیں گے۔ہمیں ان سے بات کر کے اس بات کا بھی انکشاف ہوا کہ اس میلے کو لگے ہوئے 6 دن بیت چکے ہیں اور 6 دن باقی ہیں۔
ہمارے سہل پسند،کام چور دل نے ہمیں مشورہ دیا کہ جانے سے انکار کر دو ،اسکول کے فوراً بعد وہاں جا نا اور رات 11 تک کام کرنا تمہارے بس کی بات نہیں ہے۔لیکن ہم نے دل کی نہ مانی اور دل کو تسلی دی کہ 6 دن کی ہی بات ہے ،گزر جائیں گے ،اور پھر یہ کام تمہاری پسند کا بھی تو ہے۔یہی سوچ کر میں نے کمرِ ہمت باندھ لی۔یہ الگ بات کہ میں نے اپنی ساری زندگی میں اتنا کام نہیں کیا جتنا ان 6 دنوں میں کیا۔
اگلے روز میں اسکول سے فوراً بعد شارجہ ایکسپو سینٹر پہنچی ۔اردو اسٹال پر میری ملاقات ایک 80 سالہ بزرگ سے ہوئی جو کہ سرمد صاحب کے چچا محترم تھے ۔ایک نہایت مہذب،شائستہ اور دلچسپ شخصیت کے مالک ۔سرمد صاحب اور انکل فقط اردو اسٹال لگانے اور کتابو ں کے عشق میں لندن سے دبئی آئے تھے۔ان کی انتھک محنت اور کتابی جنون دیکھ کر میں سوچتی رہی کہ آج بھی ایسے لوگ موجود ہیں جو بے غرضی سے اپنے ملک و قوم کے نام کو روشن کرنے اور ادب کے فروغ میں جُتے رہتے ہیں۔یہ دونوں لندن میں 26 سال سے اپنے خاندان کے ساتھ مقیم ہیں ۔مبشر احمد خان چیف انجنئیر ،چارٹر لینگویسٹک،انٹرپریٹر اور ٹرانسلیٹر یہ انکل کا مختصر تعارف ہے ،اگر انکل کے متعلق تفصیل لکھنے لگی تو مضمون کا رخ بدل جائے گا۔خیر انکل نے مجھے سمجھا یا کہ کرنا کیا ہے۔
اپنی سروس کے دوران بطورِ اردو ٹیچر ،اردو میں بچوں کی خستہ حالی اور کتب بیزاری دیکھ کر مجھے بڑی شدت سے احساس ہونے لگا تھا کہ:
اردو کی یہ مہک یہ نشہ ٹوٹنے کو ہے
یہ آخری صدی ہے کتابوں سے عشق کی
لیکن اسٹال میں کام کرنے کے دوران مجھے اندازہ ہوا کہ آ ج بھی کتابوں کے دیوانے موجود ہیں اور میرا آج اس کالم کو لکھنے کا مقصد بھی یہی ہے کہ آپ کو اسٹال کے کچھ دلچسپ واقعات بتا سکوں ۔
جس روز میں اسٹال پر گئی خیبر، ٹی،وی چینل والے آگئے ،انہوں نے ہمارا انٹرویو لیا ،لیکن اللہ جانے انہوں نے وہ انٹر ویو کہا اور کب نشر کیا ۔اسی دن کی بات ہے کہ مٹر گشت کرتے چند بھولے بھٹکے اس سٹال کا رخ کرتے کتابوں کو الٹ پھیر کر دیکھتے ،رکھتے اور چلتے بنتے ۔میں دل میں طنزاً مسکراتی اور کہتی کہ
ملنے آئے ہو چھوڑنے کے لیے
اس تکلف کی کیا ضرورت تھی
دل نا امید ہونے کو ہی تھا کہ ایک شخص اسٹال پرآیا ،لب و لہجے سے لگا کہ شاید پٹھان ہے لیکن معلوم ہوا کہ ایرانی ہے ۔وہ شخص جب جب غالب ،اقبال ،میر کی کتاب اٹھاتا ہم حیرت کے سمندر میں ڈوبتے جاتے کہ ایک غیر زبان اور غیر ملکی اور اردو سے اس قدر لگاؤ اس نے مزید بتایا کہ اتنی حیرانی کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ میرے گھر میں اس اسٹال سے کئی زیادہ کتابوں پر مشتمل ایک لائبریری موجود ہے،ہم اسی حیرت و مسرت کے سمندر میں ہچکولے کھا ہی رہے تھے کہ ایک نیپالی بھائی نے اسٹال کا دورہ کیا اور اردو
