عامر بخاری کی کتاب یادیں

عامر بخاری کی کتاب یادیں


تبصرہ نگار:۔ سید حبدار قاٸم

فکری عفت انسان کو اوج خیال سے ہمکنار کرتی ہے کوٸی بھی انسان جمالیات سے خالی نہیں ہوتا اسے انسان کے سارے رنگ اچھے لگتے ہیں فکری عفت جب الہام سے مستنیر ہوتی ہے تو الفاظ کی صوتی ترنگ اشعار کی صورت میں ظاہر ہوتی ہے اگر یہ اشعار اوزان کی دولت سے مالا مال ہوں تو بہت جلد قاری کی فکر و نظر میں اترتے چلے جاتے ہیں شاعری کوٸ آسان کام نہیں یہ جوٸے شیر لانے کے مترادف ہے اس میں خونِ جگر سے چراغ جلانے پڑتے ہیں کلیجے کی تواناٸیاں صرف کرنا پڑتی ہیں تب جا کر شعر بنتا ہے عامر بخاری خوبصورت لب و لہجہ کا شاعر ہے اس کی شاعری میں سہل ممتنع اور وارفتگی ہے چھوٹی بحور میں کلام کہتا ہے اور اس کی شاعری میں فطرت کی ضیا پاشیاں بدرجہ اتم موجود ہیں وہ جو دیکھتا ہے وہی لکھتا ہے عامر بخاری احساسات کا شاعر ہے وہ معاشرے کی ساری نبضیں جانتا ہے وہ ہر شعر میں کوٸی نہ کوٸی پیغام دیتا ہے پولیس کے محکمے میں ایسے افراد جو علم و فن سے منسلک ہوں وہ محکمے کا حسن ہوتے ہیں پاکستانی پولیس میں ایسے کٸ نام ہیں جنہوں نے پیشہ ورانہ فراٸض کی بجا آوری کے ساتھ ساتھ قلم اور کاغذ کو اپنایا اور لکھتے چلے گٸے عامر بخاری بھی پولیس کا فخر ہے

عامر بخاری کی کتاب یادیں


فیس بک پر میری ملاقات عامر بخاری سے ہوٸی اور آج تک ہم آپس میں رابط رکھے ہوٸے ہیں عامر بخاری نے اپنی کتاب ” یادیں ” مجھے عنایت کی میں نے مکمل پڑھی اور کٸ اشعار پر رک گیا کیونکہ اس کے کٸ اشعار مجھے کھینچ رہے تھے اور دعوتِ فکر و عمل دے رہے تھے میں کتاب پڑھتا گیا اور عامر کی صلاحیتوں کا معترف ہوتا گیا جب میری نظر پاکستان کے ہی نہیں پوری دنیا کے معروف و مقبول شاعر و ادیب امجد اسلام امجد (مرحوم) کے تاثرات پر پڑی تو
عامر بخاری کی پختہ شاعری پر سند مل گٸ اور میں نے سوچا کہ عامر بخاری کی داد و تحسین کے لیے اپنے چند الفاظ راۓ کی صورت میں پیش کر دوں کیونکہ بلاشبہ یہ کتاب اُردُو ادب کی ترویج میں ایک دل نشین اِضافہ ہے۔
عامر بخاری کے نگار خانہ ٕ شعر میں ڈھلے فن پاروں کا عکس ہاٸے جمیل اس کے ان فرخندہ بخت اشعار میں ظاہر ہے جو آپ احباب کی نذر کرتا ہوں :۔

