اٹک کی سر زمین صدیوں سے اہل علم کا مرکز رہی ہے اس مردم خیز خطے نے دنیا کو ایسے ایسے ہیرے تراش کر دئیے جن کا نعم البدل اور ثانی آپ کو کہیں بھی نہیں ملے گا
یہ سر زمین جس نے احمد ندیم قاسمی جیسی قد آور شخصیت کو پالا پوسہ وہیں فتح محمد ملک منو بھائی سید ضمیر جعفری مرزا حامد بیگ سعد اللہ کلیم نذر صابری سلطان محمود بسمل احمد وحید اختر اور عبداللہ راہی مرحوم کو اپنے دامن میں جگہ دی ان کو ادبی دنیا میں سایہ دار اشجار کی صورت میں کھڑا کیا ہزارہا تشنگانِ علم ان سے فیض یاب ہوئے اور تاقیامت ہوتے رہیں گے
ان معتبر اور مستند شخصیات عبداللہ راہی مرحوم اپنی جداگانہ شخصیت کے سبب بہت منفرد حثیت کے مالک تھے آپ ایسے درویش کہ زندگی میں ہی ان سے ظہور پذیر ہونے والی کرامات سے بہت سارے لوگ واقف ہیں اور میں یہ بات وثوق سے کہتا ہوں کہ عبداللہ راہی مرحوم صاحب کشف انسان تھے حسن و اخلاق کا بہترین نمونہ تھے جس انسان نے ان کی شخصیت کا مطالعہ کیا وہ ان سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہا اگر یہ سوال کیا جائے کہ ضلع اٹک میں وہ کون سا شاعر ہے جو اپنے دھیمے مزاج کی وجہ سے مشہور ہے تو بے ساختہ عبداللہ راہی کا نام ہونٹوں پر مچل جاتا ہے عبداللہ راہی مرحوم ادب کی دنیا میں جس وقت داخل ہوئے اس وقت اردو شاعری اپنی کلاسیکی راویات کو اپنے دامن میں سمیٹے ہوئے تھی راہی صاحب نے اپنی ذات کے اسلوب کو اردو شاعری کے کلاسیکی مزاج کے ساتھ جوڑا اور ایسی تخلیقات پیش کیں کہ لوگ دھنگ رہ گئے وہ ورسٹائل تخلیقار تھے انہوں نے صرف غزل میں ہی نام پیدا نہیں کیا بلکہ نظم کہی تو اسے چار چاند لگا دئیے غزل اور نظم کے علاوہ نعتِ رسولِ مقبول ؐ اور منقبت سید الشہدا جب سناتے تو سماں باندھ دیتے تھے رباعیات میں ان کا ثانی شاید ہی کوئی ملے
حیران کن بات یہ ہے کہ اس دور میں عبداللہ راہی صاحب نے ایک طویل مثنوی تخلیق کی جس کا نام بحرِ ایثار ہے یہ مثنوی اپنے مضمون کے حوالہ سے ایسی یادگار تصنیف ہے جسے زمانہ کبھی بھلا نہیں سکے گا
ویسے تو ان کے بے شمار اشعار ضرب المثل ہوئے لیکن ایک شعر ایساہے جس کی گونج تمام اردو داں طبقے میں سنائی دیتی ہے شعر ملاحظہ فرمائیں
۔۔۔ چند گنتی کے ہی انسان ہیں سرمایہ زیست
یوں تو مخلوقِ خدا آٹھ ارب بنتی ہے
ان کے ہنر کی پختگی ایسی ہے کہ قاری انہیں ڈوب کر پڑھتا ہے رنگا رنگ مضامین ان کی شاعری میں اپنی روشنی بکھیرتے دکھائی دیتے ہیں
ان کے موضعات قدیم بھی ہیں اور جدید بھی اگر آپ ان کی نظم گڈری کا لعل ملاحظہ کریں تو آپ ان کے اسلوب کی داد دئیے بغیر نہیں رہ سکیں گے مختصر یہ کہ اکیسویں صدی کے پیدوار مسائل پر ان کا قلم جب اٹھا تو کمال کر دیا مثلا صدام حسین ۔فلسطین کشمیر کی تحریکِ آزادی دہشت گردی وغیرہ یہ سب موضعات ان کے شعروں میں آتے ہیں اور کھل کر اپنا جلوہ دیکھا جاتے ہیں انہوں نے جب بھی لکھا کھل کر لکھا ڈھکے چھپے طریقے سے بات کرنا ان کی شخصیت کے منافی تھا جیسے صاف گو شخص تھے ویسے ہی صاف گوئی سے کام لیا اور دیانت داری سے اپنے منصب کا حق ادا کیا
عبداللہ راہی ملک لعل خان کے گھر 15 دسمبر 1937 کو متولد ہوئے آپ نے میٹرک کا امتحان گورنمنٹ ہائی سکول اٹک سے پاس کیا ایف اے گورنمنٹ کالج اٹک سے جبکہ بی اے کرنے کیلئے زمیندار کالج گجرات میں داخل ہو گئے اور امتیازی نمبروں سے امتحان پاس کر لیا پھر آپ جامعہ پشاور میں ایل ایل بی کے سلسلہ میں داخل ہوئے اور نمایاں پوزیشن لے کر ایل ایل بی کی ڈگری حاصل کی اور وکالت کے پیشہ سے منسلک ہو گئے آپ نے شعر گوئی کا آغاز 1956 سے کیا اور اس وقت کی دو بڑی ادبی تنظیموں بزمِ اردو اٹک اور حلقہِ اربابِ ذوق اٹک کے رکن رہے