ادب کے ایسے ایسے نامور مصنفین اور افسانہ نگارو ں کی کتب کا مطا لبہ کیا کہ ہم گنگ رہ گئے اور میں اس وقت مزید حیرت کے سمند ر میں ڈوب گئی جب ایک عربی نے انتہائی دلچسپی کے ساتھ اسٹال کا جائزہ لیا اور اپنے کیمرے میں ریکارڈ کیا اور پاکستان کی تاریخ کو انگلش میں پڑھنے کی خواہش ظاہر کی لیکن اس وقت ہمارے پاس ایسی کوئی کتاب موجود نہ تھی۔کئی مصنفین ،کالم نگاروں اور شعراءنے اسٹال کا دورہ کیا،جن میں آمنہ مفتی صاحبہ،راحت عائشہ اور کلثوم چوہدری ، رومانہ حسین اور ڈاکٹر اسامہ کےنام قابلِ ذکر ہیں ۔
یہ بات انتہائی خوش آئین ہے کہ ہمارے ہندوستانی بہن بھائیوں نے سب سے زیادہ اس اسٹال کا وزٹ کیا اور ان کا ادبی ذوق انتہائی کمال کا تھا۔ان کے ہاتھ اقبال،میر و غالب ،حالی ،کرشن چندر ،جسے نامور ادباء و شعرا ءکی کتابوں تک نہ صرف جاتے تھے بلکہ وہ ان کتابوں کو اپنے پیاروں کے لیے تحفتاً خرید بھی رہے تھے۔
اسٹال سے کچھ ایسی خواتین کا بھی گزر ہوا ،جو آتی تھیں اور آغاز کرتی تھیں اردو ادب کے نامورادبا ء کی کتابوں سے ،پھر گھومتے گھامتے نمرہ احمد اور عمیرہ احمد کی تمام کتابوں کی قیمتیں پوچھتی تھیں لیکن آخر میں ان کی نظرِ بے تاب جا پڑتی تھی سسپنس اور جاسوسی ڈائجسٹ پر ،ان کے معصوم چہروں پر ایک ایسی فاتحانہ مسکراہٹ آتی تھی کہ گویا کوئی گمشدہ خزانہ پا لیا ہو ،جلدی جلدی 5 ،6 ڈائجسٹ اٹھاتی تھیں ،تبرکاً سینے سے لگاتی تھیں ، قیمت ادا کرتی تھی اور خوش ہوتے ہوئے چلی جاتی تھیں۔نمرہ ،عمیرہ کے ناول اور دیگر اردو ادب پُر شکوہ آنکھوں سے انہیں جاتا دیکھتا رہ جاتا تھا۔ یہ الگ بات کہ ان معصوم خواتین کی زیادہ تعداد پاکستان سے ہی تھی اور پھر ایسا بھی ہوا کہ اسماء زبیری نامی ایک ایسی پاکستانی خاتون آخری دن اسٹال پر آئیں جن کے ادبی ذوق نے مجھے بے حد متاثر کیا اور جن کو دیکھ کر دل نے بے اختیار کہا:
سلیقے سے ہواؤں میں وہ خوشبو گھو ل سکتے ہیں
ابھی کچھ لوگ باقی ہیں جو اردو بول سکتے ہیں۔


یہ اسٹا ل کا آخری د ن تھا۔لیکن آتے ہوئے انکل سے ملاقات نہ ہو پائی کیونکہ انکل حمزہ عباسی کا شو دیکھنے گئے ہوئے تھے۔گزشتہ روز بھی وہ وصی شاہ کا پروگرام سننے کافی دیر تک بیٹھے رہے۔اسٹال میں گزرے یہ چھ دن جسمانی تھکاوٹ لیکن ادبی تراؤٹ سے بھر پور تھے۔جس نے مجھے ادب کی ایک نئے دنیا اور کئی دیوانے سے ملوایا ۔

Title Image background by Dirk from Pixabay

تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

streamyard

مزید دلچسپ تحریریں