ہر اک دن کربل کا اب تو
ہر اک شب عاشوری سی ہے

میری قسمت میں بھی منگل آیا ہے
اب وہ مجھ سے ملنے جنگل آیا ہے

دروازہ کھل جاتا ہے
نام لکھوں جب تالے پر

چاند زمیں کی چھت پر تھا
اس کے کان میں بالی تھی

کبھی دنیا کبھی کٹیا لُٹا کر
فقیری بھی سخاوت چاہتی ہے

ان کو آنا پڑا ہے اب عامر
میری میت پڑی ہے کمرے میں

رشتے تھے سب کاغذ کے
بستی دیکھی بھالی تھی

عامر بخاری کے ہر شعر میں اسلوبیاتی صباحت کی جھلک محسوس ہوتی ہے اشعار کا ریشمی تبسم زندگی کو رنگ دیتا ہوا گزر جاتا ہے مجھے یہ کہنے میں کوٸ عار نہیں ہے کہ جیسے شبنم اگر پھول پر پڑی ہو اور اس کو غور سے دیکھا جاۓ تو کبھی اس میں سرخ رنگ نظر آتا ہے اور کبھی نیلا اور کبھی ارغوانی رنگ کی شعاٸیں پیدا کرتا ہوا محسوس ہوتا ہے حالانکہ یہ شبنم پانی کا ایک لطیف قطرہ ہوتی ہے جو صدف کے دل میں جاۓ تو گوہر بن جاتی ہے
پھول پر پڑے تو پھول کی رعناٸی بڑھ جاتی ہے اور وہ نکھر جاتا ہے بالکل اسی طرح عامر بخاری کی شاعری کہیں عشق و محبت کے رنگ دکھاتی ہے اور کہیں معاشرے کی نا ہمواریاں دکھاتی ہے وہ انسانیت کے درد سے لیس ہے اسے غریبی کے دریا چلتے ہوٸے دکھاٸی دیتے ہیں تو وہ آسمان کی طرف منہ کر کے چیخ اٹھتا ہے اور رب سے فریاد کرتا ہے میں عامر بخاری کے عشق و مستی میں لپٹے ہوٸے چند شعر آپ کی بصارتوں کی نذر کرتا ہوں تاکہ آپ بھی عامر بخاری کے خیالات اور اوجِ فکر کے دھنک رنگ خود اپنی آنکھوں سے دیکھ کر لطف لے سکیں :۔

دِل کی اینٹیں جوڑ رہا ہُوں
جِیون اک مزدوری سی ہے
مُجھ کو گھائل کر دیتی ہے
اُسکی آنکھ جو بھُوری سی ہے

اپنے ساتھ پرِندے بھی اُڑ جائیں گے
ہِجرت کرنے والوں نے کب سوچا تھا

میری جیب میں پیسہ ہوتا
مَیں بھی تیرے جیسا ہوتا
امراؤں کو بھُوک ستاتی
اُن کے گھر بھی فاقہ ہوتا

مَیں پھر تیشہ اُٹھا کر چل پڑا ہُوں
کہانی پھر حِکایت چاہتی ہے
زمانے کے رِواجوں سے نِکل کر
مَحَبت اب بغاوت چاہتی ہے

تُمہارے بعد کیا دُنیا، تُمہارے بعد کیا ہستی
تُمہیں ہم نے پُکارا ہے تُمہاری چُپ کو جھِیلا ہے

تمام عُمر اُداسی کے جال میں رہنا
بہت کٹھن ہے کِسی کے خیال میں رہنا

کِتنے کمرے بناؤں گا اِس پر
ایک مرلہ مِلا ہے قِسمت سے

آخر میں دعا گو ہوں کہ اللہ رب العزت عامر بخاری کو مزید اوجِ فکر اور فکری عفت عطا فرماٸے۔آمین

تمام تحریریں لکھاریوں کی ذاتی آراء ہیں۔ ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

streamyard

Next Post

فہد شیخ ایڈوکیٹ کا ولیمہ

ہفتہ دسمبر 16 , 2023
فہد شیخ ایڈوکیٹ کے دعوت ولیمہ میں تحصیل بھر سے سیاسی،سماجی،صحافتی اور مذہبی شخصیات نے شرکت کی جن میں سینئر سیاست دان
فہد شیخ ایڈوکیٹ کا ولیمہ

مزید دلچسپ تحریریں