اسلامی موضوعات
کی طرف ان کا رحجان شروع سے تھا اسلامی موضوعات کو بہت خوب صورت انداز کے ساتھ برتا کچھ شعر ملاحظہ فرمائیں نظم سید الشہدا سے ایک بند یہ نظم حضرتِ حمزہ سے متعلق ہے
۔۔۔۔ابتدا میں ہی انھوں نے کہہ رکھا تھا آپ سے
آ پڑی مشکل کوئی تو جان کر دوں گا فدا
کہہ رہے تھے اج پھر گویا دھانے نعش سے
میں نے اے شاہِ رسل وہ عہد پورا کر دیا
عبداللہ راہی کی نظموں کے موضوعات پڑھ کر آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ ان کہ نظر کس بلندی پر تھی مثال کے طور پر لبیک ؛ انشراھ نور ؛ شیخ الاسلامیہ ؛ بلیغالارض ؛ دہلیز؛ حلقہِ زنجیر ؛ سیدالشہدا؛ دارالمقافات ؛ یومالزینہ ؛ تجدید؛ گڈری کا لعل؛ ابوتراب؛ خودکشی؛ اگلے لوگ؛ اختیار؛ مواخذہ ؛ پگلی ؛خدشہ؛ استخلاص؛ وغیرہ دیکھی جا سکتی ہیں
غزل عبداللہ راہی مرحوم کی پسندیدہ صنعف تھی آپ نے غزل کے مضامین کو دلکش پیرائے میں بیان کیا مختلف غزلیات سے چند اشعار آپ کی خدمت میں پیش کرتا ہوں
۔۔۔۔کسی کا دل جو دکھایا تو اس کی آہوں سے
سکوں تمھارا بھی سرکار کیا نہ اجڑے گا
۔۔۔یہ کیا قربِ قیامت ہے کہ دل سے
محبت کا یقین اٹھنے لگا ہے
۔۔ جو کچھ ہواء درست ہواء خیر چھوڑئیے
اب کیجیے گا کس سے گلہ خیر چھوڑئیے
خود جس نے ساتھ رہنے کی قسمیں دلائی تھیں
وہ چھوڑ کر چلا بھی گیا خیر چھوڑئیے
۔۔۔۔ابھی تک اس گئے گزرے جہاں میں
وفا کا سلسلہ ٹوٹا نہیں ہے
۔۔ایثار؛ وفا ؛ خیر خھیی ؛ صد تحمیل
اب محض کتابوں میں حوالوں کی طرح ہیں
۔۔۔ آپ مانیں یا نہ مانیں جو بھی کچھ دیکھا سنا
ھم نے سچ سچ کہہ دیا سرکار سب کے سامنے
۔۔۔۔اورں کے ساتھ آئے تھے
چپکے سے اک نگاہ کی
ایسی بھی کیا عیادتیں؛ پوچھا نہ حال تک میرا
۔۔۔کیجیے انتظار کیا ؛ عہد نبھائیں گے نہیں
آنے کا کہہ گئے تو ہیں؛دیکھنا آئیں گے نہیں
۔۔۔گروں کو اٹھایا نہیں آپ نے
بڑا پن دیکھایا نہیں آپ نے
وہی کی وہی رہ گئیں رنجشیں
دلوں کو ملایا نہیں آپ نے
عبداللہ راہی مرحوم نے بے شمار قطعات تخلیق کیئے اور میں یہاں مثال کے طور پر صرف ایک قطعہ پیش کرتا ہوں جو روزنامہ نوائے وقت میں آج سے نو سال پہلے شائع ہواء تھا
۔۔۔مجھے خود اپنے ہی بازوئے تیغ زن کے خلاف
عجیب ڈھنگ سے اول تو اس نے اکسایا
ہوئے بہم جو نبرد آزما تو پھر چھپ کر
مری سپاہ پہ شب خون مارنے آیا
میں آخر میں معروف علمی شخصیت علامہ عبدالعزیز خالد کے چند جملے پیش کرتا ہوں جو انہوں نے عبداللہ راہی مرحوم کے بارے میں لکھے
جناب عبداللہ راہی کو تاریخ اور اسلاف سے خاص عقیدت ہے جس کا اظہار انہوں نے بڑی ندرت و قدرت سے کیا ہے انہیں زبان پر دسترس بھی ہے اور بیان پر عبور بھی
عبد اللہ راہی مرحوم نے درج ذیل شعری مجموعے یاد گار چھوڑے ہیں
1۔۔۔۔جبینِ دل مطبوعہ 1984
2۔۔۔۔ تفسیرِ وفا مطبوعہ 2004
3۔۔۔۔ بحرِ ایثار مطبوعہ 2017
4۔۔۔ رفعتِ عجز مطبوعہ 2019
عبداللہ راہی یکم نومبر 2018 کو اس جہانِ فانی سے پردہ فرما گئے تھے آپ ہزاروں سوگواروں کی موجودگی میں ان کے آبائی گاوں ہمک تحصیل فتح جنگ ضلع اٹک میں سپردِ خاک کیا گیا آخری شاعری مجموعہ رفعتِ عجز ان کی وفات کے بعد ان کے فرزند ملک عدنان نے بہت محبت سے شائع کیا اور رہتی دنیا تک ان کی تمام شاعری دلوں کو لذت یاب کرتی رہےگی۔
صحافی، کالم نگار، مصنف
تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